Not necessarily a drawing room, but the Karachi Press Club lawn does look like one
گھر میں ڈرائنگ روم کی وہی اہمیت ہے جو برات میں دولہا کی، دونوں کی آن بان اور سج دھج الگ ہی ہوتی ہے اور اس پر خاص خرچہ کیا جاتا ہے، ہمیں اپنے بچپن کو وہ زمانہ یاد ہے جب دولہے عجب طور سے سجاے جاتے تھے، گوٹے جیسی چمکتی شیروانی، چمکتے نوکدار جوتے ، کلاہ جس کے مرکز میں ایک گول سنہری گبند سا نکلا ہوتا تھا اور سب سے بڑھ کر سنہرے اور چاندی کے تاروں کا وہ ہار جس کے بیچ میں ایک پان کی شکل جیسا گتے کا ٹکڑا ہوتا تھا جس پر الگ الگ ڈزائن بنے ہوتے تھے یا کبھی کبھی ہار بنانے والے کا نام پتہ یا کبھی کبھی شعر لکھے ہوتے تھے، ہم نے نرگس کے ہزاروں سال رونے کا المیہ سب سے پہلے ایسے ایک ہار پر ہی پڑھا تھا اور دولہا میاں کو دیدہ ور سمجھے تھے. اب تو حالات خاصے بدل چکے ہیں مگر دولہا آج بھی خاصے کی چیز ہی لگتا ہے. لوگ اپنے ڈرائنگ روم بھی ایسے ہی رکھتے ہیں جیسے ایک دن دولہا کو رکھا جاتا ہے، خاصے کی چیز بنا کر. ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، سارے گھر میں چاہے چوہے دوڑتے پھریں یا برتن بجتے رہیں ، صدیوں صفائی نہ ہو یا دیواریں رنگ روغن سے بے نیاز کھڑی رہیں، ڈرائنگ روم کی دیکھ بھال اور آرائش میں کوئی فرق نہیں آنے دیا جاتا. بڑے بڑے پردے، عالیشان صوفے، مخملیں قالین، آرائش اور تصویریں، ہمارا خیال ہے کہ کریڈٹ کارڈ اور لون کی مارکیٹنگ کرنے والے ڈرائنگ روم سے ہی متاثر ہوتے ہیں. حقیقت تب پتہ چلتی ہے اگر اندر گھر میں جانا نصیب ہو جائے. وہ زمانے گئے جب زنان خانے مردان خانے ہوا کرتے تھے، دالان، برآمدے اور صحن کا رواج تھا، اب تو چند سو گز میں سفید پوشی کا بھرم رکھنا ہوتا ہے. وہ زمانے بھی لد گئے جب لوگ باگ کھلے چبوتروں اور بغلی باغیچوں میں بیٹھ کر گفت و شنید کرتے، اب تو بند مکانوں اور اونچی دیواروں میں رہنے والے بھی محفوظ نہیں ( ہمارا مطلب تو آپ سمجھ گئے ہونگے)، پھر بھی لوگ اندرون خانہ رہنے ہی میں سلامتی جانتے ہیں. اس لئے ڈرائنگ روم کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے. کبھی ڈرائنگ روم بیٹھک کہلاتے تھے مگر ہمارے خیال میں یہ اسطلاح بھی ماضی کا حصّہ ہوئی اور وہ طبقہ بھی. ایک زمانہ تھا گاؤں دیہاتوں میں چوپال لگا کرتے تھے اور اوطاق ہوا کرتے تھے، وہ بھی خدا جانے اب رہ گئے ہیں کہ نہیں. ایک زمانے میں ٹی وی پر سندھی زبان کا پروگرام آتا تھا ، اس میں ہر طرح کے لوگ شرکت کرتے اور اپنا فن اور تخلیقات پیش کرتے ، یہ ایک بڑی اوطاق یا چوپال کا منظر ہوتا، میزبان ایک بڑے وڈیرے کی روپ میں مرکز میں ہوتے، ان کے گرد لکڑی کے دلکش رنگین بُنے صوفوں پر اہم حاضرین، پھر ارد گرد مونڈھوں پردیگر حضرات اور باقی سامعین اور شرکت کرنے والے دریوں پربیٹھے ہوتے، بلکل کندہ ناتراش دیواروں سے لگے کھڑے نظر آتے، سچ مانیں تو ہم نے طبقاتی امتیازات کا پہلا سبق یہیں سے سیکھا. پتا نہیں اب وہ اوطاق بھی رہے یا نہیں، آخری دفع ہم کو جس گاؤں جانے کا اتفاق ہوا وہاں کی اوطاق سرکنڈے نما جھاڑیوں اور گندے پانی سے گھری تھی جس میں کتے لوٹ رہے تھے، ہم جتنے شوق سے کشاں کشاں اس کی طرف گئے اتنی تیزی سے الٹے پیر لوٹے، گاؤں کی کئی چھتوں پر ڈش انٹینا دکھائی دے رہے تھے. ہم کو گاؤں کے پرائمری سکول میں ٹہرایا گیا ، اور ماسٹر صاحب خادم کے فرائض انجام دیتے رہے، شرم بہت آئی مگر اس کا گلا گھونٹے رہے کہ اور کوئی چارہ نہ تھا. صبح اٹھے تو پتا چلا جس کمرے میں سوئے تھے وہ پانچویں جماعت تھی، ایک سے لے کر چوتھی تک تالے پڑے تھے. گاؤں کے بچے ارد گرد گھومتے اور