Mullahs march in Pakistan from kafir Ahmadis to kafir Shias – by Nazi Naji
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں….سویرے سویرے …نذیرناجی
اسلام میں مذہبی پیشواؤں کی گنجائش نہیں ہے۔ دین کو پیشہ بنانے کی بھی اجازت نہیں ۔ اسی چیز کو روکنے کے لئے اللہ تعالی اور رسول کریم ﷺ نے ہمارے دین کو انتہائی سادہ اور قابل فہم رکھا ۔آپ کو مسلمان ہونے کے لئے ،پنڈت یا پادری ٹائپ کے کسی مذہبی ٹھیکدار کی محتاجی نہیں۔جو شخص چاہے اللہ تعالی کی وحدانیت پر ایمان لاکر اور رسول ﷺ کو اس کا آخری نبی تسلیم کر کے، دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔خود نماز پڑھ سکتا ہے ۔مسجد میں جا کر ادا کر سکتا ہے اور وہ مسلمان جسے دوسرے نمازی اپنا امام بنا لیں وہ نماز پڑھوا سکتا ہے۔
مناسک حج کااگر علم میں ہے ،تو حج کے تمام مراحل بھی خود ہی طے کر سکتا ہے ۔ غالباً 1982 ء میں ”جنگ“ کے لئے پروفیسر غفور احمد کا انٹر ویو کرتے ہوئے، میں نے سوال کیا تھا کہ ”کیا اسلام کو پیشہ بنانے کی اجازت ہے اور دینی فرائض ادا کرنے کے لئے معاوضہ دے کر مولوی کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے ؟۔“ پروفیسر صاحب کا جواب تھا کہ” یہ آپ لوگوں کا قصور ہے اگر آپ سارے دینی فرائض خود ادا کر سکتے ہوں تو کسی کو مولوی صاحب کی ضرورت نہیں ۔ “
پروفیسر صاحب کی بات سو فیصد درست ہے کہ اپنے سادہ اور عام فہم دین کے تحت، جو فرائض ہمارے ذمے ہیں،انہیں ادا کرنے کی خود اہلیت نہیں رکھتے اور اس بنا پر مولویوں کی خدمات حاصل کرتے اور اس کا معاوضہ دیتے ہیں ۔ درحقیقت یہ دیگر مذاہب میں ہوتا ہے ، کہیں پنڈت ، کہیں پادری، کہیں پروہت ،ہر مذہب میں پیشہ وروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم نے بھی دیکھا دیکھی اسی طرح کے طور طریقے اختیار کر لیے ۔ علامہ اقبال نے اس صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ
یہ امت خرافات میں کھو گئی
حقیقت روایات میں کھو گئی
جب مذہب کو بطور پیشہ اختیار کر لیا جائے تو پھر اپنی آمدنی کو محفوظ اور مسلسل برقرار رکھنے کے لئے کئی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا طریقہ دین کو عام آدمی کے لئے مشکل تر بنا کے اسے یقین دلایا جاتا ہے کہ دینی فرائض پورے کرنا، اس کے بس میں نہیں۔ اسے بہر طور مولوی کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی ۔دین کی تشریح اورتفہیم کے لئے چاروں آئمہ نے جو تشریحات کیں ،درحقیقت وہ فہم دین کو آسان بنانے کے لئے ہیں ۔ کسی بھی امام نے یہ نیک کام ،فرقہ بندی یا کفر سازی کے لئے نہیں کیا تھا لیکن جیسے جیسے مذہب کو پیشہ بنانے کا عمل آگے بڑھا۔ فقہی تشریحات کو ایک دوسرے کی ضد قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک دوسرے کو کافر کہا جانا لگا۔ ہمارے ملک میں فرقہ واریت کے تحت مسجدیں علیحدہ کر لی گئیں۔ اب ہر فرقہ اپنی مسجد میں نماز پڑھتا ہے۔
حد یہ کہ دوسری فقہ سے تعلق رکھنے والے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاتی ۔ مجھے یاد ہے کہ پی این اے کی تحریک کے دوران جسے نفاذ اسلام کی تحریک کہا جاتا تھا ۔ قیادت کے اجلاسوں کے دوران جب نماز کا وقفہ آتا تو ہمارے” علمائے کرام“ علیحدہ علیحدہ جماعتیں کھڑی کرتے اور اپنے اپنے مسلک والوں کے ساتھ نمازیں پڑھتے۔ ہم لوگ حیران ہوا کرتے تھے کہ جو لوگ نمازمیں متحد نہیں، وہ قوم کو کیسے متحد کریں گے؟ اسی بنا پر ریاستیں مذہبی معاملات میں ملوث نہیں ہوتیں ۔ جو ہوتی ہیں ان کا حال ہمارے جیسا ہو جاتا ہے ۔
