From yom-e-takbir to yom-e-takfir – by Nazir Naji

یوم تکبیر، یوم تکفیر ….سویرے سویرے…نذیر ناجی

کل یوم تکبیر جو پاکستان کے لئے فخر اور خوشی کا دن تھا‘ دہشت گردوں نے اسے اپنی دانست میں یوم تکفیر بنا کر ہمارے لئے ندامت اور غم کے دن میں بدل دیا۔ قائد اعظم نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد ساری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو‘ آج کے بعد آپ سب پاکستانی ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں۔

اس بنیادی نکتے پر قوموں کے وجود اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ مگر ہم نے روز اول ہی سے اسے فراموش کر دیا اور پاکستانی شہریت کے حقوق سب سے پہلے جن بدنصیبوں سے چھیننے کی ابتدا ہوئی‘وہ احمدی ہی تھے۔ ان کے خلاف چلائی گئی تحریک کا نعرہ بظاہر تحفظ ختم نبوت تھا لیکن اصل مقاصد کچھ اور تھے۔ میری عمر اس وقت 16 سال تھی۔ وہی عمر جو 28 مئی کو پکڑے جانے والے دہشت گرد کی ہے۔ میں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گرفتار ہوا۔ جھنگ سے لائیلپور اور لائیلپور سے لاہور لا کر کیمپ جیل میں رکھا گیا اور تین ماہ کی نظربندی مکمل ہونے پر رہائی ملی۔ تب تک تحریک کا زور ٹوٹ چکا تھا۔

ہوش سنبھالا تو پتہ چلا کہ یہ تحریک درحقیقت کشمکش اقتدار کا حصہ تھی اور پنجاب کی سیاسی قیادت نے مرکزی حکومت کو ہٹانے کے لئے اس نعرے کا استعمال کیا۔ تاہم بعض جید علمائے کرام بھی اس تحریک میں شامل تھے اور ان کی تقریروں میں یقین دہانی کرائی جاتی تھی کہ بطور پاکستانی احمدیوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل رہیں گے۔ صرف انہیں اقلیت قراردے دیا جائے۔

بھٹو صاحب کے دور میں یہ تحریک ایک بار پھر سیاسی مقاصد کے لئے چلائی گئی۔ اس وقت تک مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے والے گروہ زیادہ طاقتور ہو چکے تھے۔ بھٹو صاحب ان کا مقابلہ نہ کر سکے اور آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔

اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے تمام لیڈر دنیا کے سامنے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں اقلیتوں کو خصوصی تحفظات حاصل ہیں لیکن عملاً یہاں کیا ہو رہا ہے؟ اس کے مظاہرے اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔

زیادہ دن نہیں گزرے کہ گوجرہ کے ایک نواحی گاؤں میں عیسائیوں کا پورا محلہ نذرآتش کر دیا گیا۔ جس میں بے گناہ مارے گئے اور ان کے گھر اور سازوسامان جل کر راکھ ہوئے۔ حال میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اس پولیس افسر کی لاہور میں تعیناتی کو اس بنا پر منسوخ کیا کہ وہ گوجرہ میں پاکستانی شہریوں کو تحفظ اور انصاف دینے میں ناکام رہے۔ ان کے بارے میں رپورٹ ہے کہ وہ فیلڈ میں تعیناتی کے اہل نہیں۔

کل 28 مئی کو لاہور میں جو کچھ ہوا‘ وہ گوجرہ کے واقعات سے بھی زیادہ المناک اور وحشیانہ ہے۔ ایک پرامن اقلیت کی عبادت گاہوں میں گھس کر عبادت کرنے والوں کو بے رحمی سے نشانہ بنایاگیا۔ زخمی گھنٹوں کراہتے اور مدد مانگتیرہے۔ دہشت گردوں نے ان تک طبی امداد بھی نہ پہنچنے دی اور درجنوں ایسے لوگ جو بروقت طبی امداد پر بچ سکتے تھے‘ خون بہہ جانے کی وجہ سے دم توڑ گئے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ لاہور میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کے بعد اعلانات سامنے آئے تھے کہ اب دہشت گردوں سے بچاؤ کے خصوصی انتظامات کر دیئے گئے ہیں۔

ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے کہ اسی شہر میں سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ شور مچایا گیا تھا کہ انتظامیہ ناکام ہو گئی۔ اس حملے میں صرف دو یا تین ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ یہ خبریں بھی نمایاں طور سے شائع کی گئیں کہ ایجنسیاں دہشت گردوں کے اس حملے کی خبر بہت پہلے دے چکی تھیں۔یہ خبر آج بھی شائع ہوئی ہے‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ باقاعدہ ہدف کی نشاندہی کرتے ہوئے ایجنسیوں نے بتا دیا تھا کہ احمدیوں کے خلاف دہشت گردی ہونے کا امکان ہے۔

