Hunza lake: A disaster in waiting – by Kishwar Naheed

ہنزہ جھیل قیامت بن سکتی ہے….کشور ناہید

ادھر بیجنگ+15 پر بحث کرنے کیلئے سارے پاکستان کی عورتیں جمع ہوئی تھیں۔ ادھرکسان عورتوں کی کانفرنس SAP پاکستان میں ہو رہی تھی اور تیسرا قصہ یہ چھڑا تھا کہ ہنزہ میں جو پہاڑ کٹ کر گرا ہے۔ اس کے باعث دریائے ہنزہ سے جو جھیل بنی ہے اس کا اثر وہاں کے دیہاتوں پرکیا ہوا ہے۔ یہ ساری باتیں لاہور میں ہو رہی تھیں اور گرمی تھی کہ رات کو بھی لو چل رہی تھی۔

بیجنگ+ 15 کے سلسلے میں تو یہ راز کھلا کہ اقوام متحدہ کی خواتین سے متعلق ایک الگ تنظیم تو بن گئی ہے سرمایہ کم کم ہی رکھا گیا ہے اور انسانی حقوق یعنی خواتین کے حقوق سے متعلق اب توجہ کم کی جا رہی ہے اور سماجی محرکات کی جانب توجہ زیادہ کی جا رہی ہے جس میں سیاسی طور پر خواتین کو متحرک کرنے کی ذمہ داری بھی سامنے آرہی ہے۔ یہ سوال بھی زیر غور آیا کہ آخر آج کل امریکیوں کو پاکستانیوں سے اتنی محبت کیوں ہو رہی ہے کہ جینڈر ایشو پر بہت توجہ بھی دے رہے ہیں اور پیسے دینے کو بھی تیار ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ سب این جی اوز جو امریکہ مخالفت میں آگے آگے تھیں اس وقت ایسے منصوبے پیش کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ کانفرنس تو اثر اور شرکت گاہ نے منظم کی تھی مگر بولنے والے چھوٹے چھوٹے شہروں سے بھی تھے اور ان میں نوجوان بچیاں بھی شامل تھیں۔ یہ بات خوش کن اس لئے بھی ہے کہ ہم لوگ جنہوں نے ان تحریکوں کو شروع کیا تھا وہ تو اب ساٹھ پینسٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ اب موقع اور ذمہ داری نوجوان لڑکیوں پر آتی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو سنبھالیں۔

کسان عورتوں کی کانفرنس میں شکایت تھی کہ دودھ پلانے والی عورت کو کھیت مزدوری کرنے کیلئے دودھ پیتے بچے کو ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ گھر پر بچے کو چھوڑ کر آتی ہے۔ دو بوری آلو زمین سے اکھاڑتی ہے تو اس کو پچاس روپے محنت کے ملتے ہیں جبکہ مرد ایک بوری آلو نکالتا ہے تو اس کو سو روپے فی بوری ملتے ہیں۔ عورتیں احتجاج کر رہی تھیں کہ ان کے ساتھ یہ زیادتی کیوں کی جاتی ہے ان کو کسی مقام پر بھی مساوی اجرت نہیں ملتی ہے۔

اب آئیں لاہور میں زیر بحث تیسرے موضوع کی جانب جو کہ لاہور سے گلگت اور ہنزہ تک خدا کی قدرت اور ہماری ناقص عقل دونوں کو سامنے رکھ کر تقابل کیا جا رہا تھا۔ ہوا یہ کہ جس دن ہیٹی میں زبردست زلزلہ آیا اسی دن حیات آباد کا پہاڑ دو ٹکڑے ہوا، پہلے زور کے ساتھ دریائے ہنزہ میں گرا اور پھر اٹھا اور دریا کی جھیل بنا کر ایسے ابھرا کہ گو جال کے علاقے میں دو گاؤں تو دریا برد ہو گئے یہ تو اس وقت ہوا جبکہ پہاڑ گرا۔ اب دو تین اور دیہات بھی زیر آب آچکے ہیں حتیٰ کہ شاہراہ قراقرم 15 کلو میٹر تک پانی کے نیچے ہے۔ پانی اتنا زیادہ ہے کہ یہاں باقاعدہ بڑی بڑی کشتیاں چل رہی ہیں۔ چین سے تجارت اب ان کشتیوں کے ذریعے ہو رہی ہے اب جھیل میں پانی کی اونچائی 290 فٹ تک آچکی ہے۔ جتنے بھی ان دیہاتوں کے خاندان ہیں وہ اسکولوں میں رہ رہے ہیں اب ڈر یہ ہے کہ یہ پانی آگے بڑھتا بڑھتا اسکولوں تک بھی نہ پہنچ جائے ہر چند کہ پاکستانی فوج پشتے بنا رہی ہے کہ یہ پانی ابھی اور نہ چڑھ جائے مگر وہاں کے رہنے والے افسر جان کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے پانی آگے بڑھ رہا ہے اور قابو میں نہیں آرہا ہے خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ پانی 80 یا 90 فٹ تک اور چڑھ گیا اور پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم تربیلا کوبھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

