روحانی جمہوریت
ہمارے ممدوح ڈاکٹر بلا بڑے پائے کے دانشور ہیں اور جو کہتے اور لکھتے ہیں ایسا ہوتا ہے کہ دل جھومنے لگتا ہے اور روح کانپنے لگتی ہے، وہ اس لیے کہ دل تو بچہ ہے جی مگر روح کو تو روز محشر نزدیک نظر آتا ہے. ان کے دل میں قوم کا جو درد ہے وہ اکثر ابل پڑتا ہے ویسے ہی جیسے ہمارے آپ کے گھروں میں کچھ اور ابل پڑتا ہے، جب یہ درد ابلتا ہے تو دانش اور فکر کے ایسے ایسے موتی بکھر جاتے ہیں کہ ہم ایسے کم عقل تو عش عش کرتے اپنی انگلیاں چبا ڈالتے ہیں، ہم نے تو اب یہ طریقہ نکالا ہے کہ ڈاکٹر بلا کا تازہ کالم پڑھنے سے پہلے ہی انگلیوں پر پٹیاں چڑھا لیتے ہیں تاکہ بے خودی اور جوش میں چبا ڈالیں تو زخم نہ پڑیں، ڈاکٹر صاحب تو ہر ہفتے کالم لکھ دیتے ہیں، اتنی جلدی زخم تھوڑی صحیح ہو جاتے ہیں، اب ڈاکٹر صاحب سے درخواست تو کی نہیں جا سکتی کہ
زخم کے بھرنے تلک کالم نہ چھپوائیں گے کیا
ویسے کہتے یہ ہیں کہ زوال کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مفکر علم و فکر سے دور اور خوش فہمی سے نزدیک ہو جاتے ہیں، یعنی نام کے مفکر رہ جاتے ہیں، اب دیکھیں ڈاکٹر بلا کل ہی کیا دور کی کوڑی لائے ہیں یعنی روحانی جمہوریت، کہتے ہیں کہ وطن عزیز کے تمام مصائب کا حل روحانی جمہوریت کے نفاز میں ہے اور یہی وہ جمہوریت ہے کہ جس کا خواب علامہ اقبال مرحوم و مغفور نے دیکھا تھا. یہ تو خیر ایک فیشن ہو گیا ہے کہ تمام کٹھ ملا اور بناسپتی دانشور حضرت اقبال کو اپنی فکری خوش فہمیوں کے اندراج کے لئے استعمال کرتے ہیں، شاعر کی خوش قسمتی اور شعر کی بد قسمتی ہوتی ہے کہ اسے جو جیسا سمجھے ویسے بیان کرتا ہے. یہاں تک کہ سہل ممتنع میں کہے گئے شعر کی بھی مٹی پلید کی جا سکتی ہے، مثلآ
جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے
ہمارے پیارے دوست مجید اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ جگر کے سروسس کا علاج پیٹ چاک کے بغیر یعنی آپریشن کے بغیر ممکن نہیں. خدا جانے ڈاکٹر حضرات کی کیا راءے ہوگی اس سلسلے میں, اس سے مجید کو کوئی غرض نہیں. اسی طرح لگتا ہے کہ ڈاکٹر بلا کو بھی کوئی غرض نہیں کہ ان کے فرمودات کو شگوفہ سمجھ کر قہقہے لگیں ، ہمارے ہاں کسی بھی اوبڑ کھابڑ اور در حقیقت مضحکہ خیز بات کو قبولیت اور سند دلوانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے خیال کو تقدیس کا جامہ پہنا دیا جائے اور احترام کے لفافے میں ملفوف کر دیا جائے. اس کے بعد کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں، ہمارے جذباتی اور حسّاس لوگ خود ہی قاضی بن جاتے ہیں اور فیصلہ بھی دے ڈالتے ہیں، پھر کس میں ہمت ہے کہ کچھ کہہ سکے، ڈاکٹر بلا جیسے لوگ اس ذہنیت سے فایدہ اٹھانا خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور رہے وہ جو منطق اور مقصد کے پھیر میں پڑتے ہیں ان کے لئے زیادہ ضروری ہے کہ جان بچانے کا بندوبست کریں
