A salute to martyrs of Pakistan’s war on terror – by Nazir Naji
شہیدوں کو سلام….سویرے سویرے …نذیرناجی
30
اپریل کو شہدا کا دن قرار دیا گیا ہے۔ یقینی طور پر اس کی وجہ سوات‘ ملاکنڈ اور قبائلی علاقوں میں کثرت سے شہادتیں پانے والے وہ فوجی جوان اور افسر ہیں‘ جنہوں نے پرامن شہریوں کو وحشیانہ طریقے سے شہید کرنے والوں کے تعاقب میں جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ پاک فوج کے اس جہاد کو عوام کی نظروں میں مقدس ثابت کرنے پر کافی عرصہ صرف ہوا۔ ایک طرف دہشت گرد عورتوں‘ بچوں اور بے گناہ شہریوں کو بارود سے بھون رہے تھے اور دوسری طرف مذہبی دکاندار اور سیاستدان‘ اس سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو مجاہد قرار دے رہے تھے اور پاک فوج کی طرف سے شہادتیں پیش کرنے والے جوانوں اور افسروں کو شہید کہنے سے گریزاں تھے۔
میڈیا پر بھی انہی لوگوں کے اثرات غالب تھے ۔ ہر ٹی وی چینل اور اخبار میں ہمارے شہداء کو ہلاک یا جاں بحق لکھا جاتا اور بعض جگہ تو دہشت گردوں کو شہید اور ہمارے جوانوں کو جاں بحق قرار دیا جاتا۔ میں غالباً پہلا شخص تھا‘ جس نے اس پر مسلسل احتجاج کیا اور بار بار لکھا کہ ہماری فوج مقدس جہاد کررہی ہے۔ کسی بھی مسلمان کے نزدیک بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا جائز نہیں۔ جو لوگ اسلام کا نام لے کر انسانیت کا قتل عام کر رہے ہیں‘ انہیں راہ راست پر لانا یا قتل کرنا ایک حقیقی جہاد ہے۔ بڑی مشکل سے میڈیا میں آہستہ آہستہ حقیقت شناسی کا عمل شروع ہوا۔ ہمارے اور وطن کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو شہید تسلیم اور تحریر کیا جانے لگا اور اب پوری قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سال 30 اپریل کو یوم شہداء منایا جائے گا۔
ہر قوم اور ملک کی تاریخ میں آزادی اور سلامتی کی خاطر‘ جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہیرو قرار پاتے ہیں اور ان شہداء کو درد بھرے دل اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ انتہائی احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ہم جو یوم شہداء منایا کریں گے‘ وہ صرف حالیہ شہیدوں تک محدود نہیں ہو گا۔ جنرل کیانی نے اپنے خطاب میں‘ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ پاک فوج اب تک 14 ہزار سے زیادہ جانوں کے نذرانے پیش کر چکی ہے۔
میں تو ان میں دیگر تمام شہداء کو بھی شامل کروں گا‘ جنہوں نے آزادی کی راہ میں جانی قربانیاں پیش کیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انہوں نے ایک ایسے وطن کی آزادی کے لئے خون بہایا‘ جس کی سرزمین پر قدم رکھنا انہیں نصیب نہ ہو سکا۔ میں یوم شہداء کی یادوں میں انہیں بھی شامل سمجھوں گا‘ جنہوں نے مشرقی پاکستان میں دشمن کے ایجنٹوں اور فوجوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ یہ سب ہمارے قابل احترام شہداء ہیں۔ جب ہر سال 30 اپریل کو سارا پاکستان اپنے شہداء کو یاد کر رہا ہو گا‘ تو پھر اس میں کوئی تخصیص نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وہ فرد‘ جس نے کسی بھی حیثیت میں عوام اور وطن کی سلامتی کی خاطر اپنی جان دی‘ اس کی یاد کو تازہ رکھنا ہم پر قرض بھی ہے اور واجب بھی۔ ہم انہیں کبھی نہیں بھول سکیں گے کیونکہ ہم سلامتی کے جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں‘ وہ شہداء کی قربانیوں کا صدقہ ہے۔
دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ انتہائی مشکل اور تکلیف دہ جنگ ہے۔ نہ جانے یہ کب تک لڑنا پڑے گی؟ یہ جنگ ہم پر دہشت گردی کے عالمی عفریت نے مسلط کی۔ یہ لوگ اپنے ملکوں کے بھگوڑے ہیں‘ جنہوں نے افغانستان کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنے مراکز قائم کئے اور پھر کئی ملکوں میں اپنا جال پھیلا کر امریکہ میں دہشت گردی کر کے ایک عالمی طاقت کو وحشت میں مبتلا کر ڈالا۔ ہماری بدنصیبی تھی کہ ان عالمی دہشت گردوں کو افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اپنے مراکز قائم کرنے کے مواقع مہیا کئے۔
دنیا میں یہ تاثر عام تھا کہ طالبان پاکستان کی پیداوار اور اس کے زیراثر ہیں۔ حالانکہ طالبان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ کبھی برادرانہ اخوت کا ثبوت نہیں دیا۔ وہ چاہتے تو ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد قرار دے کر پاکستان اور افغانستان میں باہمی تنازعے کی ایک مستقل وجہ کو ختم کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اسی طرح 9/11 کے بعد جب امریکہ نے یہ مطالبہ کیا کہ القاعدہ کو افغانستان سے نکال دیا جائے‘ تو طالبان نے ہمارے مشورے کے باوجود یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ نتیجے میں افغانستان مزید تباہ و برباد ہوا اور اب تک ہو رہا ہے اور پاکستان کو بھی مجبور ہو کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں کودنا پڑا۔ بعض لوگ ابھی تک اسے امریکہ کی جنگ ہی کہتے ہیں۔
