Imam-e-Kaaba ka khutba-e-hajj – by Aamir Hussaini


Aamir Hussaini offers a critical analysis of the Hajj sermon on 5 November 2011 by Abd al-‘Aziz Aal Ash-Shaikh, the Grand Mufti of Saudi Arabia. Mr. Hussaini highlights the lopsided criticism of the media, silence on discrimination and persecution of women and ethnic and religious minorities in Muslim majority countries, and silence on an ongoing cooperation between capitalist countries and their puppets in Arab countries as key features of the Hajj sermon.

امام کعبہ کا خطبہ حج

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جب مسلم دنیا میں خلافت جیسا سیاسی نظام قائم تھا تو سنی اسلام کے ماننے والوں کو حج کا خطبہ بھی خلیفۂ وقت کا ہی دیا کرتا تھا۔ خطبہ حج کی روایت میں صرف یہ تبدیلی ہوئی ہے کہ یہ خطبہ اب امام کعبہ دیتے ہیں۔ شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو شاید اس خطبہ کی اس قدر اہمیت نہ ہو لیکن سنی مسلمان اس خطبہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کا اردو پرنٹ میڈیا بھی اس خطبہ کو خاص طور پر ضیاالحق کے زمانے سے بہت اہمیت دیتا آرہا ہے۔ اور اس خطبہ کو سب سے پہلے پی ٹی وی سے براہ راست نشر کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ آج کل نجی ٹی وی چینل بھی اسے نشر کرتے ہیں۔ امام کعبہ نے اس مرتبہ جو خطبہ دیا۔ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے پس پردہ محرکات کو آشکار کیا جانا بہت ضروری ہے۔

امام کعبہ نے اپنے خطاب میں میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے میڈیا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ باتیں جزوی طور پر تو ٹھیک ہوں گی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کہیں مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں کے مسلم ملکوں میں حکومتوں کی طرف سے مظالم اور شخصی آزادیوں کو ختم کرنے جیسی کوششوں، مذہبی اقلیتوں اور کئی نسلی گروپوں پر سیاسی اور معاشی جبر کی داستانوں کو لوگوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے میڈیا پر کلی یا جزوی کنٹرول کا ذکر نہیں کیا۔ انھوں نے میڈیا کے اس کردار کو بھی نہیں سراہا جو اس نے مشرق وسطیٰ میں نوجوانوں کی طرف سے عشروں سے قائم جابر حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کر کے کیا۔ اس خطبہ میں اغیار کی سازشوں پر تو بہت زور و شور سے بات کی گئی لیکن مسلم ملکوں کی اپنی حکمران اشرافیہ کے اپنے ہی عوام کے ساتھ سلوک پر خاموشی اختیار کی گئی۔

امام کعبہ نے مسلم ممالک کی عورتوں کی تحریک پر بھی منفی تبصرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم عورتیں جس قسم کی آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں، وہ مغرب کا دھوکہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ امام کعبہ یہ بتا دیتے کہ جب سعودی عرب کی خواتین اپنے لئے ڈرائیونگ کرنے کا حق مانگتی ہیں، ووٹ کا حق طلب کرتی ہیں، نوکری کے مساوی مواقع مانگتی ہیں، صنفی امتیاز کا خاتمہ چاہتی ہیں اور سیاست کرنے کا حق مانگتی ہیں تو ان مطالبات میں کون سی خرابی ہے۔ اور یہ کون سی غرب زدگی ہے جس کا تذکرہ امام کعبہ کو اپنے خطبہ میں کرنا پڑ گیا ہے۔

انھوں نے اپنے خطبہ میں مڈل ایسٹ میں خاص طور پر خلیجی ریاستوں میں عشروں سے قائم بادشاہتوں اور آمریتوں پر ایک لفظ بھی کہنا گوارانہیں کیا۔ انھوں نے کردوں، شیعہ، بہائی اور آرمنیوں سمیت مذہبی اور نسلی گروہوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ بحرین کے حکمران اپنے عوام کو جس طرح سے دبا رہے ہیں اور وہاں پر جس طرح سعودی فوج داخل ہوئی ہے۔ اس پر بھی ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ ان کا یہ خطبہ سرکاری خطبہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں ایسا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ امام کعبہ کی مسند پر بیٹھا شخص مسلم عوام کے مسائل اور عالمی سرمایہ داری سے جنم لینے والے جیو پولیٹکل حالات اور معاشی مسابقت کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے واقفیت رکھتا ہے۔

