ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم
بہت سےمسائل (یا مصیبتیں) ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک آپ کے سر پر نہ آ پڑیں سمجھ نہیں آتے. کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کسی حال میں خوش نہیں رہتے اور کچھ ہوتے ہیں جو کسی کو کسی حال میں خوش نہیں رہنے دیتے. جیسا کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رشتے دار یا کسی تازہ تازہ بالغ ہونے والے کے بے شمار بزرگ، جو آپ کی بھلائی کے اتنے طلب گار ہوتے ہیں کہ اپنا کام کاج چھوڑ چھاڑ آپ کی اصلاح کے پیچھے لگے رہتے ہیں. یہ رشتے ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ آپ کی جان عذاب میں پھنسی رہے, ان کا کوئی اور مقصد سمجھ نہیں آتا اس کہ علاوہ کہ زندگی اجیرن کئے رکھیں ، اور آپ کی ذات والا صفات کی خامیاں دنیا بھر میں اچھالی جائیں، آپ جو قدم اٹھائیں وہ غلط، آپ جو سوچیں وہ بے وقوفی اور آپ جو کہیں وہ حماقت. آپ سوئیں گے تو آپ کے خیر اندیش کہیں گے کیوں سو رہے ہو اور جاگیں گے تو کہیں گے اٹھ کیوں گئے ؟ کسی بات پر ہنسیں گے تو کہیں گے کہ یہ کوئی لطیفہ تھا بیوقوف ہنس کیوں رہے ہو، اور اگر چپ رہیں گے تو بولیں گے کہ دیکھو اس احمق کو لطیفہ بھی سمجھ نہیں آتا. آپ ان کے مشورے سے کوئی کام کریں اور نتیجہ اچھا نہ ہو تو کہیں گے خود میں عقل نہیں تھی کیا ؟ اور اگر مشوره لئے بغیر کوئی نقصان ہو گیا تو کہیں گے کہ دیکھ لو پھنے خان جانتے نہیں اور اڑنے چلے تھے، غرض یہ کہ آپ کے ہر عمل میں اتنی مین میخیں نکلیں گی کہ آپ عاجز آ کر سب چھوڑ چھاڑ بھاگ جانے کی سوچیں گے. جو بھی دور سے بیٹھا دیکھتا ہے وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ یار لوگ کہاں پھنسے ہیں، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن. اسی لئے اگر آپ کسی پریشان مصیبت زدہ کو کوئی پر حکمت مشوره دیں گے یا صبر کی تلقین کریں گے تو وہ کہے گا کہ حضور میں صبر کروں گا، ضرور کروں گا، بس یہ میری گھر داری آپ سنبھال لیں. تو یہ گھر داری کے معاملات ایسے ہی ہیں کہ جو ان میں پھنسا نہیں ہوتا وہ طرم خان ایسا لگتا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہی نہیں بلکہ علاج بھی اسی کے پاس ہے اور جو شامت کا مارا ہوتا ہے وہ رو بھی نہیں پاتا کہ اس پر بھی اسی کی فہمائش ہو جاتی ہے.
