maan tujhe salaam: Four excellent articles on Begum Nusrat Bhutto


Editor’s note: We are pleased to post four excellent articles about Begum Nusrat Bhutto, her relentless struggle against tyranny and oppression, and sacrifices for the cause of democracy in Pakistan. While Begum Bhutto was mentally and physically tortured by Pakistan’s military establishment and its right wing (e.g., Mujibur Rehman Shami in 1977) and fake liberal affiliates (e.g. Najam Sethi in 1996), it were the ordinary people of Pakistan who never left Begum Bhutto and her party (PPP) alone in their struggle for democracy and human rights. 

Nusrat Bhutto, Political Force in Pakistan, Dies at 82 -by Paul ViltelIo

Nusrat Bhutto, a near-mythic figure in Pakistan’s modern history, whose husband, Zulfikar Ali Bhutto, was executed in 1979 after being deposed as prime minister in a military coup, and whose daughter, the former prime minister Benazir Bhutto, was killed by a suicide bomber while campaigning for office in 2007, died Sunday in Dubai. She was 82.

Mrs. Bhutto, long a political force in her country, had cancer and Alzheimer’s disease, family members told The Associated Press. A throng of mourners at her burial service in southern Pakistan on Tuesday was led by her son-in-law, Asif Ali Zardari, Pakistan’s president.

Mrs. Bhutto was the daughter of an Iranian soap manufacturer who fled Mumbai and resettled his family in Karachi after the partition of India and Pakistan in 1947 into majority Hindu and Muslim countries, respectively.

When she became the second wife of Mr. Bhutto in 1951, she joined one of Pakistan’s wealthiest and most influential families.

Her American-educated husband, a scion of vast land holdings, served in the cabinet of one of Pakistan’s early military-run governments and founded the Pakistan People’s Party, a pro-democracy movement he rode to the presidency in 1971 and to election as prime minister from 1973 to 1977. She appeared at rallies in the party’s early days.

Her major role in Pakistani politics began in 1977, when her husband was deposed in a coup led by Gen. Mohammad Zia ul-Haq. Known until then mainly for her beauty and fashion sense, Mrs. Bhutto assumed control of the party her husband had founded and became a de facto leader of the democratic opposition.

She was elected to Parliament in 1977. In the years leading to and following her husband’s hanging in 1979, she became a tragic figure and a symbol of resistance to the military dictatorship. She and her daughter Benazir were frequently under house arrest for their opposition.

“She was a figure with immense popular appeal in the country, both as the mother in a family of great power and as someone who suffered greatly,” said Stanley A. Wolpert, a historian.

Mrs. Bhutto’s son Shahnawaz Bhutto died at 27 under unexplained circumstances in France in 1985. The state-controlled Pakistani news media declared it a drug-abuse death, but Mrs. Bhutto said she believed he was poisoned because of his involvement in groups seeking to overthrow the military government.

In 1996 another son, Murtaza Bhutto, a member of Parliament, was shot to death by the Pakistani police outside his home in Karachi. The circumstances, again, were murky, though in this case suspicions pointed to a feud within the Bhutto family.

With his mother’s backing, Murtaza Bhutto was vying for leadership of the People’s Party against his sister Benazir, whom he described as having run a corrupt government as prime minister from 1988 to 1990 and from 1993 to 1996. In 2010 Fatima Bhutto, Murtaza’s daughter, wrote a memoir, “Songs of Blood and Sword,” claiming that Benazir Bhutto and her husband, Mr. Zardari, were involved in her father’s death.

After the death of her second son, Mrs. Bhutto largely retreated from public view. In 1998 she moved to Dubai, where she lived with family members, including Benazir, whose return to Pakistan in 2007 after the lifting of a government-imposed exile led to her death at a campaign rally.

Mrs. Bhutto was born on March 23, 1929. She is survived by a daughter, Sanam, of London, and eight grandchildren.

