How much democratic is the USA? From slavery to Obama – by Wusatullah Khan
posted by Abdul Nishapuri | November 10, 2008 | In Newspaper ArticlesHow much democratic is the USA?
امریکہ کتنا جمہوری ہے !
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
نینسی پلوسی امریکہ میں ایوان نمائندگان کی پہلی سپیکر ہیں
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ایشیا ، افریقہ ،یورپ اور جنوبی امریکہ کے تئیس ممالک میں خواتین سربراہانِ مملکت کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں یا اس عہدے پر فائز ہیں۔ان ممالک میں آئرلینڈ واحد مثال ہے کہ ایک خاتون صدر میری رابنسن سے اقتدار انیس سو ستانوے میں دوسری منتخب خاتون صدر میری میکلیز کو منتقل ہوا۔
اسی طرح تیس ممالک میں خواتین یا تو وزیرِ اعظم رہ چکی ہیں یا اس وقت ہیں۔اور ان میں سے بعض جگہ تو ایک ہی خاتون تین تین بار بھی وزیرِ اعظم رہ چکی ہے۔دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں خواتین کی تعداد کے اعتبار سے منتخب ایوانوں میں نمائندگی ہو۔ لیکن ایسے کئی ممالک ہیں جہاں تیس فیصد سے زائد پارلیمانی طاقت خواتین پر مشتمل ہے۔
امریکہ تو خیر دو سو بتیس برس بعد ایک غیر سفید فام صدر منتخب کرپایا ہے۔ لیکن وہاں اب بھی یہ بات ناممکنات میں سے سمجھی جاتی ہے کہ کوئی غیر عیسائی اس اعلی ترین عہدے پر فائز ہوسکے۔ اسکے برعکس جہوریت نے یہ کرشمہ بھی دکھایا ہے کہ بھارت جیسا ملک جہاں فرقہ واریت ، سماجی اور طبقاتی عدم مساوات کی جڑیں امریکہ سے کہیں گہری ہیں وہاں ہندو اکثریت ہونے کے باوجود تین مسلمان اور ایک سکھ صدر بن چکے ہیں۔
جبکہ موجودہ صدرِ مملکت اگر ایک ہندو خاتون ہیں تو وزیرِ اعظم ایک سکھ اور حکمران جماعت کی سربراہ ایک عیسائی اطالوی نژاد بھارتی خاتون ہیں۔
جبکہ دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت امریکہ کہ جس کا آئین شہریوں میں نسلی، لسانی، مذہبی، سماجی اور رنگ کی تفریق تسلیم نہیں کرتا اور اپنے ہر شہری کو بنیادی انسانی آزادیوں کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ خوشحال زندگی کے حصول کے لئے بلا روک ٹوک مساوی مواقع دینے کا وعدہ بھی کرتا ہے۔
اسی امریکہ کے اصل باشندوں یا انڈینز کو آبادکاروں کے تخلیق کردہ آئین کے تحت غیر امریکی قرار دیا گیا اور ان انڈینز کو کہیں انیس سو چوبیس میں جاکر امریکہ کی شہریت مل سکی۔
امریکی انڈینز نے اپنی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اگرچہ آج ان باشندوں کی تعداد امریکی آبادی کا محض ایک فیصد ہے۔اور ان سے ماضی میں نسل کشی سمیت جو ناروا سلوک رکھا گیا اس پر بھی سرکاری طور پر کئی مرتبہ دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ان انڈینز کے لئے لاکھوں ایکڑ زمین بھی مختص کی گئی۔ اس کے باوجود آج بھی ان اٹھائیس لاکھ انڈینز میں سے صرف ایک فیصد اپنے ذاتی کاروبار کے مالک ہیں۔ ان میں بے روزگاری کی شرح کم ازکم پچاس اور بعض علاقوں میں نوے فیصد تک ہے۔ سو میں سے چون بچے پانچویں درجے تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ان انڈینز میں خودکشی کا تناسب انیس فیصد کے لگ بھگ ہے جو امریکہ میں آباد کسی بھی نسلی گروہ سے زیادہ ہے۔