جس کو ہو جان و دل عزیز بلا کی گلی میں جائے کیوں
ویسے ہم کو روحانی جمہوریت کے خیال نے خود اپنے رخش خیال کو آزاد چھوڑ دینے پر اکسایا ہے اور محشر خیال میں کیا کیا نقشہ کھینچ لیا ہے ، یہ تو سمجھ نہیں آتا کہ روحانی جمہوریت میں حاکم کیسے منتخب ہونگے اور کیا طریقہ ہوگا مگر فرض کریں کہ ایسے روشن ضمیر اور بے مثال افراد مل گئے اور ان پر اس ملت کا اجماع بھی ہو گیا جو سر پٹھول کا کوئی موقع نہیں کھوتی، تو جو حکومت بنے گی اس کو کسی اسمبلی کی ضرورت نہیں ہوگی، کیوں کہ جملہ ذمّہ داران روحانی روابط رکھیں گے اور عوام کو کوئی غرض ہی نہیں ہوگی کہ کاروائی سے اگاہ ہوں، خدا بھلا کرے منجملہ صحافی حضرات جو آج اسمبلیوں کی کروائی اور دیگر حکومتی اقدامات پر کام کرتے ہیں، سب کے سب سبکدوش ہو کر خانقاہوں اور مزاروں پر جاروب کش بن جائیں گے، آج ہماری عقلوں پر جھاڑو پھرتے ہیں کل سچ مچ جھاڑو ہاتھ میں ہوگی. اسی طرح ایوان صدر، ایوان وزیراعظم اور دیگر رہائشی سہولیات کی ضرورت نہیں رہے گی کہ سب اپنی اپنی خانقاہوں میں رہیں گے وہیں سے راج پاٹ کی ذمّہ داری سنبھالیں گے اور قوم کا پیسا بچے گا ساتھ ہی ساتھ کئی فکر مند اس فکر سے نجات پائیں گے کہ کہاں کتنا خرچ ہو رہا ہے. آج جو وی آئ پی آمدورفت پر حفاظت اور دیگر اقدامات کے جاتے ہیں ان کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ جملہ صاحبان اقدار ٹیلی پیتھی سے کام لے کر بیٹھے بیٹھے دنیا گھومیں گے، چلیں جی بڑے بڑے ٹریفک جیم سے عوام کی جان چھوٹے گی. اور تو اور کوئی میمو سکینڈل بھی نہیں بن سکے گا کیونکہ یہ خطرہ ہی نہیں رہے گا کہ کوئی خود غرض دھوکے باز حالات سے فایدہ اٹھائے، جو صاحب چاہیں گے امریکی صدر کی بارگاہ میں بیٹھے بیٹھے جا پنہچیں گے اور اپنی غرض کو عرض کر کے واپس آ جائیں گے، بلیک بیری سے ڈیٹا نکالنے کی کوشش فضول ثابت ہوگی. عامل اور سنیاسی جیسے ہمارے محبوب بنگالی باوا مشیروں کا درجہ پائیں گے. اگر کوئی افسر باوردی یا بغیر وردی حکومت کو الٹنے کی کوشش کرے گا تو خود سر کے بل لٹکا دیا جائے گا. ہاں اگر افسر صاحب خود روحانیات کے ماہر نکلے تو پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا، ہو سکتا ہے کمیشن کے کورس میں روحانیت کا اضافہ کر دیا جائے
.