Source: The New York Times


Originally Published in Daily Express

ماں تجھے سلام

سویرے سویرے…نذیر ناجی

جنوری 1966ء میں معاہدہ تاشقند پر ایوب خان سے بھٹو صاحب کا اختلاف واضح ہو گیا تھا۔ پاکستان واپسی پر وہ خاموشی سے کراچی میں گھر آ بیٹھے تھے۔ وزارت چھوڑنے کا ارادہ کر چکے تھے- حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا تھا ۔ میں ان دنوں کراچی سے شروع ہونے والے خواتین کے ایک نئے ہفت روزے میں کام کر رہا تھا۔ دفتر کی طرف سے ڈیوٹی لگی کہ میں بیگم نصرت بھٹو سے انٹرویو کا انتظام کروں۔اس وقت تک بیگم صاحبہ انفرادی حیثیت میں میڈیا کے سامنے نہیں آتی تھیں اور ایک ایسے وقت میں جب وزیرخارجہ اور صدر کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو چکے تھے اور بھٹو جیسے اہم وزیرخارجہ کے مستقبل کے بارے میں جاننے کے لئے اندرون اور بیرون ملک شدید تجسس پایا جاتا تھا۔ اس وقت بھٹو صاحب خود بھی میڈیا سے گریز کر رہے تھے۔ ایسے وقت میں ان کی بیگم سے انٹرویو لینا کافی مشکل تھا۔< وہ وزیرخارجہ کی بیگم کی حیثیت سے سیاسی سوجھ بوجھ تو رکھتی تھیں لیکن ایسے نازک موقع پر ان کا پریس کو انٹرویو دینا مصلحت کے تحت مناسب نہ تھا۔ وہ کوئی بھی ایسی سیاسی بات کر سکتی تھیں جس سے بھٹو صاحب کے لئے مشکلات پیدا ہوتیں۔ جب بھٹو صاحب سے اس انٹرویو کی درخواست کی تو پہلے وہ راضی نہ ہوئے۔ اصرار کیا‘ تو اس شرط پر مانے کہ ان سے کوئی سیاسی سوال نہ کیا جائے‘ صرف سماجی اور غیر سیاسی معاملات پر بات ہو۔ انٹرویو کے دن اس جریدے کی ایڈیٹر صاحبہ بھی ساتھ ہو گئیں۔ یہ انٹرویو بعد میں انہی کے نام سے
شائع ہوا۔

انٹرویو کے دوران جب میں نے سوال کیا کہ ”آپ اور بھٹو صاحب کے درمیان کبھی جھگڑا بھی ہوا؟“ بیگم صاحبہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ”آپ کی شادی ہو گئی؟“ میں نے نفی میں جواب دیا‘ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ”جب آپ کی شادی ہو جائے گی تو آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔“ یہ میری بیگم صاحبہ سے پہلی ملاقات تھی۔ کچھ ہی عرصے بعد بھٹو صاحب نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ٹرین کے ذریعے کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ایک پرجوش اور تاریخی اجتماع نے ان کا ایسا زبردست استقبال کیا کہ ایوان اقتدار میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ بھٹو صاحب سے کہا گیا کہ وہ سیاست سے الگ رہیں۔

وہ کوئی جواب دیئے بغیر بیرون ملک چلے گئے ۔واپس آئے تو ہر مشورے اور دباؤ کو نظرانداز کر کے سیاست میں کود پڑے اور اس تاریخی جدوجہد کا آغاز ہو گیا‘ جس سے بھٹو صاحب تو 1977ء میں نجات پا گئے لیکن بیگم نصرت بھٹو جن کا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا اور وقت نے انہیں اس جدوجہد کی قیادت پر مجبور کر دیا‘ وہ جدوجہد جسے بھٹو صاحب نے شروع کیا تھا۔ بیگم صاحبہ بطور خاتون اول بھی سیاست سے دور ہی رہا کرتی تھیں۔ ان کی زیادہ تر توجہ انسانی خدمت کے کاموں پر مرکوز رہتی۔

پیپلزپارٹی کے شعبہ خواتین کی چیئرپرسن وہ ضرور تھیں۔ لیکن یہ شعبہ بھی زیادہ تر سماجی اور فلاحی سرگرمیوں تک محدود رہتا تھا۔ سیاست کے لئے سیکرٹری رکھ لئے جاتے تھے۔ پیپلزپارٹی کی وہ خواتین کارکن جو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتی تھیں‘ ان کا واسطہ براہ راست بھٹو صاحب سے ہی رہا کرتا تھا۔آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ایک عظیم سیاسی جدوجہد کی قیادت کرنے والی یہ خاتون بنیادی طور پر ایک غیرسیاسی شخصیت تھیں‘ جنہیں محض اپنے شوہر کی وجہ سے اس زندگی میں داخل ہونا پڑا۔ مگر وزیرخارجہ اور بعد میں صدر اور وزیراعظم کی بیگم ہونے کے باوجود ‘ وہ سیاست میں آؤٹ سائیڈر ہی رہیں۔ ان کی زیادہ توجہ اپنے بچوں اور خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنے پر صرف ہوتی تھی۔

