In support of national reconciliation – by Ahmad Riaz Sheikh


قومی مفاہمت کا بھولا ہوا سبق! ….بریکنگ نیوز… احمد ریاض شیخ

پاکستانی سیاست کے دو روپ سب کے سامنے ہیں۔ جب کسی منتخب حکومت کا تختہ الٹا جاتا ہے‘ مارشل لاء نافذ ہو جاتا ہے‘ منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے یا اسے جلا وطنی پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو ہم اس پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں‘ آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مارشل لاء کی سیاہ رات طویل تر ہو جاتی ہے تو ہم جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ کوڑے کھاتے ہیں‘ خود سوزیاں کرتے ہیں‘ جیلیں بھرتے ہیں‘ قلعوں کی سزائیں کاٹتے ہیں اور جلا وطنی کے جہنم میں دہکتے ہیں۔

میں یہ ساری باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ خود تیرہ برس تک ہر طرح کی عقوبت کا شکار رہا ہوں‘ مجھے اٹک قلعہ میں بھی بند کیا گیا‘ میرا ایسا کوئی جرم نہیں تھا جس کی سزا کیلئے مجھے تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ڈالا جاتا ۔

دریائے سندھ کے کنارے اس قلعہ میں دن اور رات کے وقت ایک مہیب ماحول طاری رہتا ہے‘ کسی ہلا کو خاں اور چنگیز خان نے بھی اپنے دشمنوں کو ایسے قلعے میں نہیں ڈالا ہو گا، جہاں ایک کوٹھڑی میں بند شخص کو ساتھ کی کوٹھڑی میں بند قیدی کی شناخت رات کے آخری پہر اس کی رقت آمیز آواز میں تلاوت قرآن پاک سن کر ہو۔ میاں نواز شریف کو مہینوں بعد اپنے ہی لخت جگر حسین نواز کے زندہ ہونے کی نوید اسی طرح ملی تھی۔ کیا میاں شہباز شریف اس قیامت کو بھول سکتے ہیں جس کا سامنا انہیں اپنے ہی دل کے ٹکڑے حمزہ شہباز سے کئی برس تک جدا رہنے کی وجہ سے کرنا پڑا۔ ذرا وہ منظر ذہن میں لائیے جب محترمہ بینظیر بھٹو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی انگلی پکڑے کبھی ایک جیل کے دروازے پر کڑی دھوپ میں کھڑی ہوتیں‘ کبھی دوسری جیل کے سامنے ٹھٹھرتی ہوئی صبح میں بچوں کو اپنے باپ سے ملانے کیلئے لے جاتیں۔ آج یہ بچے اللہ کے فضل سے تناور درخت کی طرح پھل پھول رہے ہیں‘ لیکن ایک بار پھر تصور کیجئے کہ جب ان معصوم نونہالوں کو شفقت پدری کی ضرورت تھی تو پورے گیارہ برس تک وہ باپ کی گود کیلئے ترستے رہے۔

میں اپنی بحث کا دائرہ محدود نہیں رکھنا چاہتا‘ ہمارے بیسیوں سیاستدان پہلے فوجی آمر کے ہاتھوں ایبڈو زدہ ہو گئے‘ کئی سیاستدانوں نے معمولی مقدموں کی بنا پر طویل عرصے تک جیلیں کاٹیں‘ مری مینگل‘ اجمل خٹک اور سیکڑوں دوسرے سیاسی رہنما جلا وطنی پر مجبور کر دیئے گئے‘ اکبر بگٹی کو ایک ایسی گولی سے شہید کر دیا گیا جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کدھر سے آئی‘ کس نے چلائی۔اس گولی کے بارے میں پہلے ہی وارننگ دے دی گئی تھی کہ اس چلانے والے کا پتہ چلے گا نہ اس کی سمت کسی کو معلوم ہو سکے گی اور ہوا بھی یہی۔

خان ولی خاں نے ناکردہ جرم کی پاداش میں قیدو بند کا سامنا کیا، ایئر مارشل اصغر خاں اور نوابزادہ نصر اللہ خان کو برسہا برس تک گھروں میں نظر بند کیا گیا۔ میں نے اٹک قلعہ میں وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی‘ اپنے کولیگ چوہدری محمد شریف اور اعظم خاں ہوتی کو صعوبتیں برداشت کرتے دیکھا۔ سیف الرحمن کو تاریخ جن الفاظ سے بھی یاد کرے‘ میں نے اس شخص کو اٹک قلعے کی اندھیر نگری میں بلکتے ہوئے دیکھا۔ وہ شخص جو دوسروں پر مصائب کے پہاڑ توڑنے میں شیر تھا، وہ یہاں محض چھپکلیوں سے خوفزدہ تھا۔ میں سیف الرحمن کی تحقیر نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کڑے عذاب کی عکاسی کر رہا ہوں جس سے کوئی شخص محض حکومتی انتقام کی وجہ سے دوچار ہوتا ہے۔

