Musharraf’s friends good, elected representatives bad – by Rauf Klasra
میمو کیس: مشرف کے ساتھی سچے، عوامی نمائندے جھوٹے
(تبصرہ : رؤف کلاسرا )حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا میمو سکینڈل کیس پر سپریم کورٹ کی طرف سے آنے والے متوقع فیصلے پر یہ کہنا کہ یہ پاکستانی عدلیہ کا سیاہ ترین دن ہے اور انہوں نے جس عدلیہ کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کی تھی یہ وہ عدلیہ تو نہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ آخر کار پانچ سال بعد ہی سہی فوج اور عدالت میں ایک دفعہ پھر صلح ہو گئی ہے اور اب پاکستانی سیاستدانوں اور جمہوریت کی خیر نہیں ہے۔
اس نئے الائنس میں تڑکا میاں نواز شریف نے لگا دیا ہے جو اب کھل کر فوج کا کھیل کھیلنے کے لیے تیار ہیں اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی رات کے اندھیرے میں کی گئی چھ ملاقاتوں کا آخرکار نتیجہ نکلنا شروع ہو گیا ہے۔
تو کیا اس فیصلے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ چاہے پاکستان آرمی نے ججوں کو گرفتار کر کے انہیں ان کے گھروں میں نظر بند رکھا ہو، وہ پھر بھی عدالت کی آنکھ میں ان سیاستدانوں کے مقابلے میں بہت اچھے ہیں، جنہوں نے ان ججوں کو نہ صرف رہا کیا تھا بلکہ انہیں پورے اعزارت اور پورے ایک سال کی تنخواہ کے بقیہ جات ادا کرنے کے بعد بحال بھی کیا تھا۔
تو کیا جنرل مشرف نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی کے ساتھ مل کر چیف جسٹں اور ان کے ساتھیوں کو درست معطل کر کے گھروں میں نظر بند کردیا تھا اور وزیراعظم گیلانی کا وزیراعظم بنتے ہی پہلا حکم دینا کہ ججوں کو فورا رہا کیاجائے، ایک جذباتی اور غلط قدم تھا؟
آج تاریخ نے ثابت کر دیا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین درست کہتے تھے کہ ہمیں عدالت اور فوج کے معاملات میں پارٹٰی نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہ ایک دوسرے کے پرانے ساتھی ہیں اور اپنے گلے شکوے دور کرکے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں گے۔ اس وقت سب نے چوہدری شجاعت کا مذاق اڑایا تھا کہ بھلا جج اور فوجی ایک دفعہ پھر کیسے گلے لگ سکتے ہیں۔ تاہم تیس دسمبر کو سب نے دیکھا کہ اسی عدالت جسے فوجیوں نے قید کیا تھا یہ فیصلہ دیا کہ پاکستان آرمی کے جنرل اشفاق پرویز کیانی سچے اور وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ جھوٹے ہیں۔
اگر آپ بھول گئے ہوں تو آپ کو یاد کرایا جائے کہ جنرل کیانی ان دنوں پاکستان آرمی کے چیف تھے جب پوری عدلیہ کو جنرل مشرف نے قید کر رکھا تھا۔ آج وہی جنرل کیانی سچے اور جنہوں نے انہیں جنرل مشرف کی جیل سے آزادی دلوائی تھی وہ جھوٹے ہو گئے۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا کیونکہ اس کو لکھنے والا ایک امریکی شہری تھا، جس نے خود وہ میمولکھا، جمیز جونز کو ڈھونڈا اور اسے مائیک مولن تک پہنچایا۔ اس میمو پر پاکستان کے صدر سے لے کر وزیراعظم اور حسین حقانی کسی کے دستخط نہیں تھے۔ حکومت پرامید تھی کہ نواز شریف جو اس مقدمے میں پیٹشنر تھے کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا جس سے ثابت ہوتا کہ وہ میمو حکومت پاکستان کی طرف سے لکھا گیا تھا۔ یوں یہ مقدمہ کافی کمزور تھا۔ کیوں کہ حقانی اور منصوراعجاز کے پبغامات سے کچھ ثابت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بات گھوم پھر کر وہیں آجاتی تھی کہ وہ میمو لکھنے والا حقانی نہیں بلکہ منصور اعجاز تھا۔ اس لیے جنرل کیانی کو یہ بیان دینا پڑا کہ ان کے خیال میں وہ میمو حقیت تھا اور اس کی تحقیات ہونی چاہیے۔
عدالت نے آرمی چیف کی بات مان لی اور سیاسی اور سولہ کڑور لوگوں کے نمانئدہ حکومت کو اس لیے جھوٹا قرار دیا گیا جہاں میمو سکینڈل پر ایک کمیٹی پہلے ہی تحقیات کر رہی تھی، کیونکہ عدالت سمجھتی تھی کہ آرمی چیف کے بیان کی اہمیت زیادہ تھی اور وزیراعظم کی کوئی وقعت نہیں۔
بڑے مزے کی بات ہے کہ اسی وزیراعظم گیلانی سے سپریم کورٹ کے سترہ ججوں نے دو دو پلاٹ لیے۔ اس کے علاوہ اپنی مرضی کے ججوں کو تعنیات کرایا گیا۔ جب چیف جسٹں نے آرمی چیف کی عدالت میں تعریف کی تھی تو سب سمجھ گئے تھے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔ ماضی لوٹ آیا تھا۔ ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے خلاف آرمی، نواز شریف اور عدالت کا جوڑ۔
ماضی میں یہ الائنس کامیابی سے چلتا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی اس لیے بھی اقتدار میں چار سال گزار گئی کیونکہ اب تک نواز شریف اور عدالت اس سازش میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جونہی وہ دونوں تیار ہوئے ساتھ ہی وہ جنرل اچھے ہوئے جن کے دور میں پوری عدلیہ معطل رہی اور گھروں میں نظربند رہی۔ یہی جنرل کیانی اس وقت چیف آف آرمی سٹاف ہوتے ہوئے بھی ان ججوں کو رہا نہ کر سکے تھے کیونکہ ابھی جنرل مشرف ایوان صدر میں برابرجمان تھے۔ پھر یہ کریڈٹ گیلانی کو جاتا ہے کہ جنرل مشرف کے ایوان صدر میں ہوتے ہوئے بھی وزیراعظم کی حیثت سے پہلا حکم دیا کہ ججوں کو رہا کیا جائے۔
آج وہ جنرل کیانی عدالت کو وہ سپاہ سالار نظر آتے ہیں جو اپنا خون قوم کے لیے بہاتے ہیں اور وہی گیلانی ان کو ظالم لگتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر اس لیے مایوس ہوئی ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ جس پارلیمنٹ نے ان ججوں کو فوجیوں کے ہاتھوں رہائی دلوائی تھی آج اس کے وقار کا خیال رکھا جائے گا اور کہا جائے گا کہ عدالت پارلیمنٹ کی کمیٹی کی میمو سکینڈل پر ہونے والی تحقیات کا انتظار کرے گی۔ تاہم عدالت نے ثابت کیا کہ وہ پارلیمنٹ سے بھی ایک بڑا ادارہ ہے اور سولا کڑور لوگوں کی مرضی سے بننے والی پارلیمنٹ کی کوئی حیثت نہیں ہے۔ اس لیے عاصمہ کو کہنا پڑا کہ ان کی عدالت کو بحال کرانے کی جدوجہد ضائع گئی تھی کیونکہ جج صاحبان تو ایک دفعہ اسی فوج کا کھیل کھیل رہے تھے جس نے ان ججوں کو معطل کرکے انہیں نظر بند کیا تھا۔