آج انہیں یاد کرتے ہوئے‘ یادوں کا ایک ہجوم امڈا چلا آ رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسے وقت میں صرف ذاتی تاثرات ہی بیان کئے جا سکتے ہیں۔ ایک دلچسپ واقعہ مجھے یاد آ رہا ہے۔ جب شناختی کارڈ کی سکیم شروع کی گئی‘ تو میں نے بھی اپنے خاندان کے شناختی کارڈز بنوانے کے لئے‘ فارم بھرے۔ پھر نہ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ ان فارموں پر تصدیق کنندہ کی حیثیت سے بھٹو صاحب کے دستخط لئے جائیں۔ اس کام کے لئے راولپنڈی گیا۔ ان دنوں سربراہ حکومت اور وزرا کی بڑی تعداد راولپنڈی میں رہا کرتی تھی۔ دستخط لینے کے لئے وزیراعظم ہاؤس پہنچا تو بھٹو صاحب ایک میٹنگ میں شریک تھے۔ میٹنگ طول پکڑتی گئی۔ میں نے انتظار سے بچنے کے لئے سوچا کہ ”میٹنگ کا پتہ نہیں کب تک چلے؟ کیوں نہ بیگم صاحبہ سے دستخط کرا لئے جائیں؟ بات تو ایک ہی ہے۔“ وزیراعظم ہاؤس میں بیگم صاحبہ کا اپنا دفتر تھا۔ وہاں گیا۔ بیگم صاحبہ موجود تھیں۔ جب میں نے ان سے مدعا بیان کیا‘ تو ہنس پڑیں اور فارم لینے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔ ان کی ایک سیکرٹری ہوا کرتی تھیں۔ اگر حافظہ ساتھ دے رہا ہے‘ تو شاید ان کا نام شمع تھا۔ انہوں نے کہا”بیگم صاحبہ کی تو کوئی آفیشل حیثیت نہیں۔ یہ دستخط صرف کوئی گزیٹڈ اتھارٹی ہی کر سکتی ہے۔“ بات ان کی درست تھی۔ لیکن میں نے کہا کہ ”میں اپنی خوشی کے لئے بیگم صاحبہ سے دستخط کروانے آیا ہوں۔ اگر میرے یہ فارم مسترد ہو گئے‘ تو یادگار کے طور پہ گھر رکھ لوں گا اور اگر جمع ہو گئے‘ تو ہمارے لئے ایک یادگار رہ جائے گی کہ خاندان کے شناختی کارڈ کے فارم پر بیگم صاحبہ نے دستخط کئے تھے۔“ بیگم صاحبہ جو فارم اپنے سامنے رکھ چکی تھیں‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے ان پرتصدیقی دستخط کر دیئے۔ مہر بھی لگا دی گئی اور جب میں نے لاہور آ کر فارم جمع کرائے تو وہی اعتراض ہو گیا‘ جو بیگم صاحبہ کی سیکرٹری نے کیا تھا کہ ”بیگم صاحبہ کی تو کوئی سرکاری حیثیت نہیں۔ ہم یہ فارم کیسے لے سکتے ہیں؟“ بات ان کی بھی درست تھی اور جب میں نے اصرار کیا‘ تو متعلقہ افسر نے بھی فارم رکھ لیا اور پھر انہی فارموں پر ہمارے شناختی کارڈ بن گئے۔ میرا خیال ہے یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ بیشک بہت معمولی ہے مگر میرے لئے معمولی نہیں۔

