The Taliban feel insulted when our officials say that the CIA is funding them to kill innocent Pakistanis
Related article: Civil society demands Raymond Davis’s execution and Aafia Siddiqui’s release
Culture of appeasement
Express Tribune – Editorial, March 4, 2011
The killers of federal minister for minorities Shahbaz Bhatti must be puzzled by the way their murder, which they have claimed, is being interpreted in the media. They had put their identity on the pamphlet they threw in his car after killing the minister, and it said: (under the patronage) of al Qaeda and Tehreek-i-Taliban. They said they were from Punjab (Tehreek-i-Taliban, Punjab chapter) and were declaring their connection with the two binary organisations that are tormenting Pakistan and have brought its economy to a grinding halt.
The official interpretation of the killing of Mr Bhatti is that ‘foreign powers’ are trying to cause divisions in the country. This is what Interior Minister Rehman Malik has been saying since the murder; this is also the gloss he has been putting on most killings of the past where the Taliban had actually announced their complicity. Punjab Chief Minister Shahbaz Sharif has taken exception to anyone callingthe killers ‘Punjabi Taliban’, thinking this was name-calling under a kind of provincialism practised by the PPP. In the process, the killers are let off the hook: they are not to blame because ‘foreign powers’ are doing the killing; and they are not from any province because naming the province would be base provincialism.
Many TV channels have resorted to relying on ‘experts’ like ex-ISI chief Hamid Gul to further help this effort at appeasing the terrorists. Gul has made it fashionable among callers on many a talk show to say that the CIA is doing the killing to sow seeds of discord among the Pakistanis with the ultimate goal of getting at Pakistan’s nuclear weapons. The police and the administrative officers have caught on to this practice of putting the blame on distant lands (the US and Israel) and the ‘near enemy’ (India) to abdicate their own responsibility of identifying and catching the terrorists.
The Taliban feel insulted when our officials say that the CIA is funding them to kill innocent Pakistanis. It particularly riles the chief of the Taliban, Hakimullah Mehsud, who got himself proudly photographed with the Jordanian suicide-bomber who went across the border and succeeded in killing a group of CIA officers; he also appeared in a photograph together with Faisal Shahzad who tried to blow up Times Square in New York and with ex-ISI officer Colonel Imam as the latter was being executed. The message is: We are fighting the Americans under the guidance of al Qaeda and feel insulted by your abject appeasement.
What is the psychology of this appeasement, which began in the early 2000s after al Qaeda arrived in Pakistan and hired the Taliban warlords to spread terrorism in the country? It practically forgives the terrorists, signalling that they are not the real enemy; the real enemy is India and the power that now stands behind India, the United States. The persuasion here is: Why are you killing us; we are with you in your jihad against the US. The rest of the Pakistani mind, however, is more complex. A part of it is subject to what is called the Stockholm Syndrome, seeking empowerment by embracing the tormentor instead of confronting him. And we can’t rule out the possibility that some Pakistanis actually expect the terrorists to lead the ‘game-changer’ revolution that every leader in Pakistan is loudly praying for.
The world knows what is happening. Minorities minister Bhatti knew of these realities and, if some reports are to be believed, did not trust the security detail allotted to him, not even the Christians he had as guards, because he knew that many Pakistanis secretly approve of actions where non-Muslims or apostates are killed by those claiming to speak for Islam. The ‘peace accords’ of 2004 and 2006 with the terrorists in South and North Waziristan respectively were instances of such appeasement. The terrorists were contemptuous of this appeasement and have continued killing innocent people and destroying markets and schools with impunity, declaring their identity every time. It is no use telling them that Pakistan, too, is with them in their war against America since they focus relentlessly on killing Pakistanis and taking over Pakistan. What we need to do is open our eyes and confront them.
Published in The Express Tribune, March 5th, 2011.