جہاں تک جمہوری اداروں میں امریکہ کے ان اصل باشندوں کی نمائندگی کا سوال ہے تو گذشتہ دو سو بتیس برس کی آئینی تاریخ میں محض چار امریکن انڈینز ہی کانگریس کے ایوان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ جبکہ پانچ سو چالیس ارکان پر مشتمل امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ایک امریکی انڈین ، بیالیس سیاہ فام اور کسی بھی رنگ و نسل کی صرف چوہتر خواتین موجود ہیں۔
اب تک کی امریکی تاریخ میں صرف پینتیس خواتین سینٹر بن پائی ہیں۔ جبکہ صرف ایک خاتون ایوانِ نمائندگان کی سپیکر بن سکی۔ باقی دنیا میں جہاں بیسیوں خواتین صدارتی اتتخابات جیت یا ہار چکی ہیں۔ وہاں امریکہ میں اب تک کوئی خاتون صدارتی امیدوار نہ بن سکیں۔ جبکہ نائب صدر کے انتخاب کے لئے بھی اب تک صرف دو خواتین امیدواروں کو موقع مل سکا ۔
ویسے تو باراک اوباما پر پہلے ہی سے اتنا بوجھ ہے کہ مزید بوجھ ڈالنا زیادتی ہوگی۔ تاہم انکے چار سالہ دورِ صدارت میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس بات کی چھان بین کریں کہ امریکہ دنیا کی طاقتور ترین جمہوریت ہوتے ہوئے بھی اب تک طبقاتی اور جنس کے اعتبار سے غریب ترین اور ناخواندہ جمہوری ممالک کے ہم پلہ کیوں نہیں ہو پارہا۔
اتنی سست رفتاری کی کیا وجوہات ہیں۔اور کس طرح سے یہ شہرہ آفاق امریکی مقولہ خود امریکہ پر بھی صادق آسکتا ہے کہ جمہوریت دراصل عوام پر عوام کی حکمرانی کا نام ہے۔
USA: From Slavery to Obama
غلامی سے سلامی تک!
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
چار سو سالہ قبل سیاہ فاموں کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا تھا
باراک او باما کی صدارت امریکی سیاہ فاموں کی چار سو سالہ جدوجہد کی تاریخ کا پہلا باب ہے جو دکھ کے بجائے خوشی کے آنسوؤں سے لکھا گیا ہے۔
باراک اوباما کی انتخابی مہم دراصل سولہ سو انیس میں شروع ہوئی تھی جب وائیٹ لوائین نامی ولندیزی بحری جہاز نے میکسیکو کی جانب رواں دواں ایک ہسپانوی جہاز سے جھڑپ کے دوران بیس افریقی غلاموں کو پکڑا۔ پھر ایک سمندری طوفان نے اس ولندیزی جہاز کے انجر پنجر ڈھیلے کردئیے اور اسے مرمت کے لئے ورجینیا کے ساحل پر فورٹ منرو میں لنگر انداز ہونا پڑا۔
ولندیزی جہاز کے کپتان نے جہاز کی مرمت اور خوراک کے ذخیرے کی قیمت کے طور پر ان بیس افریقی غلاموں کو فورٹ منرو کے سفید فام تاجروں کے حوالے کردیا۔
سولہویں صدی سے انیسویں صدی کے وسط تک ایک کروڑ بیس لاکھ افریقیوں کو پکڑ کر براعظم شمالی اور جنوبی امریکہ میں پہنچایا گیا۔ان میں سب سے زیادہ غلام پرتگیزی نوآبادی برازیل میں لائے گئے۔ جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اٹھارہ سو ساٹھ کی مردم شماری کے مطابق غلامی کو قانوناً جائز سمجھنے والی امریکہ کی پندرہ جنوبی ریاستوں کی ایک کروڑ بیس لاکھ کی آبادی میں چالیس لاکھ تک سیاہ غلام بھی شامل تھے۔