غرض یہ کہ ہماری سمجھ میں تو روحانی جمہوریت نہیں آتی جس طرح ڈاکٹر بلا کی سمجھ میں سیدھی سادھی جمہوریت نہیں آتی. ہمارے ہاں جس قدر تیزی سے اقدار اور حالات زوال پذیر ہیں اسی تیزی سے نت نئی اصطلاحات کا استعمال ہو رہا ہے، یعنی در حقیقت کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے. جیسا کہ لفظ شفاف، بھائی جہاں شفاف استعمال نہیں ہوتا وہاں بھی انتخابات شفاف ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں تو آپ اپنے طریقے صحیح کریں بجائے اس کے کہ نئے نئے لفظوں کے پھیر میں پڑ کر لوگوں کو الو بناتے رہیں. جس جمہوریت سے ڈاکٹر بلا جیسے لوگ نالاں ہیں وہ تو کبھی اس ملک کے لوگوں نے دیکھی ہی نہیں، جمہوریت عوام کی حاکمیت ہے، ہمارے ہاں کب عوام کو یہ درجہ ملا جو آپ جمہوریت سے اس قدر ناراض ہیں ؟ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت ہے آپ اس سے جس قدر متنفر ہوں حقیقت یہ ہے کہ وہاں عوام کو جو تحفظ حاصل ہے اس کا خواب بھی ہماری آنکھوں سے نہیں گزر سکتا. بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ صرف ایک جہت میں سوچنے پر مجبور کیے جاتے ہیں حالانکہ دنیا میں ترقی یا تبدیلی یک جہتی نہیں ہو سکتی، اور جمہوریت محض ایک جہت ہے، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی، جاگیر داری کا خاتمہ، ملایت اور پیری فقیری سے نجات، برادری اور ذات پات پر مبنی تعصبات کا خاتمہ، قبائلی نظام کی بالا دستی کا خاتمہ، دیہی پاکستان کی ترقی، صنعتوں میں اضافہ، زرعی ترقی، انسانی حقوق کا تحفظ ، عورتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی بحالی، اور بہت کچھ ہے جو کہ ترقی کے لئے ضروری ہے، آدھے سے زیادہ پاکستان تو ڈنڈے کے زور پر چل رہا ہے اور ہم جمہوریت سے نالاں ہیں، ابھی سورج طلوع نہیں ہوا اور آپ سویرے سے خوف زدہ ہیں، کیا منطق ہے
جو چاہے آپ کا ذہن کرشمہ ساز کرے
بات یہ ہے کہ آج کی دنیا جتنی ترّقی یافتہ ہے اور دنیا کی آبادی کی اکثریت کو جو سہولتیں آج حاصل ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھیں، عام آدمی کی اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا ہے کمی نہیں، تعلیم پھیل رہی ہے ختم نہیں ہو رہی، سہولتیں بڑھ رہی ہیں، آمدورفت کے ذریعے بہتر ہو رہے ہیں، صحت سے متعلق سہولتیں بھی بہتر ہو رہی ہیں، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سب کچھ اچھا ہے، جی نہیں انسانی معاشرے کی پیچیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے، آبادی پھیلی ہے تو ذرایع کے حصول میں مشکلات بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کشمکش بھی، انسان انسان کے استحصال سے آج بھی فایدہ اٹھا رہا ہے، یہ سب انسانی جدوجہد کا حصّہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم جو حاصل کر چکے ہیں اس سے دست بردار ہو جائیں، ہم کو آگے بڑھنا ہے واپس نہیں جانا. بے معنی خیالات اور نظریات در اصل ان طبقات کا ہتھیار ہیں جو ترقی کی جنگ میں اپنی قوّت اور اقتدار سے محروم ہو رہے ہیں اسی لئے سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ منتشر رہیں، عام آدمی ایک دوسرے کے پیچھے لگا رہے اور ترقی پسند خیال اس کی سوچ کا حصّہ نہ بن سکیں. یہ لوگ تقلید پر زور دیتے ہیں اور تنقید سے خوف کھاتے ہیں، اس لئے روحانیت اور تقدس کا جامہ ان کو خوب زیب دیتا ہے.
It should be noted that democracy is not a panacea and can often be manipulated, co-opted and subverted by moneyed and privileged classes. If in doubt, just look at the Republican presidential candidates in the US or the Nobel laureate “Peace” President for that matter. One would expect better from a venerable democracy like America.
Touch of the hidden hands is way less subtle in our fledgling democracy.
As the author has pointed out, we have much ground work to do towards the true spirit of democracy. Without the healthy institutes, civic attitudes and mutual respect that inform and feed democracy we will keep experiencing its current, crippled version.