Incompetent terrorist but not incompetent recruiters – by Nazir Naji
In the following op-ed, veteran columnist Nazir Naji highlights the need to eliminate the ideological recruiters and logistic facilitators of the terror-network in the region. Naji writes that Faisal Shahzad (the Times Square bomber) may be an incompetent operative but his recruiters and exploiters are not incompetent.
نکما دہشت گرد ….سویرے سویرے…نذیرناجی
بے شک پاکستان میں دہشت گردوں کے تربیتی مراکز موجود ہیں۔ ابھی انہیں ختم نہیں کیا جا سکالیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پر غلط الزامات لگائے جائیں۔ پاکستان 30 سال سے مجاہد اور دہشت گرد تیار کر رہا ہے۔ اتنے طویل اور مسلسل تجربے کے بعد بھی‘ اگر ہمارے تیار کردہ دہشت گرد اتنے ہی نکمے ہوتے ہیں جتنا کہ فیصل شہزاد ثابت ہوا‘ تو امریکہ اور پاکستان دونوں ہی خواہ مخواہ وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔
ایسے مراکزکو تباہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جن میں فیصل شہزاد جیسے ددہشت گرد تیار کئے جاتے ہیں۔یہ بے ضرر قسم کے فضول سے دہشت گرد‘ کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟اگر انہیں تیار کرنے کے مراکز چلتے رہیں تو کیا ہرج ہے؟ایسے نکمے دہشت گرد کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن امریکی ایجنسیوں کو اس بات کی داد ضرور دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے ایک اور دہشت گرد پیش کرنے کے لئے بڑی محنت سے تحقیق کی۔
فیصل ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہے‘ جو کوہاٹ چھاؤنی سے 50میل جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وہ قبائلی علاقہ ہے‘ جہاں مجاہدین اور پھر دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ قائم تھے۔ شاید اب تک ہیں۔ جب فیصل شہزاد پیدا ہوا‘ اس وقت یہ کیمپ مجاہدین کی تربیت گاہیں تھے‘ وہ افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف لڑنے جایا کرتے تھے۔فیصل پر الزام ہے کہ اس نے جو مختصر تربیت حاصل کی‘ وہ ان پہاڑی علاقوں میں آسانی سے ہو سکتی ہے۔ یہ علاقے نہ کسی کے انتظامی کنٹرول میں ہیں اور نہ ہی امریکہ اور پاکستان کے جاسوسی نظام کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
میں نے ایک ٹی وی کے ٹاک شو میں کہا ہے کہ فیصل شہزاددہشت گرد ہو نہ ہو‘ امریکیوں نے بندہ چن کے نکالا ہے۔ اسے دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے تمام مطلوبہ شواہد آسانی سے مہیا ہو سکتے ہیں۔ اس کا خاندان صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں پھیلا ہے۔ وہ دس گیارہ مرتبہ پاکستان آ چکا ہے اور اس دوران اس نے بم بنانے کی تربیت حاصل کر لی۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی کار میں رکھا ہوا جو بم پولیس کو ملا ہے‘ وہ دسویں جماعت میں سائنس پڑھنے والا کوئی بھی طالب علم آسانی سے تیار کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں تھی‘ جو بازار میں آسانی سے دستیاب نہ ہو۔ 113 کلوگرام یوریا کھاد‘ میں مختلف چیزیں ملا کر دھماکہ خیز ڈیوائس تیار کی جا سکتی ہے۔ ایسے ”بم“ بنانے کے لئے وزیرستان جانے کی ضرورت نہیں۔کیمسٹری پڑھنے والے ہر طالب علم کو اپنے سکول میں پڑھ کر ہی اس ”بم“ کا فارمولامعلوم ہو جاتا ہے۔
اصل بات فیصل شہزاد کی دہشت گردی میں مہارت کی نہیں‘ اس کے خاندانی پس منظر کی ہے۔ وہ فاٹا کا رہنے والا ہے۔ وہ ایسے علاقے کا رہنے والا ہے جہاں دہشت گردی کے مراکز موجود ہیں۔ وہ پختون ہے اور وہ امریکہ سے کئی بار پاکستان آیا ہے۔ ان وجوہ کی بنیاد پر اسے دہشت گرد ثابت کرنا مشکل نہیں۔ اگر اس کے ذہن میں فتور سما ہی گیا تھا‘ تو اس کا ذمہ دار فیصل شہزاد خود نہیں‘ وہ طاقتیں ہیں‘ جس نے اس کے وطن میں دہشت گردی کا ناسور پیدا کیا۔دہشت گردی کے تربیتی مراکز فاٹا میں امریکہ نے قائم کئے تھے۔ اسی نے پیسہ اور مہارتیں مہیا کیں۔ اسی نے پوری دنیا میں پھیلے عرب ملکوں کے مفرور جرائم پیشہ افراد کو وزیرستان لا کر ہمارے بھولے بھالے قبائلیوں کو جدید اسلحے‘ تخریب کاری اور دہشت گردی کی تربیت دی۔ امریکہ کی ایما پر ہی عرب ملکوں سے انہیں رقوم ملیں۔