جوں جوں مشرق سے مغرب کی جانب نئی زمینیں آباد ہوتی گئیں۔ غلاموں کی بھی ایک اور جبری ہجرت شروع ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق نئے علاقوں کی آبادکاری کے لیے اٹھارہ سو ساٹھ تک کے نوے برس میں دس لاکھ غلام جنوبی ریاستوں سے مغربی علاقوں میں منتقل کئے گئے ۔ بہت کم ایسے غلام تھے جو اپنے خاندانوں کے ساتھ مغرب میں منتقل کئے گئے۔ زیادہ تر کو انفرادی طور پر بیچا اور خریدا گیا۔
مارٹن لوتھر کنگ اس ہوٹل کی بالکنی پر کھڑے ہیں جہاں انہیں گولی مار دی گئی تھی
اٹھارہ سو چالیس تک نیو آرلینز کی جنوبی بندرگاہ امریکہ میں غلاموں کی خریدو فروخت کا سب سے بڑا مرکز بن چکی تھی۔ اس تجارت کے منافع سے نیو آرلینز امریکہ کا تیسرا بڑا اور امیر شہر بن گیا۔ اسی نیوآرلینز میں ان غلاموں کی آہوں نے سروں کے ساتھ مل کر جاز موسیقی کو جنم دیا۔
اگرچہ سترہ سو ستاسی میں نافذ ہونے والے امریکی آئین کے تحت تمام انسان آزاد اور مساوی پیدا ہوئے تھے لیکن اس آئین کے نفاذ کے بیس برس بعد ہی کانگریس نے غلاموں کی بیرونِ ملک سے آمد پر پابندی عائد کی۔ البتہ اندرونِ ملک غلاموں کی خریدو فروخت پر کوئی پابندی نہیں لگی۔ تاہم کئی شمالی ریاستوں نے غلامی کے خاتمے کے لیے اپنے طور پر قوانین نافذ کیے۔
اس سلسلے میں پہلا قانون ریاست میسا چوسٹس نے منظور کیا۔ لیکن جنوبی ریاستوں کی عدالتیں جو غلامی کو جائز سمجھتی تھیں ان غلاموں کے لیے انسان کے بجائے شے کا لفظ استعمال کرتی تھیں۔ لیکن جب یہ شے کوئی جرم کرتی تو اسے بطور انسان سزا دی جاتی تھی۔
شمالی ریاستوں میں اس دور میں امریکن کولونائزیشن سوسائٹی قائم ہوئی جو نہ صرف جنوبی ریاستوں سے غلاموں کے شمالی ریاستوں میں فرار کی حوصلہ افزائی کرتی تھی بلکہ جو غلام واپس افریقہ جانا چاہتے تھے ان کے سفری انتظامات بھی کرتی تھی۔انہی غلاموں نے مغربی افریقہ میں لائبیریا کی ریاست قائم کی۔
اٹھارہ سو تیس کی دھائی میں ولیم لائڈ گریژن کی قیادت میں ایک مذہبی تحریک اٹھی جس کا نعرہ تھا کہ کسی کو غلام بنانا ایک سنگین گناہ ہے ۔اور اس گناہ کے مرتکب افراد کو استغفار کرنا چاہئیے۔
انیس سو پچپن میں روزا پارک نامی سیاہ فام خاتون کو سفید فاموں کے لیے مخصوص بس سیٹ چھوڑنے سے انکار پر گرفتار کر لیا گیا۔
اٹھارہ سو باون میں ہیریٹ سٹوو کا شہرہ آفاق ناول انکل ٹامز کیبن شائع ہوا اور جن لوگوں کو غلامی کی روایت کے بارے میں زرا سی بھی خوش فہمی تھی یہ ناول پڑھ کر وہ بھی ہرن ہوگئی۔اٹھارہ سو ستاون میں ایک سیاہ فام غلام ڈریڈ سکاٹ نے اپنی آزادی کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اگر ایک غلام کسی ایسی ریاست میں پناہ لے لے جہاں غلامی ممنوع ہے تب بھی وہ ایک آزاد شخص تصور نہیں کیا جاسکتا۔اور کانگریس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی علاقے میں غلامی کو کالعدم قرار دے سکے۔ چیف جسٹس راجر ٹینی نے فیصلے میں لکھا کہ غلام اور انکے ورثا شہریت حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔اس فیصلے پر صدر ابراھام لنکن سمیت متعدد حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا۔اور یہ تاثر پختہ ہوگیا کہ اب غلامی کے حامی سپریم کورٹ میں بھی اکثریت میں ہیں۔ اس کا نتیجہ بالاخر اٹھارہ سو اکسٹھ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی شکل میں نکلا۔شمالی افواج میں دو لاکھ سیاہ فام آزاد یا مفرور غلام بھی شامل ہوئے۔چار سالہ خانہ جنگی میں جنوبی ریاستوں کی فیڈریشن کو شکست ہوئی ۔اس کے بعد امریکی آئین میں اٹھارہ سو پینسٹھ کی تاریخی تیرہویں ترمیم ہوئی اور غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ تاہم نسلی تفریق کی مختلف شکلوں کو برقرار رکھنے والے ریاستی اختیارات کو نہیں چھیڑا گیا۔اس نسلی تفریق کے خاتمے کے لیے سیاہ فاموں کو مزید ایک سو سال کا سفر طے کرنا تھا۔
امریکی سیاہ فاموں کی چار سو سالہ تاریخ میں اگر کسی ایک دن کو سب سے زیادہ مبارک کہا جاسکتا ہے تو وہ ہے پندرہ جنوری انیس سو انتیس کا دن ۔جب جنوبی ریاست جارجیا کے ایک سیاہ فام پادری کے گھر میں مارٹن لوتھر کنگ کی پیدائش ہوئی ۔کنگ نے اپنی انتالیس سال کی مختصر زندگی میں سیاہ فام افریقیوں کو صدیوں کا سفر برسوں میں طے کروا دیا۔یہ نوجوان پادری مارٹن لوتھر کنگ ہی تھا جس نے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے ہتھیار سےنسلی تفریق کے نظام میں دراڑیں ڈالنی شروع کیں ۔اور کچھ واقعات نے سنگِ میل جیسی اہمیت اختیار کرلی۔ مثلاً مارچ انیس سو پچپن میں ایک پندرہ سالہ سیاہ فام طالبہ نے ایک جنوبی شہر برمنگھم کی بس میں سفید فاموں کے لیے مخصوص نشست چھوڑنے سے انکار کر دیا۔اسی سال دسمبر میں منٹگمری شہر میں روزا پارک نامی سیاہ فام خاتون کو سفید فاموں کے لیے مخصوص بس سیٹ چھوڑنے سے انکار پر گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں واقعات کے ردِ عمل کی قیادت مارٹن لوتھر کنگ نے کی۔اور سیاہ فاموں اور انکے حامی سفید فاموں نے اپنے علاقوں کی بسوں کا بائیکاٹ کردیا۔چنانچہ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ نے بسوں میں نسلی تفریق کا نظام کالعدم قرار دے دیا۔
بیشتر سیاہ فام غلام کپاس، تمباکو ، چاول اور دیگر اناج پیدا کرنے والی زرعی زمینوں پر مشقت کرتے تھے
انیس سو تریسٹھ میں کنگ کی قیادت میں چھ سیاہ فام تنظیموں نے واشنگٹن میں ڈھائی لاکھ افراد کا جلسہ کیا۔جو واشنگٹن کی تاریخ کا اسوقت تک کا سب سے بڑا اجتماع بن گیا۔اس جلسے میں مطالبہ کیا گیا کہ سرکاری سکولوں اور ملازمتوں میں نسلی تفریق ختم کی جائے۔اور کم ازکم اجرت دو ڈالر مقرر کی جائے۔
واشنگٹن کا یہ جلسہ مارٹن لوتھر کنگ کی شہرہ آفاق تقریر میرا اک خواب ہے کے سبب تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔
’میرا اک خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے معانقہ کریں۔میرا اک خواب ہے کہ میرے چاروں بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار کے سبب پہچانے جائیں۔میرا اک خواب ہے کہ۔۔۔‘