بھٹو صاحب کے پرستاروں کو شاید یہ بات اچھی نہ لگے مگر حقیقت پر مبنی ہے اور وہ یہ کہ بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی جدوجہد میں وہ مشکلیں اور مصیبتیں نہیں دیکھیں‘ جو بیگم نصرت بھٹو کو دیکھنا پڑیں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے بھٹو صاحب نے بھرپور سیاسی زندگی گزاری۔ جلسے‘ جلوس‘ مظاہرے‘ بھوک ہڑتال‘ قید سب کچھ دیکھا۔ مگر یہ مختصر عرصے کے لئے تھا۔ حقیقی جدوجہد 1968ء میں شروع ہوئی اور 1970ء میں وہ الیکشن جیت گئے۔ اس کے بعد کا زمانہ اقتدار کا ہے۔ اقتدار سے علیحدہ ہوئے‘ تو انتہائی تکلیف دہ بلکہ اذیت ناک قید کاٹی‘ جس کا اختتام ان کی پھانسی پر ہوا۔ یقینا یہ بہت بڑا المیہ تھا۔ ان کی تکلیف کا مجموعی عرصہ پانچ چھ سال کا ہے۔ لیکن بیگم نصرت بھٹو جن کی زندگی میں کوئی دکھ نہیں آیا تھا‘ کوئی مشکل نہیں پڑی تھی‘ کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا‘ انہیں اچانک ایک آمر کے جبر کا مقابلہ کرنا پڑا۔ شوہر کا مقدمہ لڑنے کے لئے انہیں پہلے لاہور اور پھر کراچی میں تقریباً نظربندی کی حالت میں رہ کر مقدمے لڑنا پڑے۔ وہ جہاں بھی قیام کرتیں‘ پولیس چاروں طرف سے گھیر لیتی۔ عام لوگوں کو ملنے کی اجازت نہیں تھی اور جو کوئی ملنے میں کامیاب ہو جاتا‘ پولیس اس کے بھی پیچھے لگ جاتی۔ وہ پارٹی کے کارکنوں سے نہیں مل سکتی تھیں اور کوئی میٹنگ بلاتیں‘ توانہیں اس میں شرکت سے روک دیا جاتا۔ ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ میاں محمود علی قصوری کے گھر ایم آر ڈی کی میٹنگ رکھی گئی۔ پوری فین روڈ پر چاروں طرف سے ناکے لگا دیئے گئے۔ حکم تھا کہ بیگم صاحبہ کو میٹنگ میں شریک ہونے سے پہلے گرفتار کر لیا جائے۔ لیکن بیگم صاحبہ اچانک میٹنگ میں نمودار ہو گئیں۔ جن سرکاری کارندوں پر انہیں روکنے کی ذمہ داری تھی‘ وہ سب مصیبت میں آ گئے۔ ہوا یوں کہ بیگم صاحبہ کراچی سے ہی برقع پہن کر نگرانی کرنے والوں کو جل دے کر جہاز پر سوار ہو گئیں۔ اسی حالت میں ٹیکسی پکڑ کے فین روڈ آئیں اور گھر کے اندر چلی گئیں۔ کسی کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ بیگم نصرت بھٹو اس طرح بھی آ سکتی ہیں۔ قذافی سٹیڈیم کا واقعہ درحقیقت ایک کرکٹ میچ کے دوران ہوا۔ بیگم صاحبہ کو جلسے کرنے‘ جلوس نکالنے حتیٰ کہ میٹنگ کرنے کی اجازت بھی نہیں ملا کرتی تھی۔ ان دنوں لاہور میں کرکٹ کا ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا۔ بیگم صاحبہ‘ بینظیر کو ساتھ لے کر خاموشی سے چادر اوڑھے ہوئے سٹیڈیم کے اندر چلی گئیں۔ وہاں بیگم صاحبہ اور بینظیر شہید کو دیکھ کر تماشائیوں نے نعرے بازی شروع کر دی۔ میچ احتجاجی مظاہرے میں بدل گیا۔ جس پر پولیس بیگم صاحبہ پر ٹوٹ پڑی۔ ان پر بے رحمی سے لاٹھیاں برسائی گئیں۔ سرسے خون نکل کر چہرے پر بہنے لگا۔ حاضرین میں اشتعال پھیل گیا۔ پو لیس اور عام لوگوں میں تصادم ہوا۔ جو کارکن سٹیڈیم کے اندر موجود تھے‘ انہوں نے بیگم صاحبہ کو گھیرے میں لے لیا۔ باہر نکالا۔ خون سے لت پت چہرے والی بیگم بھٹو کی یہ تصویر آمریت کے خلاف جدوجہد کی ایک علامت بن گئی‘ جو آج بھی یادگار ہے۔ بیگم صاحبہ کی اذیتوں سے بھری زندگی کا مجموعی عرصہ 34 سال کے قریب ہے- اس دوران انہوں نے قید کاٹی‘ پولیس کی لاٹھیاں کھائیں‘ شوہر کے مقدمے لڑے‘ ان کی پھانسی کا صدمہ اٹھا‘ دو بیٹوں کے جنازے دیکھے اور بیٹی کی شہادت زندگی میں ہوئی‘ تب وہ زندہ لاش تھیں-