ابھی عوام نے ملاؤں کو حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو آئندہ سب حکومتوں کا بننا اور ٹوٹنا فقہی اختلافات کی وجہ سے ہوا کرے گا اور جو بھی اقتدار پر فائز ہو گیا۔ وہ دوسرے تمام فرقوں کو کافر قرار دے کر سزاؤں کا مستحق ٹھرائے گا ۔خدا کا شکر ہے کہ ابھی ان لوگوں کی حکومت نہیں آئی لیکن ہمارے حکمرانوں کی نالائقیوں اور معاشرتی سائنس سے، لا علمی کی وجہ سے مذہب کا پیشہ اختیار کرنے والوں کی اہمیت بڑھتی گئی ۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنے مخالفین کو دباؤ میں لانے کی خاطر، مو لویوں کے ذریعے فرقہ وارانہ اور مذہبی جذبات ابھار کے سیاسی فوائد حاصل کئے اور یہ حقیقت نظر انداز کی کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے مذہبی سیاستدان اقتدار میں حصہ دار بنتے چلے گئے اور کمزور حکمران پسپائی اختیار کرتے کرتے مذہبی سیاستدانوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے گئے
اب معاشرے میں ہر طرف مذہبی سیاستدان کسی نہ کسی انداز میں زور پکڑ چکے ہیں۔ وہ بہت بڑے سٹیک ہولڈر بن گئے ہیں عوام دشمن طاقتوں نے جب سے مذہبی دہشت گرد تیار کئے ہیں، مذہبی سیاستدانوں کے حوصلے مزیدبڑھ گئے ہیں۔ کبھی غور کر کے دیکھئے گا کہ مذہبی سیاستدان، دہشت گردی کی غیر مشروط اور واضح مذمت نہیں کرتا۔ صرف پروفیسر طاہر القادری نے کھل کر بات کی ہے۔ وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ سیاسی ضروریات اور مصلحتوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔
میں تحریک ختم نبوت کا سرگرم کارکن رہ چکا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ 1953 ء کی تحریک ختم نبوت بھی پنجاب اور مرکز کی سیاسی قیادت کی کشمکش کا شاخسانہ تھا۔ قرار داد مقاصد سے لے کر بھٹو صاحب کی آئینی ترمیم تک، کوئی کام اسلامی جذبے سے نہیں، سیاسی مقاصد سے کیا گیا ۔جیسے ہی مذہبی سیاستدانوں کو احمدیوں کے خلاف کامیابی حاصل ہوئی تو ان کا اگلا ہدف اہل تشیع بن گئے، فرقہ وارانہ قیادت پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا۔ وہ اب ایک دوسرے کی آبادیوں پر حملوں کی شکل اختیار کرنے لگا ہے ۔
کراچی میں گزشتہ روز جو کچھ ہوا وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔مذہبی سیاستدان جیسے جیسے معاشرے میں طاقت پکڑتے جائیں گے کفر سازی کا ہدف بننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی قومی سطح کی قیادت پر الزامات ہیں ۔
