Our parliament

ہماری پارلیمنٹ

ہمارے معاشرے میں ریاست اور سیاست سے بیگانگی اور لا تعلقی کا کلچر بڑی تیزی سے پھیلا ہے۔ جس کا سب سے بڑا مظہر شہری ذمہ داریوں سے گریز کا رحجان ہے ہم اپنے اداروں اور حکمرانوں پر ڈرائینگ روم اور ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر تنقید تو کرتے ہیں مگر ان کی بہتری اور جمہوری عمل کو مثبت انداز میں آگے بڑھانے کے لئے عمل کی دنیا میں قدم نہیں رکھتے۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست بہت خراب ہے مگر اس کی بہتری کے لئے سیاسی عمل میں شامل نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں طویل فوجی حکومتوں کے ادوار میں عوامی نمائندہ اداروںٟ پارلیمنٹٞ کو کمزور کرنے اور عوام کو سیاسی حوالے سے گمراہ کرنے کی جو پالیسی اپنائی گئی تھیٴ اس کی وجہ سے آج کیفیت یہ ہے کہ لوگ اپنے سیاسی نمائندہ اداروں کے بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتےٴ بس وہ ہر چیز کو غلط کہہ کر رد کرتے جارہے ہیںٴ اور اپنی قومی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔

پاکستان میں غیر یقینی سیاسیٴ معاشی اور معاشرتی حالات کے تسلسل کی وجہ سے یہاں جدید سیاسی ثقافت کی صورت نہیں بن سکی۔ اس کلچرل انتشار نے عوام کو ریاستٴ معاشرے اور قومی اداروں سے بیگانہ اور لاتعلق کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ ہماری کوئی مشترکہ ذمہ داری رہی ہے اور نہ ہی کوئی مشترکہ نصب العین۔

ملکی نمائندہ اداروں کے بارے میں باخبر اور باشعور عوامی رائے عامہ قومی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ اب جمہوریت کوئی یو ٹوپیائی تصور نہیں رہاٴ بلکہ اس نے اپنے چراغ ہر جگہ روشن کئے ہیںٴ اور آج آئینی جمہوری حکومت کو ہر جگہ بہترین طرز حکمرانی کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے ڈکٹیٹرز بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ بلاآخر جمہوریت ہی قائم ہوگی ہم اگر آج یورپ اور امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کو دیکھیں تو ہمیں اس میں ان کے نمائندہ اداروں ان کے فیصلوںٴ قراردادوں اور ترامیم کا بڑا کردار دکھائی دیتا ہے مگر بدقسمتی سے ہماری پارلیمنٹ پر آج بھی غیر نمائندہ اداروں کے بہت سے اثرات باقی ہیں اور اسے ربڑ سٹمپ ہونے کا طعنہ بھی کئی بار سننا پڑا ہے۔ غیر نمائندہ اداروں کی یہ خواہش رہی ہے کہ عوام کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ غیر موثر اور غیر فعال رہے۔

یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نمائندہ اداروں سے وابستہ ہوتے ہوئے ان اداروں کو مضبوط بنائیںٴ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں جمہوری عمل سے مستفید ہوتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے مقاصد حاصل کرسکیں۔ پاکستان میں چونکہ ابتدائ ہی سے ریاستی اقتدار غیر نمائندہ اداروںٟ اسٹیبلشمٹٞ کے ہاتھ میں رہا ہےٴ اور سیاسی منتخب نمائندہ قیادت کو اقتدار کے ریاستی ڈھانچہ میں ثانوی حیثیت دے کرٴٴ شراکت اقتدارٴٴ کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ منتخب سیاسی قوتوں کی عجیب مجبوریاں اور مشکلات رہی ہیں انہیں ایسے آئین اور قوانین کے تابع کیا جاتا رہا ہے جو ان سے پہلے قابض غیر جمہوری حکمرانوں کے مسخ کردہ یا ترمیم کردہ ہوتے ہیں ان تمام غیر جمہوری ترامیم کا خمیازہ ہماری جمہوری حکومتوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے نام پر فوجی آمروں نے جو آئینی ترامیم کی ہوتی ہیں یا اپنے اقتدار کی طوالت کی غرض سے جو قاعدو ضوابط وضع کئے ہوتے ہیں وہ جمہوری حکومتوں کے خاتمہ کا باعث بنتے ہیںٴ آٹھویں ترمیم کی بدنام زمانہ شق ٟ2 ٞb 58 بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کو ختم کرنے کے لئے استعمال کی گیٴ اسی طرح لیگل فریم ورک آرڈرٟ ایل ایف اوٞ اور پھر بعد میں جنرل پرویز مشرف کی 17 ویں ترمیم نے پارلیمنٹ کو بے اختیار اور غیر فعال کئے رکھا۔ غیر نمائندہ اداروں کا یہ سیاسی کھیل اس طرح سے تھا کہ اقتدار اپنے پاس رکھ کر ذمہ داری پارلیمنٹ پر ڈال دی جائے اس میں آئینی پارلیمانی اور نمائندہ اداروں کو جواز تو حاصل ہوتا ہے مگر اقتدار ان کے پاس نہیں ہوتا اس طرح اسٹیبلشمنٹ نے نمائندہ قانون ساز اداروں کو ڈیبٹنگ کلب میں تبدیل کردیا تھا۔ جہاں بحث و مباحثہ تو ہوسکتا تھا مگر اسے حساس موضوعات پر بحث اور قانون سازی کے اختیارات حاصل نہیں تھے ان حساس موضوعات میں خارجہ پالیسی اور دفاعی معاملات خاص طور پر سرفہرست رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ بھی رہی کہ قانون ساز نمائندہ ادارے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو جوابدہ بھی ہوتے ہیں۔ اس تلخ صورتحال میں کمزور اور بے وقعت پارلیمنٹ کو سازش کے ذریعے نظریاتی اور مفاداتی ہنگامہ آرائیوں کے بعد ناکام قرار دے کر فارغ کردیا جاتا رہا ہے اور پھر فوجی آمروں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ دس بارہ سال تک شراکت اقتدار کے فارمولہ کی بجائے عوام پر براہ راست حکمرانی کریں۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ آیا ہےٴ جس میں پارلیمنٹ اپنی کھوئی ہوئی طاقتٴ حیثیت اور اختیارات واپس لے رہی ہے جس میں بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مفاہمت اور اتفاق رائے کی پالیسی اور صدر آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت اور دانائی کا بہت بڑا عمل دخل ہےٴ 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے 1973 ئ کے آئین کو اس کی روح اور اصل صورت میں بحال کیا ہے اس کے بعد 19 ویں اور 20 ویں ترمیم نے پاکستان میں جمہوریت کو استحکام بخشا ہے اور سیاسی ترقی کا نیا باب کھولا ہے اور اب حال ہی میں پارلیمان نے امریکہ کے ساتھ تعلق سے متعلق قومی سلامتی کی کمیٹی کی سفارشات کا ترمیمی مسودہ اتفاق رائے سے منظور کرکے عوام کے منتخب نمائندوں کو یہ حیثیت دی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی جیسے حساس موضوع پر بحث و مباحثہ کرکے قانون سازی کرسکتے ہیں حتیٰ کہ امریکہ بھی قومی سلامتی کی کمیٹی کی منظور کردہ سفارشات کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اگرچہ خارجہ پالیسی کی تشکیل اور نفاذ پارلیمنٹ میں موجود اکثریت یعنی حکومت کی صوابدید ہوتی ہے مگر حکومت نے اس عمل میں تمام سیاسی قوتوں کو شامل کرکے ایک بہتر پارلیمانی سیاسی روایت قائم کی ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے ایسے اقدامات سے عوام کا جمہوریت اور اپنے قانون ساز اداروں پر اعتماد بحال ہوگا اور وہ پارلیمنٹ کو اپنا نمائندہ ادارہ تصور کریں گے جہاں پر ان کے ضمیر کی ترجمان ممکن ہوسکتی ہے اور جہاں پر ان کے منتخب نمائندے ان کی خواہشات کو پالیسیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کے تسلسل اور استحکام کے بغیر ہم ترقی اور خوشحالی کے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایک زندہ جمہوری قوم بن سکتے ہیں۔

Source: Daily Mashriq

Comments

comments