اگر بیگم صاحبہ اور بھٹو صاحب کی سیاسی جدوجہد کا موازنہ کیا جائے اور یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ بیگم بھٹو نے یہ سب کچھ اقتدار کے لئے نہیں‘ صرف اپنے خاندان اور پاکستان کے عوام جنہیں ‘وہ اپنا خاندان ہی سمجھا کرتی تھیں‘ ان کے لئے کیا۔ یہ ایک سیاستدان کی نہیں ‘ ایک وفاشعار بیوی اور ماں کی جدوجہد تھی۔ ماں تجھے سلام۔


Originally published in Daily Jang

بیگم نصرت بھٹو…… ایک تاریخ ساز کردار…عرض حال…نذیر لغاری

یہ 30/دسمبر 1973ء کا دن تھا۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے بالمقابل اسپورٹس کمپلیکس کے بڑے ہال میں پیپلز پارٹی کا تاریخی کنونشن منعقد ہو رہا تھا۔ ہال کے دروازے پر رحمت اللہ صدیقی پاس دیکھ کر شرکاء کو اندر جانے دے رہے تھے۔ ہمارے پاس ہال میں جانے کا پاس نہیں تھا۔

یوں بھی جن صحافیوں کے ساتھ بیٹھ کر ہم خود کو صحافی سمجھنے لگ گئے تھے، وہ سب بھی بار ہی کھڑے تھے۔ ہمارے سامنے ہمارے دوست ایک ایک کر کے نیشنل اسٹیڈیم کے ہال میں داخل ہوتے جا رہے تھے۔ عبدالسلام اختر، رفیق عاصی، اے اے اکموت، نسیمہ سلطانہ اکموت، راجہ لیاقت حیات، تاج بی بی بلوچ اور
دیگر کئی ہال کے اندر پہنچ چکے تھے۔

اچانک ہال کے باہر کھڑے لوگوں میں گرمجوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بیگم نصرت بھٹو ساڑھی میں ملبوس با اعتماد انداز میں چلتی ہوئی ہال کی طرف آ رہی تھیں۔ ان کا چہرہ بہت باوقار لگ رہا تھا۔ وہ ہال میں داخل ہو گئیں۔

ہمیں ہمارے ایک مرحوم دوست نے یقین دلایا تھا کہ وہ ہال کے اندر پہنچنے میں ہماری مدد کریں گے۔ میں کافی دیر سے ان کی راہ دیکھ رہا تھا۔ وہ اچانک نمودار ہوئے تو میں سراپا سوال بن کر ان کے قریب پہنچ گیا۔ انہوں نے ایک بند لفافہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور مجھے ساتھ لے کر ہال کے دروازے کی جانب چلے گئے۔ ابھی کنونشن شروع نہیں ہوا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو پہلی صف میں صوفے پر بیٹھی تھیں۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم ان کے قریب بیٹھے تھے۔ اگلی صف میں پیپلز پارٹی کراچی کے صدر عبدالستار گبول بھی بیٹھے تھے۔ عبدالحفیظ پیر زادہ اور عبدالستار گبول ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔

اچانک عبدالحفیظ پیرزادہ تیزی سے اٹھ کر ڈائس پر پہنچ گئے اور جئے بھٹو کے نعرے لگوانے شروع کر دیئے۔ چند لمحوں کے اندر اندر نعروں میں بلا کی تیزی آ گئی۔ نعروں کی اس گونج میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہال میں داخل ہوئے۔ بھٹو صاحب کی آمد پر نعروں کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے سلام کے انداز میں دایاں ہاتھ لہرایا اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کرسیٴ صدارت پر بیٹھنے کی بجائے ڈائس پر چلے گئے۔ نعروں کا سلسلہ جاری تھا۔ عبدالحفیظ پیر زادہ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ لگاتار نعرے لگوا رہے تھے۔ جئے بھٹو، سدا جئے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بھٹو صاحب نے دونوں ہاتھوں سے کارکنوں کو خاموش رہنے اور بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔

آہستہ آہستہ شور تھمنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد ہال میں خاموشی چھا گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بولنا شروع کیا۔ دوستو، ساتھیو، محنت کشو، پاکستان پیپلز پارٹی کے جانباز کارکنو! میں تمہیں ایک خوشخبری سناتا ہوں۔ پارٹی میں میرا جانشین پیدا ہو گیا ہے۔ ایک وزیر کی بیوی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر پوچھتی پھر رہی ہے کہ میرا میاں کب وزیر بنے گا“۔

بھٹو صاحب کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ کنونشن ہال میں بم بن کر گرے، ہال میں ایک شور بلند ہوا، نام بتاؤ، نام بتاؤ۔ چند ثانیوں میں اس شور نے شور قیامت کا انداز اختیار کر لیا۔ پورا ہال گونج رہا تھا۔ صرف دو لفظ سننے میں آ رہے تھے۔ ”نام بتاؤ، نام بتاؤ“۔ بھٹو صاحب کچھ دیر ہال کے شرکاء کو گھور کر دیکھتے رہے۔ ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ چند منٹ گزر جانے کے بعد انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کارکنوں کو خاموش ہونے کیلئے کہا۔ مگر شور تھمنے میں نہیں آ رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے دونوں ہاتھ ڈائس پر رکھے اور تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ ”خاموش ہو جاؤ“ اس خاص لمحے ان کی نظریں سامنے بیٹھی اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو پر جم گئیں۔

دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا، مجھے یوں لگا کہ سر پٹختی تیز طوفانی ہوا میں زمین سے اکھڑنے والے قدموں کو قرار آ گیا ہو یا جیسے طوفان بلاخیز میں کسی بلند ہمت شخص نے لہروں کا رخ موڑ دیا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ بہتر کون یہ بات جانتا تھا اور بیگم نصرت بھٹو سے زیادہ بہتر کون اس بات کا ابلاغ کر سکتا تھا کہ ہمت کا زوال تہذیب کے زوال کی پہلی علامت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بیگم نصرت بھٹو کے اعتماد سے بھرپور توانائی حاصل کی اور اپنی باقی تقریر مکمل کی۔

میں ذوالفقار علی بھٹو کو کئی بار عوامی جلسوں میں دیکھ چکا تھا مگر میں بیگم نصرت بھٹو کو دوسری بار بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے متحدہ مستقل آبادکاری بورڈ کا وفد بیگم نصرت بھٹو سے ملا اور ان سے نصرت بھٹو کالونی کی سرپرستی کرنے کی درخواست کی۔ برادرم برکت علی کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ ان دنوں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق رہنما اور اردو کالج کے استاد یونس شرر کی قیادت میں کراچی کی کچی آبادیوں کو مستقل کرنے کی تحریک چلائی جا رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بیگم نصرت بھٹو نے کہا کہ روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ہم کچی آبادیوں کو ضرور مستقل کریں گے اور انہیں تمام بنیادی سہولتیں فراہم کریں گے۔ یہ پہلی ملاقات تھی، تاہم دوسری بار انہیں قریب سے دیکھنے کا تجربہ خاصا مختلف تھا۔ اس ہال میں موجود تمام لوگ بیتاب تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ کس وزیر کی بیوی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر اپنے شوہر کے وزیراعظم بننے کے بارے میں سوالات پوچھتی پھر رہی ہے۔ مجھے بھی یہ تجسس تھا کہ اس راز سے پردہ اٹھنا چاہئے۔ میں عبدالسلام اختر کے قریب ہو گیا۔ کنونشن کے اختتام پر وہ اپنی نشست سے اٹھے تو میں بھی اٹھ گیا۔ وہ ہال سے نکلے،