عاصمہ کا یہ بیان بہت اہم ہے کہ نواز شریف ایک دن پچھتائیں گے کہ انہوں نے کیوں سپریم کورٹ میں ایک سیاسی حکومت کے خلاف ایک مقدمہ کرکے فوج کے ہاتھ مضبوط کیے تھے اور یہ وہی فوج تھی جس کے بارے میں وہ آج تک روتے ہیں کہ انہیں بارہ اکتوبر کے بعد ہتھکڑیاں لگا کر وزیراعظم ہاؤس سے گھیسٹ کر نکال کر لے گئی تھی۔ آج وہ اسی فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر پارلیمنٹ اور سیاست کی بے توقیری میں برابر کے شریک ہو رہے تھے۔
شاید عاصمہ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ جب نواز شریف 1997 میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں بنا رہے تھے تو سب نے منع کیا تھا کہ آپ متوازن عدالتی نظام مت قائم کریں۔ اس پر ان کا اس وقت کے چیف جسٹں سجاد علی شاہ سے جھگڑا شروع ہوا اور عدالت پر حملہ کرایا۔
آخر دو ہزار میں جنرل مشرف نے نواز شریف کی بنائی ہوئی اسی خصوصی عدالت سے انہیں طیارہ ہائی جیکنگ کے الزام میں عمرقید کی سزا دلوائی۔
تو کیا ایک دفعہ پھر عاصمہ نے اس طرح کی پیش گوئی کر دی ہے کہ دوبارہ نواز کا انجام وہی ہوگا کیونکہ وہ ایک دفعہ پھر جرنیلوں کے ساتھ مل کر سیاست اور جمہوریت کے خلاف ایک نیا کھیل کھیل رہے تھے جس میں ان کو ہی نقصان ہو گا۔ وہ آج خود ایک وزیراعظم اور پارلیمنٹ پر ایک آرمی چیف کو ترجٰیح دے رہے ہیں، تو پھر کل کلاں کو وہ وزیراعظم بن کر کیسے آرمی چیف سے آنکھ اٹھا کر بات کر سکیں گے اور جو کچھ ان کے ساتھ کارگل پر کیا گیا وہ کیسے بھول گئے ہیں؟
تیس دسمبر کے فیصلے سے وہ سب لوگ غلط ثابت ہوئے ہیں جو سمجھتے تھے کہ جنرل مشرف کے نو مارچ دو ہزار سات کے چیف جسٹں کو معطل کرنے کے بعد فوج اور عدلیہ کے تاریخی اتحاد میں دارڑ پڑگئی تھی اور اب عدالتیں عوام اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہوں گی۔ پانچ سال بعد وہ دوستی کے نئے بندھن میں جڑ گئے ہیں اس لیے آج جنرل کیانی اچھے اور پارلیمنٹ سے منتخب کردہ حکومت بری ہوگئی ہے جس کے ارکارن اس وقت ڈیسک پیٹ پیٹ کر بے ہوش ہو رہے تھے جب وزیراعظم گیلانی ججوں کو رہا کرنے کا حکم دے رہے تھے۔
عدالت میں ایک دفعہ پھر فوج سچی اور سیاستدان اور سیاسی حکومتیں جھوٹی ثابت ہوئی ہیں۔
آج سے چار سال قبل چوہدری شجاعت درست کہتے تھے کہ فوج اور عدالت ایک ساتھ ہیں۔ اگر وقتی طور پر ان میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے تو ہمیں ان کے باہمی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے ۔ کون جانتا ہے کہ وہ دوبارہ گلے مل جائیں۔
تیس دسمبر جسے عاصمہ جہانگیر نے عدلیہ کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیا، واقعی دو چیفیس دوبارہ گلے لگ گئے ! اس پر مجھے ایک سرائیکی کا محاورہ یاد آرہا ہے کہ جنج پرائی تے احمق نچے۔ اس پورے کھیل میں احمق سیاستدان ہی ثابت ہوئے ہیں !
Source: Top Story
AHSAN FERAMOSH JUDGES
hi Zulam Hogya Hi Zulam Hogya
Jamhoriat chilate Pher Rahe Ha MAgar Media, Militry,Judiciary is ko KamNahe Karnay De Rahae dunya Ke Tarekh In waqeyat Ko Dekh Rahe Ha Aur Likh Rahe ha , Salute 2 Democrats !