Democratic values and media companies -by Aamir Hussaini

جمہوری اقدار اور صحافتی ادارے

لیل و نہار ؛عامر حسینی

ہمارے ہاں آج کل میڈیا کی آزادی کا بہت چرچا ہے-یہ آزادی کس قدر آزادی ہے؟اور کون لوگ اس آزادی کا لطف اٹھاتے ہیں اس پر بات ہونی بہت ضروری ہے-سب سے پہلے ہم میڈیا کارپوریشنز کے مالکان کی بات کرتے ہیں-ان مالکان میں اور دوسرے کاروباری اور صنعت کاروں میں کوئی فرق نہیں ہے-آپ اگر کسی فیکٹری یا کارخانے میں کام کرنے والے ملازمیں کا سٹیٹس جاننا چاہیں گیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ تین حصوں میں تقسیم ہوگا –

١-مستقل ملازمیں :یہ سب سے کم تعداد میں ہوں گے -ان کو پنشن ،گریجویٹی ملٹی ہے جو ریٹائرمنٹ پر ملنے والے فوائد میں شامل ہے-
٢-کنٹریکٹ ملازمین:یہ دو طرح کے ہوتے ہیں-ایک وہ جن کا کنٹریکٹ خود کمپنی سے ہوتا ہے-اس طرح کے کنٹریکٹ میں آپ کمپنی کے خلاف چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں اگر مدت کنٹریکٹ ختم ہونے سے پہلے کمپنی آپ کا کنٹریکٹ ختم کرے تو-اور آپ کی میڈکل ،انشورنس ،بونس ،جیسے معاملات بھی کمپنی کو ہی دینا ہوتے ہیں-یہ کنٹریکٹ بھی کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے-
کنٹریکٹ کی ایک قسم یہ ہے کہ کمپی کی کنٹریکٹر کمپنی کو ہائر کرتی ہے-وہ کنٹریکٹر کمپنی درکار ماہرین کو اپنے کنٹریکٹ پر بھرتی کرتی ہے-اور ان کو مذکورہ کمپنی کو بھیج دیتی ہے-گویا آپ جس کمپنی کو خدمات فراہم کر رہے ہوتے ہو وہ کمپنی آپ کی تنخواہ سمیت دیگر مراعات سے بھی بری الزمہ ہوجاتی ہے-آپ اس کمپنی کے ملازم ہی شمار نہیں ہوتے-نہ ہی برطرفی کی صورت میں کوئی قانونی کاروائی کی جاسکتی ہے-

عمومی طور پر ایسی کنٹریکٹر کمپنیاں ذیلی طور پر خود مینو فیکچرر یا سروس پرووائڈر خود بنا لیتے ہیں-

ڈیلی ویجرز ؛کارخانوں ،فیکٹریوں،سمیت کارپوریٹ تنظیموں میں کام کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ڈیلی ویجرز کی ہوتی ہے-یہ ڈیلی ویجرز بھی کسی کنٹیکٹ کمپنی کے ذریعہ سے بھرتی کئے جاتے ہیں-اور ان کو کسی بھی قسم کی مراعات نہیں ملتی ہیں-

اخبارات ،رسائل ،جرائد ،الیکٹرانک میڈیا پر مشتمل کارپوریشنز کے مالکان نے بھی یہی حکمت عملی بھرتی کے لئے اپنا رکھی ہے -ان کے دفاتر میں مستقل ملازمین تو بہت کم رہ گئے ہیں-ایک ماتادبہ تعداد ان کے ساتھ کنٹریکٹ ملازمین کی ہے-جس کو یہ آہستہ آہستہ کنٹریکٹ مدت ختم ہونے پر فارغ کر رہے ہیں-زیادہ ملازم گھوسٹ کنٹریکٹ کمپنیوں کے ملازم ہیں-اور پھر ڈیلی ویجرز ہیں-اندازہ کیجئے کہ روزنامہ جنگ ملتان کے سٹاف میں صرف دو ملازم مستقل ہیں-باقی سب صحافی کنٹریکٹ پر ہیں اور کنٹریکٹ بھی جنگ سے نہیں بلکہ گھوسٹ کمپنی سے-
روزانہ ایکسپریس ملتان میں کوئی ایک بھی صحافی نہ تو مستقل ہے-نہ ہی وہ ایکسپریس کو شایع کرنے والی کمپنی کے کنٹریکٹ پر ہے-بلکہ ایک گم نام ہیومن ریسورس کمپنی کے ملازم ہیں-نوائے وقت ملتان میں پرانے ملازم خال خال رہ گئے-نیا جو بھی عملہ بھرتی کیا گیا وہ گھوسٹ کنٹریکٹ پر بھرتی ہے-اس طرح میڈیا کارپوریشنز میں ملازمت کرنے والے صحافیوں کو اپنی ملازمتوں کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے-وہ آزادی سے کام نہیں کر سکتے-وہ اپنی انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں-میڈیا میں کام کرنے والی اس اکثریت کو وہ مراعات اور تحفظ حاصل نہیں ہے جو چند میڈیا سٹارز کو حاصل ہے-یہ میڈیا سٹارز وہ ہیں جو آج آپ کو آزادی صحافت کے سب سے بڑے علم بردار نظر آتے ہیں-لیکن یہ سٹارز کبھی بھی صحافی ملازمین کی نوکریوں کو مستقل کئے جانے کا مطالبہ نہیں کرتے اور نہ ہی نوکری کے عدم تحفظ کو آزادی صحافت کے لئے کوئی خطرہ خیال کرتے ہیں-