امریکہ نے ڈالروں سے بھرے ہوئے جو سوٹ کیس‘ آئی ایس آئی کے افسروں کو دیئے‘ ان کا کچھ حصہ نام نہاد مجاہدین میں بھی تقسیم ہوا جبکہ بڑا حصہ وہ افسر کھا گئے‘ جن کے ذمے تقسیم کرنا تھا۔ ان میں وہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی حصہ دار تھیں ‘جنہوں نے جہاد کے پردے میں بے پناہ دولت حاصل کی۔ سوویت یونین کی فوجیں تو واپس چلی گئیں لیکن جہاد کے نام پر جنگجوئی کا جو کلچر پیدا ہو گیا تھا‘ وہ ختم نہ ہو سکا۔ مجاہدین کی یہ تنظیمیں افغانستان میں واپس آ کر ایک دوسرے کا خون بہانے لگیں اور افغانستان کے وہ شہر جو سوویت قبضے کے دوران تباہی سے محفوظ رہے تھے‘ انہیں تباہ کرنے والے یہی مجاہدین تھے۔
امریکہ کی مرضی اور رضامندی سے پاکستان نے طالبان کو منظم کر کے افغانستان پر چڑھایا۔ ملک کے بڑے حصے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان حکومت خودسری پر اتر آئی اور اس نے بیرونی دہشت گردوں کو پناہ دینا شروع کر دی۔ جن میں القاعدہ کے عرب اور چیچنیا‘ ازبکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے دیگر جنگجو شامل تھے۔ انہی تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں نے 9/11 کی تباہ کن وارداتیں کیں۔ جواب میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہو گیا۔ دہشت گردوں کے گروہ‘ خصوصاً القاعدہ کے لوگ امریکی بمباری سے بچنے کے لئے پاکستان میں پناہ گزین ہو گئے اور یہاں سے منظم ہو کر بیرونی افواج کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرنے لگے۔ اس مختصر سے جائزے میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تربیت گاہیں قائم کرنے کا ذمہ دار امریکہ اور پاکستان میں حکمران ضیا الحق ٹولہ تھا۔
آج پاکستان اور باقی دنیا‘ سب امریکہ اور ضیاٹولے کے ان مظالم کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں‘ جو انہوں نے ہمارے قبائلی علاقوں اور افغانستان پر ڈھائے۔ ڈالر کھانے والے اپنے گھروں اور قبروں میں چلے گئے۔ نتیجہ پاک فوج کے افسر اور جوان اور پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ مگر امریکہ ہمیں دوستی کا وہ جرم معاف کرنے کو تیار نہیں جو ضیاٹولے اور اس کے جانشینوں نے ڈالروں کی بنیاد پر قائم کی تھی۔ پاکستان خدا جانے کب تک دہشت گردی کے ان زہریلے پودوں کے اثرات کا شکار رہے گا‘ جو امریکہ نے ہماری سرزمین اور افغانستان پر لگائے ہیں۔ فیصل شہزاد کی آڑ میں امریکہ دہشت گردی کے ڈرامے کا جو نیا ایکٹ شروع کرنے والا ہے‘ اس میں بھی پاکستان کے لئے خیر کی کوئی خبر نہیں۔
بظاہر افغانستان میں نیٹو اور امریکی فورسز کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دیا جا رہا ہے۔ مگر لگتا یوں ہے کہ جنگ پاکستان تک پھیلانے کے منصوبے ہیں۔ فیصل شہزاد کا قصہ سچا ہے یا من گھڑت۔ یہ میں نہیں جانتا۔ لیکن پاکستان امریکہ کے سٹریٹجک منصوبوں کا دیرینہ ہدف ہے۔ اسی نے ہمارے ملک کو فوجی چھاؤنی میں بدلا۔ اسی نے 1965ء کی جنگ میں بھارت کے ساتھ خفیہ ڈیل کر کے برصغیر میں ایک بڑا سٹریٹجک اتحادی بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ 1970ء میں نکسن ڈاکٹرائن جاری کر کے واضح کر دیا گیا کہ وہ بھارت کو علاقائی طاقت کی حیثیت میں آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ اسی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بیج بویا۔ امریکی سفیر جوزف فارلینڈ نے علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے‘ انہیں براہ راست امریکی امداد کی پیش کش کی۔ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت اور سوویت یونین پیش پیش تھے لیکن درپردہ امریکہ اس سانحے کا مصنف تھا۔ ہمارے فیصلہ سازوں میں بھارت دشمنی کے جنون کو امریکہ نے اپنے مقاصد کے لئے بڑی چالاکی سے استعمال کیا۔
اب امریکہ اور بھارت سٹریٹجک اتحادی بن چکے ہیں۔ 9/11 کے بعد ممبئی کے واقعات نے دونوں کو یہ موقع دیا کہ وہ پاکستان کو مشترکہ ہدف بنا کر ‘ مشترکہ مقاصد متعین کریں۔ فیصل شہزاد کا واقعہ دہشت گردی کے خلاف بھارت اور امریکہ کے مشترکہ محاذ کی طرف پیش قدمی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ 40 سال سے خطے میں جو نئے حقائق پیدا کرنے کے منصوبے زیرعمل ہیں‘ اب شاید انہیں تیزرفتاری سے آگے بڑھایا جائے۔ جنوبی افغانستان اور ہمارے پختون علاقوں میں جو کچھ رونما ہونے والا ہے اور شمالی افغانستان میں جو نئی شناخت ابھرنے والی ہے‘ اس میں زیادہ دیر نہیں رہ گئی۔ اس سے آگے کچھ لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے۔فیصل شہزاد نکما دہشت گرد سہی لیکن اسے آلہ کار بنانے والے نکمے نہیں۔
Source: Jang, 8 May 2010