اپنا معائنہ کرتے، دور جانور چراتے، بار برداری کرتے دکھائی دئے اور جلوس کی شکل میں ماسٹر صاحب کے ساتھ ہمیں پکّی سڑک تک چھوڑنے آئے. بہرحال زمانے کی ترّقی اور نہ گفتہ بہ حالات کا شہروں میں رہنے والے متوسط اور اعلی طبقے کے ڈرائنگ روموں پر اچھا ہی اثر ہوا ہے اور ہمارے دوست علامہ اضافی کی دل بستگی کا سبب ہے. لوگ باگ باہر کی دنیا سے خوفزدہ اور پریشان ڈرائنگ روم ہی میں پناہ لیتے ہیں، اور حالات حاضرہ پر مناظرہ کرتے پائے جاتے ہیں، کوئی سماجی اور صحت مند مشاغل نہ ہونے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں، ڈرائنگ روم کی رونق بڑھاتے ہیں، دنیا کو روتے فکر کرتے ، کھاتے پیتے وزن بڑھاتے اور ہر دو کی وجہ سے زیا بیطس کو گلے لگاتے ہیں. ہمارے ایک دوست جو کہ پکّے انقلابی ہیں، ان کی رائے میں ڈرائنگ روم انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور بورژوا علامت ہے. مگر ہو سکتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہو، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فکر زمانہ کرنے والے کسی بناسپتی انقلاب کی راہ تک رہے ہوں. ہماری رشتے کی ایک خالہ ہر چھ مہینے میں ڈرائنگ روم کی اسکیم بدل دیتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہ کریں تو خالوبورژوا سے پرولتاری بننے لگتے ہیں اور سال ہوتے ہوتے انقلاب انقلاب چلانے لگتے ہیں. یکسانیت سے اکتا جانا بھی تبدیلی کی خواھش کا سبب بنتا ہے، خالو میں اتنی پرولتاریت تو عام حالات میں بھی پائی جاتی ہے کہ کے-ٹو سے شغف کرتے ہیں، جب تالی بجا کر سگریٹ مانگتے ہیں تو ایک طشتری میں جملہ لوازمات اس طرح لائے جاتے ہیں کہ سگریٹ عیاشی نظر آتی ہے،سنہری سگریٹ ہولڈر، ماچس کی ڈبیا، چھالیہ، سونف، سپاری، پیپر منٹ کی چھوٹی چھوٹی تھالیاں دیکھ کر دل بے ایمان ہونے لگتا ہے، قسم ہے اگر سگریٹ ہولڈر سے بغیر فلٹر کے کے-ٹو نہ نکلتے دیکھتے تو ہم خود خالو سے فرمائش کر بیٹھتے. بہرحال خالہ اس بات پر شکر کرتی ہیں کہ خالو کی غریب پروری کے-ٹو تک محدود ہے اور آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے ڈرائنگ روم کی صورت میں ایک بہانہ بھی. ہماری نئی نسل کے ساتھ بھی ایسا ہی معامله ہے. ہمارے ایک اور بزرگ ہیں جو اپنے ٹین ایج بچوں کو چند دنوں میں کوئی نیا گجیٹ لے دیتے ہیں، کبھی موبائل کبھی لیپ ٹاپ کبھی کچھ اور، ہم نے پوچھا تو کہنے لگے کہ بھائی خرچہ کر کے ان چیزوں میں لگائے رکھنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ انقلاب کے چکّر میں پڑ کر دھوپ میں کالے ہوتے پھریں. ان صاحب کے ڈرائنگ روم میں یہ ہونہار نئی نسل اپنے دوستوں کے ساتھ مستیاں (یا خر مستیاں آپ جو سمجھیں ) کرتی نظر آتی ہے. ہم نے کہا ان پر زبردستی کیوں نہیں کرتے، کہنے لگے آپ کیا چاہتے ہیں کہ یہ انقلابی ایک دن میرے جنازے کو کندھا دینے سے انکار کر دیں؟ ہم نے کہا پھر ان کو پڑھائیں، منطق اور استدلال سے بات سمجھائیں، معلومات میں اضافہ کریں، دنیا کے بارے میں بتائیں، کہنے لگے کہ اتنا وقت نہیں ہے. ہمارا خیال ہے کہ یہ وقت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، بلکہ ایک بنیادی مسئلہ، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے والے اتنا وقت نہیں نکال پاتے کہ اپنے علم اور استعداد میں اضافہ کریں، مگر اپنے ارد گرد ہوتی تبدیلیوں سے خوش بھی نہیں ہیں، نتیجہ فکری خوش فہمیوں کی صورت میں نکلتا ہے جومعروضی حقائق سے نا واقفیت کی بنا پر نہ زمین سے منسلک ہیں نہ آسمان سے بس ڈرائنگ روم کو زیب دیتی ہیں اور ڈرائنگ روم میں پنپتی ہیں.
Comments
comments