Parliament reposes complete confidence in Prime Minister Syed Yusuf Raza Gilani
RESOLUTION ON CONFIDENCE IN PRIME MINISTER, SYED YUSUF RAZA GILANI
This House reposes complete confidence in Prime Minister, Syed Yusuf Raza Gilani, as the constitutionally and democratically elected Prime Minister and unanimously elected Chief Executive of this country.
This House commends the Prime Minister for upholding the majesty of law by personally appearing thrice, on being summoned by the Honourable Supreme Court, and showing great humility and respect to the Apex Court.
The House also appreciates the firmness and dignity displayed by Prime Minister Syed Yusuf Raza Gilani in upholding the Constitution and the Parliamentary Democracy in the country.
This House also wishes to reaffirm its belief in the Constitutional procedure for the disqualification of a Prime Minister from holding the office ad that any other procedure adopted will be considered as unconstitutional.
Sd/-
Dr. FAROOQ H NAIK
Minister for Law and Justice
Resolution Date: May 3, 2012
وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا ہے، مگر غیرت اور اخلاقی بریگیڈ نے اس ضمن میں اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا ہے جس کے مطابق عوام کے منتخب وزیرعظم، اب وزیراعظم نہیں رہے۔ یہ فیصلہ سناتے وقت بظاہر ہماری غیرت اور اخلاقی بریگیڈ اعلیٰ عدلیہ سے بھی زیادہ جلدی میں دکھائی دیتی ہے۔ ابھی تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد حکومت ،اس کے اتحادی اور وزیراعظم کی قانونی ٹیم، اس کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے گی اس کے بعد اپیل میں جایا جائے گا، کیونکہ وزیراعظم اور ان کے وکیل اعتزاز احسن کا م¶قف ہے کہ ان کے خلاف چارج کی نوعیت سول تھی، مگر ان کو سزا فوجداری مقدمہ کے تحت دی گئی ہے۔ اپیل میں جانے کے بعد جو تفصیلی فیصلہ آئے گا، پھر اس کو قانون اور آئین کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ تفصیلی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس 30 دن کا وقت قانونی مشاورت کے لیے ہوگا۔ اس کے بعد یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا۔ غرض ایک متفقہ وزیراعظم کو ہٹانے کے ابھی کئی قانونی آئینی تقاضے پورا کرنے ہوں گے۔ ایک منتخب عوامی وزیراعظم کو ہٹانے کے آئین میں تین طریقے موجود ہیں، اور وہ یہ ہیں: تحریک عدم اعتماد، مستعفی ہونا اور تیسرا ممبر قومی اسمبلی کے طورپر نااہل ہونا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کو ہٹانے کا آئینی اور قانونی کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، مگر ماضی میں ہمارے فوجی جرنیلوں نے ان عوامی نمائندوں کو ہٹانے کے لیے بندوق کا سہارا لیا ہے، اور انہیں قانونی آئینی جواز اعلیٰ عدلیہ نے دیا ہے۔
حسب روایات ایک بار پھر منتخب حکومت کو سازش سے ہٹانے میں ٴٴضیا باقیاتٴٴ کی سب سے نمایاں نشانی پاکستان مسلم لیگ نٞ اور اس کے قائد میاں نواز شریف سب سے آگے ہیں، وہ اور ان کی جماعت جو سیاسی تنہائی اور بوکھلاہٹ کا شدید ترین تجربہ کررہی ہے، وزیراعظم کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ نام نہاد سیاسی جماعت جو جی ٹی روڈ سے سکڑتی ہوئی رنگ روڈ کی جماعت بنتی جا رہی ہے اس نے عوام کے منتخب نمائندہ پارلیمنٹ سے زیادہ غیر منتخب اداروں کو اہمیت دی ہے، چاہے وہ اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ ہو یا میمو کا۔ جب اس کا قائد کاغذ کا ایک ٹکڑا پکڑ کر وزیراعظم کی طرف سے قائم کردہ پارلیمانی کمیشن کی تحقیر کرتا ہوا عدالت چلا گیا تھا جس پر اسے پاکستان کے جمہوریت پسند حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ میاں نواز شریف اب تک جنرل ضیائ الحق کی رف سے دیئے گئے سیاسی اسباق کو نہیں بھولے، وہ آج بھی 1990ئ کی طرز کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، سیاسی جمود ان کی رگوں میں اتر چکا ہے انہوں نے 1999ئ کے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کی صورت میں اپنی حکومت کے خاتمے اور جلا وطنی سے کچھ بھی نہیں سیکھا، وہ میثاق جمہوریت کو مکمل طور پر بھول چکے ہیں، جس میں واضح طور پر تحریر تھا کہ مستقبل میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ختم نہیںکیا جائے گا۔ میاں صاحب تو سینئر صحافی سہیل وڑائچ سے لکھوائے گئے اپنے لفظ بھی بھول گئے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف انہوں نے مقدمات انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دبائو میں قائم کیے تھے۔ غرض میاں صاحب تمام جمہوری وعدے بھول گئے، اور یاد رہے تو بس جنرل ضیائ الحق کے بتائے ہوئے سیاسی گُر کہ کس طرح منتخب حکومتوں کا سازش کے ذریعے تختہ الٹا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلے کے بعد ٹی وی ٹاک شوز کی محفلوں کی رونقیں بھی بحال ہوگئی ہیں۔ جہاں غیرت اور اخلاقیات کے ماہر اساتذہ کرام روزانہ آٹھ سے گیارہ بجے کے دوران اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ لوگ ایک ایشو اور ایک ادارے کے تحت زندہ رہنے والے لوگ ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز کے اینکر اور یہ ماہر اساتذہ کرام ایک نان ایشو کو لے کر اس طرح اسے اہم ترین ایشو میں تبدیل کر دیتے ہیں کہ شیطان بھی حیرت زدہ رہ جائے، انہیں ایک کاغذ کے ٹکڑے سے پوری ریاست خطرے میں دکھائی دیتی ہے، یہ لوگ ایک فوجی غیرمنتخب آمر کے زیر سایہ تو ایک دہائی سے زائد عرصہ تک رہ سکتے ہیں مگر ایک آئینی جمہوری حکومت کا ایک دن بھی ان کو برداشت نہیں ہوتا۔ انہیں عوام کے منتخب اداروں سے نفرت ہے، اور یہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل غیر نمائندہ اداروں میں ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے ان کی تمام تر امیدوں کا مرکز فوج کا مقدس ادارہ تھا، اور اب ان کے نزدیک پاکستان کی ریاست چلانے کے لیے محض عدلیہ کا ادارہ ہی کافی ہے، باقی عوام اور اس کے منتخب اداروں کی کوئی ضرورت نہیں، جو ریاست کے بنیادی ستونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے دانشور حضرات جب قوم کے ضمیر اور ساکھ کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے سویلین حکومت کو اخلاقیات کا سبق پڑھاتے ہیں تو وہ ہماری سیاسی تاریخ کو یکسر فراموش کرجاتے ہیں جو کسی بھی تجزیہ کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا ہدف محض عوام کے منتخب نمائندوں کی اخلاقی اصلاح ہوتا ہے اور انہیں قانونی آئینی پارلیمانی تقاضوں سے کوئی غرض نہیں ہوتیٴ کاش یہ اخلاقی اصلاح کے اسباق انہوں نے فوجی آمروں جنہوں نے منتخب آئینی حکومتوں کے تخت الٹے اور ان کے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو پڑھائے ہوتے جنہوں نے ہر فوجی آمر کے غیر آئینی اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ دیا ہوتا ہےٴ بلکہ اضافی مراعات کے طور پر آئینی ترامیم کا حق بھی دے دیا ہوتا ہے جو ان کے پاس خود بھی نہیں ہوتا اور پھر اس کے بعد فوجی آمروں کے سامنے کوئی قانونی آئینیٴ پارلیمانی تقاضہ نہیں ہوتا وہ محض پریس کانفرنس میں ہی بیٹھ کر آئین میں ترمیم کرنے کے مجاز ہوجاتے ہیں۔
نواز شریف اور ان کی جماعت کی 1990 ئ کی طرز کی سازشوں اور ہنگامہ آرائی پر مبنی سیاست اور غیرت بریگیڈ کے اخلاقیات پر مبنی لیکچرز کے شور میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے وزیراعظم کے حق میں قرارداد منظور کرلی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کو کسی بھی غیر پارلیمانی طریقے سے ہٹایا نہیں جاسکتاٴ وزیراعظم کا انتخاب عوام کی منتخب پارلیمنٹ کرتی ہے جو عوام کی اجتماعی خواہشات اور مفادات کی ترجمان ہوتی ہے وزیراعظم کا عہدہ کوئی کلرک کی پروموشن سے نہیں ملتا یہ فرق ہماری غیرت اور اخلاقی بریگیڈ کو سمجھنا ہوگا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پاکستان کی تاریخ کے پہلے متفقہ وزیراعظم ہیں جن پر ایک بار پھر پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوںٟ ماسوائے پنجاب کی ایک ناراض جماعتٟ نٞ لیگٞ نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اس موقع پر صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے متفقہ وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار عوام کی طرف سے جمہوریت اور جمہوری حکومت کے ساتھ یکجہتی کی دلیل ہےٴ 18 کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں کی قرارداد وزیراعظم گیلانی کی قائدانہ صلاحیتوں اور ان کے تصورات سے مخلصانہ وابستگی کا عکاس ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ 64 سالوں میں عوام اور ان کے منتخب نمائندوں اور اداروں کو کبھی عزت و احترام نہیں دیٴ بلکہ ہمیشہ اپنے مسائل کا حل غیر جمہوری اور غیر نمائندہ اداروں کے استحکام میں دیکھا ہے جس سے پاکستان کا امیج پوری دنیا میں ایک غیر جمہوری ریاست کا رہا ہےٴ اور یہاں کے عوام ہمیشہ آئینٴ قانون اور بنیادی حقوق سے محروم رہے ہیں یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ پاکستان میں بالآخر منتخب ادارے تمام تر چیلنجز کے مضبوطی اور استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس عمل کو اور موثر کرنے کے لئے تمام سیاسی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میاں نواز شریف کو حسین حقانی صاحب کا انٹرویو دیکھنا چاہئےٴ اور جو بات انہوں نے کہی ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ اگر اس دفعہ وزیراعظم توہین عدالت کے جرم میں فارغ کیا گیا تو اگلا وزیر اعظم طیارہ ہائی جیکنگ کے مقدمہ میں گھر یا جدہ جائے گا۔
Source: Daily Mashriq Lahore
Prime Minister Syed Yusuf Raza Gilani’s interview:
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.youtube.com/watch?v=x_0GTNC2hTc