چند روز پہلے سے انٹرنیٹ پر گستاخانہ خاکوں کے خلاف زبردست احتجاجی مہم چل رہی تھی۔ جب ناموس رسالتﷺ پر مسلمانوں کے جذبات بے قابو ہونے کے امکانات ہوں‘ تو پاکستان کی ہر انتظامیہ سمجھ لیتی ہے کہ ان بھڑکے ہوئے جذبات کا رخ احمدیوں کی طرف آسانی سے موڑا جا سکتا ہے۔ انہی دنوں ختم نبوت کے موضوع پر کئی اجلاس بھی ہوئے۔ ایسے اجلاسوں میں تقاریر کرنے والے بھی جذبات بھڑکاتے ہیں۔ ایسی فضا میں احمدیوں کے اجتماعات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ شہر میں جن دو مقامات پر بڑے اجتماع ہوتے ہیں‘ وہاں خصوصی حفاظتی انتظامات تو دور کی بات ہے پولیس کی اتنی تعداد بھی موقع پر موجود نہیں تھی‘ جتنی کہ جمعةالمبارک کے دن عام مساجد پر مامور ہوتی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ناکے لگا کر ٹریفک بلاک کیا جاتا ہے‘ جو عام شہریوں کے لئے تکلیف اور مصیبت کا باعث بنتا ہے۔ بچے‘ بوڑھے اور بیمار منجمد ٹریفک کی تکلیف کا شکارہوتے ہیں۔ مگر اصلی دہشت گرد خدا جانے کس طرح؟ ان سارے ناکوں اور نگرانیوں سے بچ کر اپنے ٹارگٹ پر جا کر واردات کر دیتے ہیں۔

بیرونی دہشت گردوں نے ہمارے ملک میں ٹھکانے بنا کر پہلے ہی پاکستان کو بدنام کر رکھا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں دہشت گردی ہوتی ہے‘ اسے پاکستان کے نام لگانا فیشن بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے القاعدہ نہ صرف پاک افغان سرحد کے دونوں طرف موجود ہے بلکہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ رابطے بھی قائم کر چکی ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ مدرسوں کے بچوں کو بہکا کر القاعدہ کے مراکز میں لے جاتے ہیں‘ جہاں انہیں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔

ان کیمپوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ لوگوں نے بھی اپنا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ وہ بھی اسلام کے نام پر بچوں کو بہکا کر خودکش حملہ آور بناتے ہیں اور پھر یہ کم سن خودکش بمبار باقاعدہ فروخت کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کاروبار کی خبریں کچھ دنوں سے محفلوں میں سنائی دینا شروع ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ہلاکت خیزی جس تیزی سے پھیل رہی ہے‘ اسے دیکھ کر خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ بہت جلد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ کسی حد تک ایسا ہو بھی چکا ہے۔ کراچی میں تو ایسا ہو رہا ہے کہ ادھر کسی نے سوئچ دبایا اور ٹارگٹ کلنگ شروع ہو گئی اور سوئچ آف کیا تو ختم ہو گئی۔ پولیس اور امن و امان برقرار رکھنے والے دوسرے تمام ادارے‘ مکمل طور سے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ پولیس چیف بھی اپنی بے بسی کے اعتراف پر مجبور ہیں۔

بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے استادوں‘ ڈاکٹروں اور دیگر اہل علم کو چن چن کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں ہی کو نہیں‘ بچوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب تو گنتی کرنا بھی دشوار ہے کہ کونسے گروہ کا ہدف کون ہے؟ اور ہمارے ماہرین‘ بیوروکریٹس اور خصوصاً ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے حاضر یا سابق افسران‘ حسب عادت ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ان بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے را کے ایجنٹ ہیں۔ موساد کے ایجنٹ ہیں اور زیادہ احتیاط کریں تو کہتے ہیں کہ اس دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ہے۔

یہ الزامات ہم نصف صدی سے سن رہے ہیں۔ را اور موساد کے یہ ایجنٹ اگر پاکستان میں متحرک ہیں‘ تو اب تک کتنے پکڑے گئے؟ اگر پکڑے گئے‘ تو وہ کہاں ہیں؟ میجر عامر نے موساد کا ایک ایجنٹ پکڑا تھا تو انہوں نے بتا دیا تھا کہ فلاں نام کا شخص موساد کے لئے کام کر رہا تھا‘ جسے ہم نے گرفتار کر لیا۔ جو ایجنٹ ملک کے اندر سرگرم ہوں‘ ان میں سے کچھ تو بہرحال پکڑے جا سکتے ہیں۔ جس یقین اور تواترکے ساتھ ان ایجنٹوں کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ اگر واقعی اتنی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں تو اب تک صرف ایک کیوں پکڑا جا سکا؟ اور اگر زیادہ پکڑے گئے ہیں تو عوام سے چھپائے کیوں جا رہے ہیں؟ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہماری ایجنسیاں کیا کارنامے انجام دے رہی ہیں؟

ہمیں تو صرف یہی پتہ ہے کہ منتخب حکومتوں کو توڑنے اور سیاسی جماعتوں کے اندر گروہ بندی کرنے میں ان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔جن لوگوں نے لاہور میں خون کی ہولی کھیلی‘ انہوں نے مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان کے لئے ایک اور مشکل کھڑی کر دی ہے۔ میں نہیں جانتا عالمی برادری اس سانحے پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے؟ لیکن چند ہفتوں میں کوئی نہ کوئی ایسا قدم ضرور اٹھایا جائے گا‘ جو ہمارے لئے تکلیف دہ ثابت ہو۔

Jang, 30 May 2010

Comments

comments

Latest Comments