میں بھی ساتھ ساتھ تھا۔ وہ وزراء اور اہم شخصیات کی گاڑیوں کی طرف چلے ، میں بھی ساتھ ہی چل دیا۔ عبدالسلام اختر نے مجھے کان میں کہا کہ جے اے رحیم کے گھر پہنچو، میں ٹیکسی میں بیٹھ کر پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر پیداوار جے اے رحیم کے گھر گرومندر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جے اے رحیم کی گاڑی گھر میں داخل ہوئی۔ عبدالسلام اختر ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ دونوں گاڑی سے اترے تو میں بھی ساتھ ہو گیا۔ ہم ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھے، تو عبدالسلام اختر نے جے اے رحیم سے پوچھا کہ ”رحیم صاحب! بھٹو صاحب کس وزیر کی بیوی کی بات کر رہے تھے۔ جے اے رحیم نے جواب دینے کی بجائے عین اسی وقت دروازے سے اندر داخل ہونے والے عبدالستار گبول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”گبول کو سب معلوم ہے، ان سے معلوم کرو“۔

عبدالستار گبول نے ایک وفاقی وزیر کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اڑے صاحب اس کی بات کر رہے تھے“۔ بھٹو صاحب، جے اے رحیم، عبدالسلام اختر اور عبدالستار گبول اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، مگر بھٹو صاحب کے مذکورہ وزیر اور ان کی اہلیہ اب بھی بقید حیات ہیں۔ تاہم ایک نہ ایک دن وہ نام ضرور منظر عام پر آئے گا۔