مستقل نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں عامل ملازم صحافی سپریم کورٹ سے ویج بورڈ ایوارڈ کا کیس جیت جانے کے باوجود اور ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاز کے بعد بھی کسی قسم کے فائدے سے محروم رہے ہیں-

یہ صحافی کسی بھی جگہ احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں -کیونکہ ایسا کرنے پر یہ فوری توڑ پر فارغ ہوجائیں گے-
کنٹریکٹ پر ملازموں میں ایک سٹارز اور سیمی سٹارز صحافیوں کا طبقہ اشراف بھی ان مالکان نے پیدا کر رکھا ہے-یہ وہ طبقہ ہے جو بھاری تنخواہوں ،مراعات کے بدلے میں اپنے ساتھیوں کے عدم تحفظ کی حالت کو برقر رکھتی ہے اور اس کے خلاف کسی بھی طرح کی جدوجہد کو آگے نہیں جانے دیتا-صحافتی ٹریڈ یونین کو لمزور کرنے میں اس طبقے کا بہت بڑا ہاتھ ہے-یہ طبقہ ایک طرح سے مالکان کی انتظامیہ کی حثیت اختیار کر گیا ہے-اور اس کو جزوی طور پر ہائر اینڈ فائر کے اختیارات بھی حاصل ہوگئے ہیں-

بیگار دینے والے صحافی :صحافیوں کی ایک اور قسم بھی ان میڈیا کارپوریشنز نے پیدا کی ہے-اور یہ قسم ایسی ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کسی بھی طرح سے ان کو صحافی کیوں کہا جاتا ہے-یہ صحافی وہ ہیں جو آپ کو پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں کے ہر گلی ،محلے میں ایک بورڈ لگائے مل سکتے ہیں-یہ اعزازی صحافی ہیں-جن کو ان کے کام کی کوئی اجرت نہیں ملتی ہے-پھر یہ صحافی نہیں ہیں بلکہ اخبارات و چینلز کے مارکیٹنگ کے ذمہ دار بھی ہیں-یہ اشتہارت بھی بھیجتے ہیں-اور اخبارات اور چینلز ان کو نمائندگی دیتے ہوئے ایک طرف تو ان سے لاکھوں روپے مانگتے ہیں اور پھر ان سے سال میں دو سے چار لکھ کا بزنس بھی ڈیمانڈ کرتے ہیں-ان کو جو پریس کارڈ جاری ہوتا ہے اس پر لکھا ہوتا ہے کہ “نمائندہ اعزازی ”
یہ صحافیوں کی وہ فوج ظفر موج ہے جو عمومی طور پر چھوٹے ،میڈیم شہروں میں کاروباری برادری سے تعلق رکھتی ہے-یا زمینداری کرتی ہے-یا پھر وہ کسی ایسے کام میں مشغول ہوتی ہے جس کو پروٹیکشن چاہیے ہوتی ہے-ایسے تمام لوگ اصل میں ایک طرح کی سرمایہ کڑی کرتے ہیں اور طاقت کے حصول کے لئے میڈیا کارپوریشنز کے ساتھ جوڑ جاتے ہیں-یہ مقامی اعزازی صحافی نہ صرف اخبارات اور چینلز کے لئے کروڑوں روپے کا بزنس اکٹھا کر کے دیتے ہیں بلکہ وہاں جو صحافتی اشرف طبقہ ہے اس کی کمی کا بھی یہ بڑا ذریعہ ہیں-