اس تقریر کو ابراھام لنکن کی گیٹس برگ کی تقریراور فرنکلن روز ویلٹ کے تاریخی خطاب کے بعد امریکی تاریخ کی تیسری عظیم ترین تقریر کہا جاتا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ نے مطالبہ کیا کہ غلامی نے جن طبقات سے صدیاں چھین لیں ان کی سماجی ، تعلیمی اور مساوی بحالی کے لیے پچاس ارب ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا جائے۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں انیس سو چونسٹھ کا شہری حقوق کا وفاقی قانون اور انیس سو پینسٹھ میں ووٹ کے مساوی حق کا قانون منظور ہوا۔ یہ دونوں قوانین اٹھارہ سو پینسٹھ کی تنسیخِ غلامی کی آئینی ترمیم کے بعد کے سب سے اہم قانون تصور کئے جاتے ہیں۔
کنگ نے ویتنام کی جنگ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک نو آبادیاتی جنگ قرار دیا۔ کنگ کی مساعی نے جنوبی افریقہ میں جاری سیاہ فام جدوجہد کو بھی خاصی حد تک متاثر کیا۔انیس سو چونسٹھ میں پینتیس سالہ کنگ کو شہری حقوق کے لیے عظم الشان کردار ادا کرنے پر امن کا نوبیل انعام ملا۔پچاس سے زائد یونیورسٹیوں نے انہیں اعزازی ڈگری دی۔ بیسویں صدی کے اہم لوگوں کی گیلپ فہرست میں کنگ کا نام دوسرے نمبر پر ہے اور سن دو ہزار کے ٹائم میگزین کی صدی کے با اثرترین افراد کی فہرست میں مارٹن لوتھر کنگ کا نام چھٹے نمبر پر ہے۔امریکہ کے سات سو تیس شہروں اور قصبات میں کوئی نہ کوئی سڑک یا گلی مارٹن لوتھر کنگ کے نام پر مل جائے گی۔
چار اپریل انیس سو اڑسٹھ کو مارٹن لوتھر کنگ کو جنوبی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔یہ دن اب قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اس موقع پر مجھے انیسویں صدی کے ایک نسل پرست امریکی سیاسی لکھاری جارج فٹز ہوگ کا یہ جملہ یاد آرھا ہے کہ ’نیگرو ذہنی طور پر نابالغ ہوتا ہے۔ لہذا اس سے بچوں کی طرح ہی برتاؤ کرنا چاہئیے۔غلام آزادی کی فضا میں پنپنے کے قابل نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اور اسکا ذہن سست ہوتا ہے۔اسں لیے وہ ذہین سفید فام نسل سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘
چار نومبر 2008 کے صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے بعد باراک حسین اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے
یہ اور اس طرح کے نسل پرستانہ دلائل وقت نے انہی دلیل بازوں کے منہ پر دے مارے۔ سیاہ فاموں نے دورِ غلامی میں اور بعد ازاں نسل پرستی کا شکار ہوتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں کو مرنے نہیں دیا۔
