Shameful Treatment of a Teacher- by Naveed Ali

جو لوگ اصولوں پر کاربند ہوں، ان کے لیے یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ہر ایک کو خوش رکھ سکیں، جو لوگ اپنی ذات میں خوش ہوں  وہ دنیا داری نہیں نبھا پاتے اور کبھی کبھی یہی ان کا جرم بن جاتا ہے. ویسے بھی پاکستان میں معاشرے کو اتنا غلیظ کر دیا گیا ہے کہ نیکی ایک جرم اور راستی ایک کمزوری بن گئی  ہے، یہاں  کردار سے زیادہ حیثیت اور صلاحیت سے زیادہ اثر و رسوخ کی اہمیت ہے، ایسے معاشرے میں علم ایک گالی اور عالم اور استاد ایک بے بس و بے کس فرد ہے ، ہم سب جو آج بہت کچھ ہیں ایسے نہ جانے کتنے اساتذہ کی جوتیوں کے طفیل ہیں اور شاید اسی لئے کوئی با شعور اور با ضمیر فرد برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ استاد کی بے عزتی کی جائے.  جو لوگ نسلوں کے معمار ہوں ان کو سر آنکھوں پر بٹھانا صحت مند معاشروں کی خصوصیت ہے اور ایسے لوگوں کو اہمیت نہ دینا اور ان کی بے عزتی کرنا وہیں ہو سکتا ہے کہ جہاں زوال اور پستی مقّدر ہو چکی ہو.

یہ  صاحب ایک ایسے ہی استاد ہیں کہ جن کی محنت کے طفیل ہم ایسے کئی کہاں سے کہاں جا پنہچے ہیں، عبدلواحد بیس سال سے زیادہ پبلک اسکول حیدرآباد سے وابستہ ہیں، اس مہینے ان کو اسکول کا پرنسپل بنا دیا گیا مگر صرف پندرہ دن میں فیصلہ بدل دیا گیا، ان پندرہ دن میں ایک ایماندار انسان نہ جانے کتنی آنکھوں کا کانٹا بن گیا. انہوں نے درس و تدریس میں عمر گذار دی اور دنیا داری سے دور رہے، حساب اور فزکس ان کے مضامین ہیں اور چند دہائیوں   سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں، نہ جانے کتنے وزیر اور مشیر ان سے سبق لیتے رہے ہونگے، اور نہ جانے کتنے ڈاکٹر ، انجنئیر، سول سرونٹ ، بینکر، اور بڑے بڑے کاروباری ان کے شاگرد رہے ہونگے. انہوں نے زندگی میں کچھ حاصل کیا تو وہ شرافت اور عزت تھی،  ان کے شاگرد ان کی نجابت اور دیانت کی قسمیں کھا سکتے ہیں، مگر  آج ہم سب شرمندہ ہیں، جو کچھ ان  استاد کے ساتھ پچھلے ہفتے ہوا وہ قابل مذمّت اور انتہائی بیہودہ اور گھٹیا ذہنیت کا عکاس ہے. ان کو ان کے ساتھیوں نے، ان لوگوں نے جن کا ان کے ساتھ برسوں کا تعلق تھا دھکّے دے کر سکول سے باہر نکال دیا وجہ جو بھی ہو کیا یہ سب کرنا کسی طرح جائز قرار پاتا ہے؟ طاقت اور بے حمیتی کا ایسا مظاہرہ ہماری عادت کا حصّہ بنتا جا رہا ہے، جب ہم اکثریتی  گروہ میں ہوں تو فرعون بن جاتے ہیں، جو ظلم کے خلاف ہوں وہ چپ تماشہ دیکھتے ہیں اور ظلم کا شکار ہونے والے کہیں بے عزت ہوتے ہیں تو کہیں جان تک  سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کردار بدل جاتے ہیں مگر قصّہ وہی ہے.  ( بوجوہ یہاں اس سے زیادہ نہیں لکھا جا سکتا کہ استاد کی عزت مقدّم ہے ).

تعلیم ایک مقدس فریضہ ہے صرف ایک پیشہ نہیں ہے، اور اس فریضے کی ادائیگی ایسے نا ہنجار، ناعاقبت اندیش اور کم ظرف لوگوں کے ہاتھ آ گئی ہے یہ نہ صرف سوچنے کا مقام ہے بلکہ جیتا جاگتا ثبوت ہے اس بات کا کہ نا اہلی کس طرح ہماری جڑوں میں بیٹھ چکی ہے،  یہ طمانچہ ہے ارباب اقتدار کے منہ پر، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم تباہی اور بربادی سے نزدیک ہوتے جا رہے ہیں، جب اہل علم کی کوئی عزت نہ رہے تو معاشرے زندہ نہیں رہتے. بر سبیل تذکرہ ایجوکیشن  ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر بھی نگاہ کر لیں. کچھ سوال آپ کے ذھن میں ابھرتے ہیں؟ پتہ نہیں یہ خبر کسی اخبار تک پہنچے گی بھی یا نہیں؟ کیا سندھ کے وزیر تعلیم یہاں دخل اندازی کریں گے؟ کیا ہم  اپنے بچّوں کے لئے کوئی روشن مثال چھوڑیں گے؟ یا اپنے محسنوں کو تنہائی میں رونے اور پچھتانے ( جی ہاں پچھتاوا کہ جن کے لئے سب کیا وہ بے حس ثابت ہوئے ) کے لیے چھوڈ دینے کی روایت قائم رہے گی. اگر کسی کو شرم نہ آئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے، ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے جو خود سے آگے کچھ نہیں دیکھ سکتے. اور ایسے احسان فراموش کس انجام سے دوچار ہونگے یہ بھی نوشتہ دیوار ہے.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Naveed
    -
  2. Naveed
    -
  3. Irfan Baloch
    -