افسر جان اور اس کے سارے دیہاتی ساتھیوں کو سخت خدشہ ہے کہ ان کا کیا بنے گا وہ اب کہاں گھر بنائیں گے بچے کہاں تعلیم حاصل کریں گے زمین کہاں سے آئے گی جس میں وہ فصل اگاتے تھے۔ گھر میں کھانے کو دانے کہاں سے آئیں گے اس علاقے کے لوگوں کو افسوس اس بات کا بھی ہے کہ پاکستان کے عوام، ان پر نازل ہوئے اس عذاب سے بے خبر ہیں خدا نہ کرے کہ یہ عذاب اور پھیل جائے یہ جھیل اور پھیل جائے تو پاکستان پہ قہر نازل ہو سکتا ہے مگر کون سوچ رہا ہے۔ ان باتوں کو خدا کرے کہ پاکستانی فوج اپنی کوششوں میں کامیاب رہے۔ ہر چند یہ فوج بدلے ہوئے نقشے کو پرانے منظر نامے پر لا نہیں سکتی مگر گلگت بلتستان کی نئی حکومت کچھ تو کر سکے گی ان غیرآباد اور بے گھر لوگوں کی آبادکاری کا انتظام کر سکے گی آغا خان فاؤنڈیشن کی مدد سے ہی سہی، ان غریبوں کو سر چھپانے کی جگہ فراہم کر سکے گی۔

ہمارے میڈیا کو بھی اس المیے کی خبر نہیں ہے، یہاں کے راستے اتنے دشوار ہیں کہ پہنچنا مشکل ہے یہ کوئی ثانیہ مرزا تھوڑا ہی ہے کہ لوگ کیمرے لیکر فوراً پہنچ جائیں۔

گجال پہاڑی سلسلے میں دراڑیں کئی سال سے پڑ رہی تھیں دیکھ سب رہے تھے مگران میں سے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پہاڑ دو ٹکڑوں میں ٹوٹ کر گرے گا۔

یہ خبر بالکل ایسے ہے کہ اسلام آباد واپس آکر ایک نہیں کئی میل اور پھر اخبار میں خبر پڑھی کہ ریڈیو کی آرٹسٹوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کر رہے ہیں۔ ہر چند ایسا تو نہیں اور پھر جنسی ہراسانی کے قانون کے پاس ہونے کے بعد تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی افسر اس طرح کی حرکت کرے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس قانون کی تفاصیل کو ہر محکمے کو نہ صرف بھیجا جائے بلکہ ان کو باقاعدہ سمجھانے کیلئے ورکشاپیں بھی منعقد کی جائیں۔ فوزیہ سعید، جس نے یہ قانون پاس کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیئے ہیں وہ ہر محکمے میں آبزرویشن سیل بھی بنوائے جہاں جا کر عورتیں اپنی شکایات نوٹ کروا سکیں تاکہ یہ قانون صرف کاغذوں میں رکھا نہ رہ جائے۔

ایک اور قانون ہے جس کو پاس کرنے کے لئے یاسمین رحمن اور شہناز وزیر علی کو محنت کرنی ہے وہ ہے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کے تحفظ کا قانون۔ اس کو ابھی سینیٹ سے پاس ہونا ہے شاید وہ بیگمات اس کی مخالفت کریں جو چھوٹی لڑکیوں کو اپنے ساتھ بچہ یا بیگ اٹھائے پھرتی نظر آتی ہیں باقی تو پڑھی لکھی خواتین ہیں وہ یقیناً اس قانون کو پاس کروانے میں مدد کریں گی۔ عورتوں کے تحفظ کے قوانین کے باعث ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید سامنے آسکتی ہے۔

Source: Jang, 8 May 2010

Related articles:

Pakistani media is ignoring a disaster in waiting in Hunza – by Irfan Siddiqui

The sinking paradise of Gojal in upper Hunza — by Dr Shahid Siddiqui

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akhtar
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.