مقامی اعزازی صحافیوں کی یہ پرت سودا کاری ،ایجنٹو کریسی ،بروکری اور وچولے پن میں ہی معروف ہوتی ہے-اس کے ہاں صحافت ایک پریشر،دباؤ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے-یہ اصل میں سماج میں لوٹ مار اور کرپشن کرنے والوں سے اپنے حصہ کی طلب گار پرت ہے-اور جرائم پیشہ اور کرپٹ لوگ ان کے پیچھے پناہ لیتے ہیں-لیکن کیا یہ اعزازی مقامی صحافی ہی کرپٹ اور لوٹ مار کرنے والوں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں؟نہیں بلکہ ملک ریاض کے کیس میں یہ بھی سامنے آیا کہ اشراف صحافی ،مالکان بھی اس جرم میں شریک ہیں-

لوکل صحافت میں پروفیشنل ازم کی بربادی کی ذمہ داری مالکان کی طرف سے اعزازی صحافت کا فروغ ہے-یہ اگر پروفیشنل بنیادوں پر کم از کم اعزازیہ اور معاوضہ کی بنیاد پر صرف صحافت کرنے والوں کو بھرتی کریں تو بہت حد تک زرد صحافت اور کمرشل ازم کا خاتمہ ہوسکتا ہے-

پریس کلبز :اکثر پریس کلبز میں گروہی قبضہ گیری کا اصول چل رہا ہے-بوگس ممبرشپ عروج پر ہے-پریس کلب کے گارڈز ،منشی،مینجرز ،اکاونٹنٹ ،اور کئی شہروں میں دہی بھلے پیچنے والے-فروٹ کا کھانچہ لگانے والے نہ صرف پریس کلب کے رکن ہیں بلکہ وہ ایکری ڈیشن کارڈز بھی رکھتے ہیں اور مفت سفری سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں-

پریس کلبز کے انتخابات میں سرکاری ملازم،حکومتی ٹھیکیدار ،بزنس مین ،اور کالے دھندے کرنے والے بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں-وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں-اب تو وہ خود بھی ان پریس کلبز کے رکن بننے لگے ہیں-اسی لئے پریس کلبز پر قبضوں کے لئے تصادم،فائرنگ عام بات ہوگئی ہے-اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ پریس کلبز کس حد تک آزادی صحافت کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہوں گے-پھر ملک کے جو چند بڑے پریس کلبز ہیں وہاں پر ہولڈ کے لئے حکومت ،حزب اختلاف اور تو اور خود وردی ،بے وردی نوکر شاہی ،عدالتی اسٹبلشمنٹ کے لوگوں میں بھی رسہ کشی ہونے لگی ہے-سب ان پریس کلبز میں ایسے لوگوں کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتی ہیں کہ جو ان کی زبان بولیں-چھوٹے شہروں اور دیہایتوں میں اعزازی صحافی کسی ایک جاگیردار یا وڈیرے کے باج گزار ہوتے ہیں اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ شایع نہیں کرتے-ایسے میں صحافت کی آزادی کیسے ممکن ہوسکتی ہے-

کام کرنے کی جگہ پر یونین :میڈیا کارپوریشنز میں کام کرنے کی جگہ پر یونین عملی طور پر قائم کرنا ناممکن بنا دی گئی ہے-

صحافتی تنظیمیں:پریس کلبز کے آنے سے جرنلسٹس یونینز اپنا وزن کھو بیٹھی ہیں-گراس روٹ لیول پر اب فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی وہ بات نہیں جو عثمانی صاحب،منہاج برنا صاحب کے زمانے میں ہوا کرتی تھی-شہروں میں صحافتی ٹریڈ یونین نہ ہونے کے برابر ہے-

فیڈرل یونین آف جرنلسٹس مقامی ،اعزازی ،فری لانس صحافیوں کو رکنیت نہیں دیتی-اور نہ ہی ڈیلی ویجرز کو رکنیت دیتی ہے-اس طرح سے گراس روٹ لیول پر اکثریت اس تنظیم میں شامل نہیں ہے-فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اب تک میڈیا کارپوریشنز کی جانب سے کنٹریکٹ جابز کے موجدہ طریقہ کار کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی-بلکہ آگاہی کا فقدان نظر آتا ہے-سٹار صحافی اس تنظیم پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور ان کے پیچھے اخباری مالکان ہیں جو مدیروں کی کونسل پر تو ایک عرصۂ سے قابض ہیں-انھوں نے تو مدیر کا کام بھی خود ہی سنبھال لیا ہے-ضمیر نیازی کہا کرتے تھے کہ پاکستان سے مدیر کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے-اب ادارت موجود نہیں ہے-باپ مہا مدیر تو بیٹا مدیر -بقول چوہدری خادم حسین کے آزادی صحافت پر قارون بن کر بیٹھنے کے مترادف ہے یہ-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Naila Cheema
    -