ہر ایک بات پے کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ؟
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟
ہماری حکومت کا حال بھی ایسے پریشان حال کا سا ہی ہے جس کو قسمت کی خوبی سے ایسے بہی خواہ مل گئے ہیں جن کی دانست میں یا تو یہ پوت ابھی پالنے ہی میں ہے یا کم از کم اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اپنا برا بھلا خود سمجھ سکے, لہٰذہ یہ جو کرتا ہے غلط کرتا ہے، رہے ہمارے لوگ تو ان کو توکوئی صلاح الدین چاہیے جو بیک جنبش شمشیر سب صحیح کر دے، اس کے ذمّہ دار وہ ناول اور افسانے ہیں جن میں محترم صلاح الدین کو کشتوں کے پشتے لگاتے، گھوڑا دوڑاتے اور فاتح ہوتے ( عموماً چند سو صفحات میں ) بتایا جاتا ہے یا پھر لوگوں کوایسے ہیرو کی عادت پڑی ہے جو گنڈاسا لے کر چلاتے تھے ‘اوے جاگیر دارا، میں تینوں ویکھ لیاں گا ‘، اس کے ذمّہ دار وہ تمام حضرات ہیں جنہوں نے سلطان راہی کے لیے ایک جیسے ڈائیلاگ لکھے اگرچہ فلموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے. ہمارے ہاں لوگوں کو بھی صرف ڈائیلاگ کی عادت پڑ گئی ہے، اگر چنگھاڑ کر بولا جائے تو زیادہ اچھا ہے. دوسرا غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں فرد کی عزت نفس کو اتنا مجروح کیا جاتا ہے کہ اچھا خاصا انسان بھی اذیت میں مزہ لینے لگتا ہے، اس اذیت پسند ذہنیت کو لطف ہی جب آتا ہے اور تسکین اسی میں ملتی ہے کہ بات تضحیک اور حقارت سے پر ہو، دیکھ لیں جتنا دوسروں کی طرف حقارت سے پر رویہ ہوگا اتنا ہی ایسے شخص کو پذیرائی اور عزت ملے گی. نشانہ کوئی بھی ہو سکتا ہے، ہندو ، عیسائی ، قادیانی، شیعہ، سنی، یا کوئی اور ملک یا قوم یا اشخاص. اچھا مزاح لکھنے والوں کی اتنی پزیرائی نہیں ہوتی جتنی، بھانڈ ، میراثی، جگت بازوں کی، کسی کے متعلق عزت سے بات کریں گے تو کوئی نہیں سنے گا، اس کی ماں بہنوں کو نشانہ بنائیں، دیکھیں کیسے ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں. کسی رہنما کی پالیسی پر تنقید کریں کوئی نہیں سنے گا، اس کا مذاق بنا لیں، بہت چلے گا. کبھی کبھی یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں یا راس لیلا. جیسے ساس بہو کی دانتا کلکل چلتی ہے ایسے ہمارے ہاں تقریر و تحریر براۓ تنقید ہوتی ہے.
تو جناب ہمارے ہاں تو جو حال گھر داری کا ہے وہی سیاست اورحکومت کا بھی ہے ، جو حکومت میں ہے برا ہے بلکہ بس وہی برا ہے ایک لطیفہ ہے کہ ‘ایک بڑھیا کے تین کام چور نا لائق بیٹے تھے جو بری عادتوں کا شکار تھے. ایک دن پولیس سے بھاگتے بھاگتے گھر میں جا گھسے، پیچھے پیچھے پولیس بھی پنہچ گئی، تینوں ماں کے کمرے میں جا گھسے، ایک مچان پر چڑھ گیا، دوسرا پلنگ کے نیچے جا گھسا اور تیسرا صندوق کے پیچھے چھپ گیا. پولیس والے بھی اسی کمرے میں آ پہنچے، انسپکٹر نے بڑھیا سے پوچھا، ‘اماں تمہارے بیٹے کدھر ہیں؟’ بڑھیا بولی ‘بیٹا اوپر والا جانے’، انسپکٹر نے بڑھیا سے پوچھا ‘آج گھر آئے تھے؟’ ، بڑھیا بولی ‘بیٹا اوپر والا جانے’، انسپکٹر نے پوچھا ‘ کب سے غائب ہیں؟’ بڑھیا پھر بولی ‘بیٹا اوپر والا جانے’. جو بیٹا اوپر مچان پے چڑھا تھا اس کو غصہ آ گیا کہ بلا وجہ اس کو پھنسایا جا رہا ہے، گرج کے بولا ‘صرف میں کیوں جانوں، جو پلنگ کے نیچے گھسا ہے وہ کیوں نا جانے اور جو صندوق کے پیچھے چھپا ہے وہ کیوں نا جانے؟” ہمارے لوگوں کو چاہیے کہ ان کی طرف بھی توجہ دیں جو پلنگ کے نیچے گھسے ہیں اور صندوق کے پیچھے چھپے ہیں. رونا اور گانا دونوں میں جتنے زیادہ سر ہوں سننے والوں کو اتنا ہی مزہ آتا ہے, ایک ہی سر میں روتے رہنے سے بھلا کیا فائدہ؟