ایڈورڈ بوکے پہلا سیاہ فام امریکی تھا جس نے اٹھارہ سو چھہتر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور وہ بھی ییل یونیورسٹی سے۔ہارٹ سرجری کے پائنییر ڈینیل ولیمز نے اٹھارہ سو ترانوے میں پہلا آپریشن کیا۔انیس سو چالیس میں دنیا کا پہلا بلڈ بینک سیاہ فام ڈاکٹر چارلس ڈریو نے قائم کیا۔اسی برس بنجیمن ڈیوس امریکی فوج کا پہلا سیاہ فام جنرل بنا۔انیس سو پینتالیس میں ہیٹی میکڈینیل نے گون ود دی ونڈ میں بہترین معاون کردار پر پہلا آسکر حاصل کیا۔اسکے بعد ہالی وڈ میں جن سیاہ فام اداکاروں اور اداکاراؤں نے اپنا جادو جگایا یہ مضمون انکی فہرست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔موسیقی میں جاز، راک اینڈ رول اور ریگے جیسی اصناف انہی غلاموں کا تحفہ ہیں۔مارشل ٹیلر پہلا سیاہ فام امریکی تھا جو اٹھارہ سو ننانوے میں سائکلنگ کا عالمی چیمپیئن بنا۔جیک جانسن انیس سو آٹھ میں ہیوی ویٹ باکسنگ کا پہلا سیاہ فام چیمپئن اور انیس سو آٹھ کے اولمپکس میں جان بکسٹر ریلے ریس کا پہلا سیاہ گولڈ میڈلسٹ بنا۔اسکے بعد سے آج تک سیاہ فام امریکی کھیلوں پر کیسے راج کر رہے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔
بیسی کولمین پہلا سیاہ فام پائلٹ تھا جسے انیس سو اکیس میں فلائنگ لائسنس ملا۔مہم جو میتھیو ہینسن انیس سو نو میں قطبِ شمالی پہنچا۔انیس سو پچاس میں سفارتکار رالف بنچی کو امن کا پہلا ، انیس سو چونسٹھ میں مارٹن لوتھر کنگ کو دوسرا نوبیل انعام ملا جبکہ انیس سو ترانوے میں ٹونی موریسن کو ادب کا نوبیل انعام ملا۔
سیاہ فاموں کو جہاں جہاں موقع ملا انہوں نے نسلی برتری کے نظریے کو خاک میں ملایا لیکن انتظامی اور سیاسی میدانوں میں اب بھی ان کے لیے بے پناہ رکاوٹیں ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی امریکی شہر کا پہلا سیاہ فام مئیر (کارل سٹوکس ۔کلیولینڈ) انیس سو سڑسٹھ میں بنا۔ پہلا ریاستی گورنر ( ڈگلس ولڈر۔ورجینیا) انیس سو نوے میں بنا۔اگرچہ کانگریس کا پہلا سیاہ فام رکن اٹھارہ سو ستر میں جوزف رینی بنا لیکن پہلی سیاہ فام خاتون ( شرلے چشلم۔ نیویارک) انیس سو انہتر میں ہی رکنِ کانگریس بن پائی۔ پہلا سیاہ فام ایڈورڈ بروک انیس سو چھیاسٹھ میں پہلا سینیٹر بنا۔اب تک باراک اوباما سمیت صرف پانچ سیاہ فام ہی امریکی سینٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔جبکہ صرف دو سیاہ فام جج سپریم کورٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔وفاقی کابینہ کہ پہلا سیاہ فام وزیر (رابرٹ ویور۔وزیرِ ہاؤسنگ) انیس سو چھیاسٹھ کی جانسن انتظامیہ میں بن پایا ۔اور پہلا وزیرِ خارجہ کولن پاول کی صورت میں دو ہزار ایک میں نظر آیا ۔
ریورن جیسی جیکسن نے، جو انیس سو چوراسی اور اٹھاسی کی صدارتی امیدواری کی دوڑ میں حصہ لے چکے ہیں، تقریباً تین برس قبل ایک انٹرویو میں کہا کہ آج بھی لاشعوری تعصبات کی جڑیں مضبوط ہیں۔ ابھی امریکی سیاہ فاموں کو بہت دور جانا ہے ۔بقول جیسی جیکسن ’کئی مرتبہ جب میں کسی عمارت کی لفٹ میں سوار ہوتا ہوں تولفٹ میں موجود کوئی خاتون میری رنگت دیکھ کر اپنا پرس سائیڈ میں کرلیتی ہے۔‘
اسوقت سیاہ فام امریکی آبادی کا تیرہ فیصد ہیں۔لیکن امریکی جیلوں میں سیاہ فام قیدیوں کی تعداد تیس فیصد سے زائد ہے۔
ان حالات میں چند ماہ بعد یہ سوال بنیادی اہمیت اختیار کر لے گا کہ باراک اوباما نے وائٹ ہاؤس کو زیر کر لیا ہے یا وہ بھی اس کے قیدی بن چکے ہی