میں کسی سیاسی پارٹی کو بھی مطعون نہیں کرنا چاہتا‘ نہ کسی کیلئے فرشتہ ہونے کا سر ٹیفکیٹ جاری کرنا چاہتا ہوں، مجھے شدید احساس ہے کہ الطاف حسین گھر سے بے گھر ہوئے‘ ہماری سیاست کے اہم ترین ستون ہر دور اور ہر حکومت میں انتقام کی پالیسی کا نشانہ بنے۔ ان پر معمولی جرائم کے مقدمے بنے اور انہیں طویل عرصہ کے لئے قید میں ڈال دیا گیا، افراد کی بات کیا کی جائے‘ یہاں منتخب حکومتوں کو ہی نہ چلنے دیا گیا۔ دو تہائی اکثریت لینے والے نواز شریف اپنی ٹرم پوری نہ کر سکے اور دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی محترمہ بینظیر کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بے دردی اور سنگدلی سے شہید کر دیا گیا۔

آصف علی زرداری پر جتنے مقدمے بنے‘ ان کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر نہیں گنا جا سکتا‘ پاکستان کی کونسی جیل ہے جس میں انہیں پابند سلاسل نہ کیا گیا اور کونسی عدالت ہے جس میں انہیں نہ گھسیٹا گیا ہو۔ انہیں ایک عشرے سے زائد اور تین حکومتوں نے مسلسل قید میں ڈالے رکھا۔ کسی عدالت میں ان پر کوئی ایک جرم ثابت نہیں کیا جا سکا اور اگر ان تمام جرائم کو ثابت بھی کر دیا جائے تو اتنی طویل سزا نہیں دی جا سکتی تھی مگر انہیں گیارہ برس تک رگڑا دیا گیا۔ گوشت پوست کا کوئی عام انسان ان عقوبتوں کو برداشت نہیں کر سکتا مگر یہ ”مرد حر“ کی ہمت ہے کہ اس نے اف تک نہیں کی اور مردانہ وار برے سے برے حالات کے مقابلے میں سینہ سپر رہا۔

کیا یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی مخالفت کی بناء پر انتقام کی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ کیا ہم اپنے اس عمل کی وجہ سے مہذب دنیا کو منہ دکھانے کے قابل رہ گئے ہیں اور کیا ”میثاق جمہوریت“ اس حقیقت کا ثبوت نہیں کہ ہماری قومی قیادت انتقام اور محاذ آرائی کے خاتمے کا عہد کر چکی ہے۔

میاں نواز شریف اور محترمہ شہید نے اس پر دستخط کر کے قوم کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ آئندہ نہ تو کسی فوجی آمر کا ساتھ دیا جائے گا نہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جائے گی، نہ سیاسی انتقام کی روش اختیار کی جائے گی۔میں ان سختیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہوں جو میڈیا نے برداشت کیں،کبھی اشتہاروں کی بندش کی تلوار چلائی گئی،کبھی نیوز پرنٹ کی سپلائی میں روڑے اٹکائے گئے،کبھی پریس ایڈوائسوں کی بوچھاڑ کی گئی، کبھی غداری کے مقدمے درج کرنے کی دھمکیاں دی گئیں،کبھی کیبل کے کنکشن کاٹ دیئے گئے، کبھی چینل کی اپ لنکنگ بند کر دی گئی، میڈیا نے ہر وار کو ناکارہ بنا دیا، مگر اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اخباری کارکنوں کو سڑکوں پر بھی نکلنا پڑا لیکن کسی نے جبر کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔

بلاشبہ موجودہ جمہوری عمل کی بحالی میں میڈیا کی قربانیاں سرفہرست ہیں لیکن کیا میڈیا اس جمہوری عمل کی حفاظت کا مکلف نہیں ہے؟۔میں نے یہی بھولا ہوا سبق یاد دلانے کیلئے قلم اٹھایا ہے۔ اپنے کالم بریکنگ نیوز میں اسی مسئلے کو اجاگر کرتا رہوں گا۔

میثاق جمہوریت میں قومی مفاہمت پر مہر تصدیق ثبت کی گئی تھی۔ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اب تک میثاق جمہوریت پر عمل کس نے اور کیوں نہیں کیا‘ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم آج بھی ماضی کو بھول کر ازسرنو اس عہد پر کاربند ہونے کیلئے پرعزم ہو جائیں اور قومی مفاہمت کا دائرہ وسیع کریں اور باقی سیاسی جماعتوں کو بھی میثاق جمہوریت میں شامل کرنے کیلئے ایک قومی جرگہ بلائیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس قومی چارٹر سے کسی کو اختلاف ممکن نہیں ہو گا‘ اس لئے کہ یہی دستاویز ہمیں مہذب دنیا میں باوقار طور پر جینے کا سلیقہ عطا کرتی ہے۔

Source: Jang, 2 June 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. drtahir
    -