سب جانتے ہیں کہ نواز شریف ایک دیندار اور پابند صوم صلواة خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔وہ چند ایسے لیڈروں میں ہیں ،جو اسلامی شعائر کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے خاندان نے کئی مساجد بنائیں اور بے شمار علمائے کرام کی خدمت کی ۔ان کے گھر کا ماحول کیا ہے؟ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے داماد کرنل صفدر اور میں نواز شریف کے گھر، کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ نواز شریف ہاتھ دھونے گئے تو اس دوران کرنل صفدر نے مجھ سے پوچھا ” ناجی صاحب ! جس برتن میں کسی قادیانی نے کھانا کھا لیا ہو ، کیا ہم اس میں کھا سکتے ہیں ؟ “میرا جواب ظاہر ہے کیا ہو سکتا تھا ؟میں نے کہا کہ ” آپ کو معلوم ہے عیسائی سور کھاتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھالیتے ہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں اشیائے خورو نوش کی دکانوں سے ہر مذہب کے لوگ خریداری کرتے تھے اور کسی کا مذہب متاثر نہیں ہوتا تھا ۔صرف چند انتہا ہندو تھے جو ایسے جاہلانہ تصورات پر یقین رکھتے تھے ۔“
نواز شریف کسی مذہبی فرقے کے رہنما نہیں ۔پاکستان کے عوامی اور سیاسی لیڈر ہیں اور جو ملک کا لیڈر ہوتا ہے۔ اس کے لئے تمام ہم وطن بھائی بہن ہوتے ہیں ۔جب انہوں نے اپنے ہم وطنوں پر مذہبی شناخت کی وجہ سے ظلم ہوتے دیکھا تو ان کا فرض تھا کہ وہ پاکستان پر ان کا اعتماد بحال کرتے ۔
قائد اعظم نے جب یہ کہا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے ۔یہاں تمام مذاہب کے لوگ برابر کے شہری ہیں اور سب کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو گی تو وہ بھی یہی اعتماد بحال کر رہے تھے کیوں کہ ملاؤں نے دوسرے مذاہب کے پاکستانیوں میں یہ خوف پیدا کر دیا تھا کہ پاکستان میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔
لاہور کے تازہ واقعات میں بھی ہمارے پاکستانی بھائیوں کااعتماد مجروح ہو رہا تھا ۔ وہ پہلے ہی کافی تعداد میں ترک وطن کر چکے ہیں اگر مزید لاکھوں کی تعداد میں خوف زدہ ہو کر بھاگیں یا عالمی برادری سے مدد طلب کریں تو اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جن لیڈروں اور قلمکاروں نے مذکورہ سانحے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے، اس کی مذمت کی، انہوں نے اپنا قومی فرض ادا کیا اور جو ملاؤں کے ڈر سے خاموش رہے، وہ سیاسی رہنمائی کے حقدار نہیں ۔
قومی لیڈر کی حیثیت سے نواز شریف کا یہی فرض تھا کہ وہ اپنے ہم وطن بھائیوں بہنوں کا دکھ بانٹتے ہوئے، اپنے ملک پر ان کا اعتماد بحال کر یں ۔پاکستان ہم سب کا ہے اس کی سلامتی اور ترقی کے لئے صرف ہم نے نہیں، سب نے قربانیاں دی ہیں ۔1965 ء کی جنگ میں ہمارے دوش بدوش احمدی سپاہی اور افسر بھی لڑے تھے، اس جماعت سے تعلق رکھنے والے فوج میں جنرلوں کے عہدوں تک پہنچے۔ اسی جنگ کے ایک ہیرو سیسل چوہدری، ہمارے مسیحی بھائی تھے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے تو مسجد نبوی میں یہودیوں کو عبادت کی اجازت دے دی تھی۔ خدا جانے یہ کون لوگ ہیں جو دوسروں کو اپنی جگہ پر بھی عبادت کرنے پر، مارنے چلے جاتے ہیں اور سینکڑوں کا خون بہنے پر جب کوئی قومی لیڈر، ہم وطنی کے رشتے سے بھائی کہہ کران کا دکھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کے خلاف کفر سازی کا کارخانہ حرکت میں آ جاتا ہے۔ اگر ہم نے مذہب کو ذریعہ روزگار اور ذریعہ اقتدار بنانے والوں کے مقاصد کو نہ سمجھا تو یہ ہمارے ہاتھوں ایک دوسرے کو قتل کراتے ہوئے، وطن عزیز کو مقتل بنا دیں گے اور بقول اقبال
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
Source: Jang, 12 June 2010