ان کو پاکستان میں جگہ جگہ ہونے والی تباہی اور بارودی دھماکوں میں اڑنے والے انسانی جسموں کے پرخچے نظر نہیں آتے۔ انہیں ہسپتالوں اور سکولوں میں مریضوں اور بچوں کی ہلاکتیں دکھائی نہیں دیتیں۔ انہیں مساجد اور امام بارگاہوں میں نمازیوں کی شہادتیں دکھائی نہیں دیتیں۔ انہیں ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں کو بے رحمی سے شہید کرنے والوں کی درندگی نظر نہیں آتی۔ جانیں‘ ہمارے شہری اور فوجی قربان کر رہے ہیں۔ سکول ہمارے اڑائے جاتے ہیں۔ بم ہمارے شہروں میں چلتے ہیں اور یہ بینائی سے محروم لوگ پھر بھی اس ضد پر قائم ہیں کہ یہ سفاکانہ کارروائیاں کرنے والے امریکہ سے لڑ رہے ہیں۔ درحقیقت یہی لوگ تھے‘ جن کی شہہ پا کر دہشت گردوں نے پاکستانی سرزمین پر قبضے کا خواب دیکھا۔ وہ بڑھتے بڑھتے بونیر تک آ گئے تھے اور اسلام آباد پر قبضہ کرنے کے دعوے کرنے لگے تھے اور دوسری طرف ہماری فوج کو ان کے خلاف کارروائی سے روکنے کے لئے طرح طرح کے پرفریب نعرے لگائے جاتے تھے۔ سادہ ذہن اور اسلام پر ایمان رکھنے والے جوانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا جا رہا تھا کہ مسلمان بھائیوں پر گولی نہیں چلانا چاہیے۔
یہ بڑا مشکل دور تھا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے اس گمراہ کن اور مذہب کی آڑ میں ملک دشمن پراپیگنڈے کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے عمل اور کردار سے فوج کا ہر سپاہی واقف تھا۔ جنرل پرویزمشرف کو وہ عزت اور احترام حاصل نہیں تھا‘ جو ایک سپاہی کی حیثیت سے جنرل کیانی نے حاصل کیا۔ یہ ان کی قیادت کا نتیجہ تھا کہ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے ملک و ملت کے خونخوار دشمنوں کے اصل چہرے دیکھنا شروع کئے اور جب میدان جنگ میں ان سے پالا پڑا‘ تو حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔
آج ہماری فوج پورے جوش و جذبے اور قوت ایمانی کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ سوات اور ملاکنڈ کے عوام کو ان کی بربریت سے نجات دلانے کا عمل جاری ہے۔ جنوبی وزیرستان‘ باجوڑ‘ اورکزئی اور دیگر قبائلی علاقوں میں جہاں دہشت گردوں نے اپنے مراکز بنا رکھے تھے‘ ہماری فوج نے انہیں ختم کر کے دہشت گردوں کو تتر بتر کر دیا ہے۔ ان اڈوں کا بڑا حصہ ختم کیا جا چکا ہے‘ جہاں سے خودکش بمباروں کو ہمارے شہروں اور بستیوں میں تباہی پھیلانے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ دہشت گردی کا کینسر پوری طرح ختم نہیں ہوا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سیلز آج بھی متحرک ہیں۔ انہیں ختم کرنے کے لئے ہمیں طویل عرصے تک جدوجہد کرنا ہو گی۔ یوم شہداء منانے کا فیصلہ اسی عزم کا اعادہ ہے۔ ہم اپنے شہیدوں کی یاد کو اپنی طاقت بنا کر انسانیت کے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے اور اس وقت تک کرتے رہیں گے‘ جب تک پاکستان کی سرزمین دہشت گردی سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو جاتی اور ہمارے سکولوں‘ کالجوں‘ ہسپتالوں‘ مارکیٹوں‘ مسجدوں‘ امام بارگاہوں کی رونقیں اسی طرح بحال نہیں ہو جاتیں جیسے کہ دہشت گردی سے پہلے تھیں اور ہمارے لوگ ہر طرح کے خوف سے آزاد‘ زندگی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔پاک فوج کے شہداء کو سلام۔ پاکستان کے شہداء کو سلام اور ان تمام پرامن شہریوں کی شہادتوں کو سلام‘ جو درندہ صفت دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔
Source; Jang, 2 May 2010
The officers and soldiers of Pak army who have sacrificed their lives while fighting the demented terrorists need to be acknowledged and cherish in their true spirit. Pak army with the help of USA’s assistance has conducted a thorough operation in the Khyber-Pakhtoonkhwa region. The results can be seen by the decreased number of terrorist attacks in all cities of Pakistan.
pakistani army has killed thousands of Pukhtoons . last year the army attacked children in jamrud Khyber agency while they were playing in a ground… a few months ago they also opened fire on innocent people in Tirah Khyber agency and killed more than 50 tribal Pukhtoons… even they accepted it… so who are shaheeds Pakistani killers or Pukhtoons
@Khan Mullagori What are your views about those Pukhtoons who are being killed by the Taliban? Are they shaheed?
Also, what do you think about Punjabi Taliban?