میرا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ تو امام کعبہ عالمی سرمائے کی سامراجیت کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالیں گے اور سعودی حکمرانوں کی امریکی سامراجیت کی اطاعت میں کیے گئے اقدامات کی مذمت کریں گے لیکن اس طرح کا کوئی بیان امام کعبہ نے نہیں دیا۔ وہ حسب سابق طبقاتی خلیج کو اسلام کے خلاف قرار دیتے رہے لیکن اس خلیج کا سبب بننے والے نظام کے بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہنا پسند نہ کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتانا پسند نہ کیا کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں تیل کی کمپنیوں کے عالمی سرمایہ داری کے ساتھ کیا رشتے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، سمیت خلیجی تعاون کونسل میں شامل ملکوں کی حکمران کلاس کا عالمی سرمایہ میں کیا حصہ بنتا ہے۔ اور یہ کس طرح مڈل ایسٹ میں میں سامراجی سازشوں کو پروان چڑھانے میں معاون بنے ہوئے ہیں۔ پورے عالم اسلام میں سنی اور شیعہ کے درمیان کشیدگی کو پروان چڑھانے میں کس ملک کا سرمایہ کام آ رہا ہے۔ لبنان، شام، فلسطین میں امریکی سامراجی ایجنڈے کو کون سے ممالک اور کون سے مقامی کردار آگے لے جا رہے ہیں۔ لیکن اس طرح کی کوئی بات اس خطبے میں نہیں تھی۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جس طرح خلیج کی ریاستوں میں جمعہ کے خطبے ریاستی سنسر شپ سے گزرتے ہیں اسی طرح یہ خطبہ بھی سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں تیار ہوا ہو گا کیونکہ اس میں سعودی حکمرانوں کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔

اس خطبے میں کہیں بھی لوگوں کے جمہوری اور انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی۔ کسی بھی جگہ عورتوں، مذہبی اور نسلی اقلیتوںکے حقوق پر زور نہیں دیا گیا۔ مسلم ریاستوں میں فرسودہ جاگیرداری، قبائلی جاہلانہ رسوم و رواج کی مذمت نہیں کی گئی۔ بلکہ عورتوں کی آزادی اور سیاسی آزادی کی تحریکوں کی طرف حقارت اور مذمت کا رویہ اختیار کیا گیا۔ مسلم دنیا میں مذہبی بنیادوں پر نفرت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے پر بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔

مسلم ملکوں کی مذہبی اشرافیہ کی سوچ کی ٹھیک ٹھیک عکاسی اس خطبہ کے مشمولات سے ہوتی ہے۔ مذہبی اشرافیہ مسلم ملکوں کی سرمایہ دار اور جاگیردار پرتوں کے مفادات کی پوری پوری حفاظت کر رہی ہے۔ اس کو اپنے ملکوں میں محنت کشوں، کسانوں اور غریبوں کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہ ہی انہیں ان ملکوں میں عورتوں، بچوں اور مظلوم قومیتوں سے کوئی سروکار ہے۔ وہ ان پرتوں کی طرف سے اٹھنے والی تحریکوں کو بھی اسلام دشمن قرار دینے سے گریز نہیں کرتی۔ ان کی نظر میں مسلم ملکوں کے سرمایہ داروں سامراجی سرمائے کے ساتھ کا اتحاد خلاف اسلام نہیں ہے۔ یہ اشرافیہ خرد افروزی کی دشمن ہے اور مسلم سماجوں کو پسماندگی اور رجعت پسندی کی دلدل سے باہر نہیں آنے دینا چاہتی۔

Source: Mashriq

Khutba-e-Hajj 5 November 2011
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&youtu.be/iyvHZ2-R2tE

Comments

comments

Latest Comments
  1. Mussalman
    -
  2. Yasin
    -
  3. Roshan
    -
  4. AHMED BALOCH
    -
  5. Asif Malik
    -