نیشنل اسٹیڈیم کے کنونشن کے بعد بھی میں نے کئی بار بیگم نصرت بھٹو کو قریب سے دیکھا مگر جولائی 1977ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ان سے کئی تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی ملاقاتوں میں ڈاکٹر امیر احمد، انور قریشی مرحوم، مسرور احسن، سردار حنیف، نسیم الحق عثمانی، راشد ربانی، اقبال یوسف، مولانا احترام الحق تھانوی، علاؤ الدین عباسی اور ولی محمد لاسی بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ صحافت کی دنیا میں ہماری مرزا ارشاد بیگ، ارشاد راؤ، شبیر درانی، نادر شاہ عادل، یوسف خان اور کئی دیگر دوستوں سے نیاز مندی تھی۔ میں ان سینئر دوستوں اور ساتھیوں سے سیکھ رہا تھا۔ ایک بار لاڑکانہ اور دادو سے ہمارے تین دوست کراچی آئے ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو چند ہی روز گزرے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو گورنر ہاؤس مری میں نظر بند تھے۔ پیپلز پارٹی اور پی این اے کی قیادت کو بھی مختلف ریسٹ ہاؤسز میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ سیاسی ماحول بہت کشیدہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں شدید غصہ اور اشتعال پایا جاتا تھا۔ میرے تین دوست غلام شبیر ٹرگڑ، غلام شبیر انصاری اور محمد خان جتوئی بیگم نصرت بھٹو سے ملنا چاہتے تھے۔ میں انہیں لے کر 70 کلفٹن آیا۔ میں نے بیگم صاحبہ کو بتایا کہ میرے دوست لاڑکانہ اور دادو سے ملنے آئے ہیں۔ وہ ان سب سے تپاک سے ملیں۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ لوگ اس قدر طویل سفر کر کے ان سے ملنے آ رہے ہیں۔ وہ آدھے گھنٹے تک باتیں کرتی رہیں۔ پھر مجھے اشاروں سے اٹھا کر ایک طرف لے گئیں۔ انہوں نے مجھے چار سو روپے دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے لئے اپنے دوستوں کی مہمان نوازی کرنا مشکل ہو رہا ہو گا۔ یہ پیسے رکھ لو۔ میں انتہائی شرمندہ ہو گیا اور چار سو روپے ان کے ہاتھ پر واپس رکھ دیئے اور کہا کہ اب ایسے حالات بھی نہیں ہیں کہ میں دوستوں کے کھانے پینے کے پیسے آپ سے لوں۔ بیگم بھٹو نے مادرانہ، تحکمانہ انداز میں کہا کہ یہ پیسے رکھ لو۔ میں پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ میرے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ میں خود کو اندر سے لرزتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ میں تینوں دوستوں کو لے کر 70 کلفٹن سے باہر لے کر آیا اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ ساری رقم میں نے ان دوستوں میں تقسیم کر دی۔ مگر بیگم نصرت بھٹو کے چار سو روپے کا بوجھ میں اب بھی اپنے اوپر محسوس کرتا ہوں۔ میں نے زندگی میں بارہا یہ رقم لوٹانے کی کوشش کی مگر انہوں نے ہر بار مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندہ کر دیا کہ تمہیں اس طرح کا حساب کتاب کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ بیگم بھٹو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں لاٹھیاں کھانے کے بعد زخمی حالت میں کراچی واپس آئیں۔ اس واقعہ کو کئی روز گزر چکے تھے۔ میں 70 کلفٹن میں بیگم صاحبہ کی خیریت دریافت کرنے گیا۔ میں نے بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ اب لاٹھی کا زخم کیسا ہے۔ بیگم صاحبہ نے سر کو جھکا کر انگلیوں سے زخم ٹٹولتے ہوئے وہ زخم دکھایا اور کہا اب ٹھیک ہوتا جا رہا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے عدت کے ایام میں کسی سے ملاقات نہیں کی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور تعزیت کیلئے آنے والے وفود سے ملاقاتیں کرتی تھیں۔ اس عرصے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ تاہم بیگم نصرت بھٹو کی عدت پوری ہونے کے بعد ہم اظہار تعزیت کیلئے 70 کلفٹن گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار غم کی تجسیم دیکھی۔ اگر غم کی شکل ہوتی، دکھ کی کوئی صورت ہوتی، سوگ کی کوئی علامت ہوتی تو وہ غم اور وہ دکھ اور وہ سوگ ایک چہرہ بن گیا تھا اور وہ چہرہ بیگم نصرت بھٹو کا چہرہ تھا۔ انہوں نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ کمرے میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ساڑھے تین ماہ گزر چکے تھے۔ بیگم بھٹو کے آنسو ایک دن کیلئے بھی خشک نہیں ہوئے تھے۔ کوئی ہچکی نہیں، کوئی سسکی نہیں، کوئی سینہ کوبی نہیں، کوئی آہ وزاری نہیں، بس ایک سیل رواں ہے جو آنکھوں سے جاری ہے۔ میں بیگم نصرت بھٹو کے قریب جا کر کوئی رسمی تعزیتی جملہ کہنا چاہتا تھا۔ انہوں نے مادر مہرباں کی طرح اپنا دایاں ہاتھ مصافحہ کیلئے آگے بڑھایا۔ میں نے بیگم نصرت بھٹو سے زندگی میں پہلی اور آخری بار مصافحہ کیا۔ یہ میری طرف سے ان کے عظیم شوہر کی شہادت پر تعزیت تھی۔ میں اس کے بعد بہت مرتبہ بیگم نصرت بھٹو سے ملا اور ہر بار ایسا لگا کہ ان کی زندگی ایک مسلسل امتحان ہے۔ وہ پاکستان، اس ملک کے عوام، پاکستان کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور خواتین کے ساتھ لازوال کمٹ منٹ رکھتی تھیں۔ ان سے ان کا پورا گھرانہ چھین لیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے شوہر کو پھانسی، دو بیٹوں کو قتل اور بیٹی کو لاکھوں افراد کے مجمع کے درمیان قتل کیا گیا۔ انہیں تاریخ میں نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی۔ مگر تاریخ نے ان کا سہاگ اجاڑنے اور ان کی گود خالی کرنے والوں کو ان کی زندگی میں اور پس مرگ بے رحمی سے روند ڈالا ہے۔ وہ تاریخ کا کوڑا کرکٹ بن چکے ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو دکھوں کے کوہ گراں اٹھا کر بھی تاریخ میں اپنی زندگی میں آبرو مند رہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا وہ اور قد آور ہوتی جائیں گی۔ پاکستان کی تاریخ بیگم نصرت بھٹو کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی اور تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ کس طرح بڑے بڑے سورما محض ایک ٹیلیفون کال پر اپنی کھال بچانے کی خاطر ڈھیر ہو جاتے ہیں اور ڈھیر ہو جانا ہی تو ان کا مقدر ہے۔

Originally Published in Daily Jang

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Junaid Qaiser
    -
  3. Ahmed Iqbalabadi
    -
  4. Shoaib Mir
    -
  5. naeem haq
    -
  6. Amjad Cheema
    -
  7. Shoaib Mir
    -