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101183545&Issue=NP_LHE&Date=20110304
توہینِ رسالت قوانین پر بحث شدید تر
عنبر شمسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پروفیسر خورشید شہباز بھٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں
تقریباً تیرہ سال پہلے، ایک کیتھولک پادری نےساہیوال کی سیشنز عدالت میں خود کشی کر لی۔خود کشی کرنے والے ریورنڈ جان جوسف تھے، جو اسی فیصل آباد سے تعلق رکھتے تھے جو کہ شہباز بھٹی کا بھی آبائی شہر ہے۔
ریورنڈ جان جوسف کا یہ عمل ایک احتجاج تھا جو انہوں نے اپنے ڈایئوسیز کے ایک مسیحی کو ناموسِ رسالت قانون کے تحت سزائے موت سنائے جانے پر کیا تھا۔ خود کو مٹانے کا یہ عمل اب کس کو یاد ہے۔
آج کے پاکستان میں ناموسِ رسالت کے قوانین ایسا موضوع ہے جس کے خلاف احتجاج یا اس پر محض بحث، چاہے وہ اس کے اصول پر ہو یا عمل درآمد پر، تشدد کو دعوت دینا ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی نے یہ کوشش کی، اور ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان اموات کی وجہ سے یہ باب اب بظاہر بند ہوچکا ہے۔
مسیحی اور حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اصل مسئلہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے تحت سزائے موت شامل کیا جانا ہے۔ اس بارے میں جماعتِ اسلامی کے رہنما اور سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں: ’یہ ضیا نے نہیں بنایا تھا ۔ پارلیمنٹ نے ِاسے 1991 میں منظور کیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں ایسا تشدد اور خون خرابہ نہیں تھا اور نہ ہونا چاہیے۔‘
یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف کی حکومت تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی موجودہ پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، تشدد کی مذمت تو کرتی ہے لیکن قانون میں ترمیم کے بارے میں چپ ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز تشدد کی مذمت تو کرتی ہے لیکن توہین رسالت قانون میں ترمیم کے بارے میں چپ ہے۔
پروفیسر خورشید نے بھی شہباز بھٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور قانون کے اعتبار سے ان کے قتل کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں: ’اس کو محض ناموسِ رسالت کے قانون کے بنیاد پر نہ کہا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ پاکستانی طالبان کون لوگ ہیں، کون لوگ ان کو پیسے دے رہے ہیں، کس کس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں صحیح تحقیق بھی کرنی چاہیئے اور بلا وجہ اس کو ان قوانین پر نہیں ڈالنا چاہیے۔‘
دوسری طرف حقوق انسانی کے کارکن آئی اے رحمان ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس معاملے پر پہلے اتنا تشدد دیکھنے میں نہیں آیا۔ آخر اس سے پہلے بھی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور فوجی آمر پرویز مشرف نے حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی اداروں اور مسیحی برادری کے مستقل اصرار کے بعد اس قانون میں ترمیم لانے کی کوشش کی۔
لیکن آئی اے رحمان رحمان کہتے ہیں کہ حالیہ تشدد کے پس منظر میں پہلے معاملات مذہی تھے اور اب یہ مسئلہ سیاسی ہو گیا ہے۔ ’ہمارے ملک کے انتہاپسند عناصر ریاست پر قبضہ کرنے کے لیے اسے استعمال کر ہے ہیں اور وہ لوگوں میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔‘
دونوں کے نظریے فرق تو ہیں، لیکن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے یہ قانون تشدد میں اضافے کا ایک اور جواز بن چکا ہے۔
آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ اب دیکھیں کتنے لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں۔ وہ سب ناموسِ رسالت کی بنا پر نہیں مارے گئے، وہ اس لیے مارے گئے کیونکہ وہ ان کے ریاست پر قبضے کے پیش رفت میں رکاوٹ تھے۔
مسیحی کارکنوں کے لیے اصل مسئلہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے تحت سزائے موت شامل کیا جانا ہے
پروفیسر خورشید اس رائے سے انکار کرتے ہیں۔ ’یہ غلط ہے۔ اس کی ایک اور وجہ شدت پسندوں کی عدالت میں سزا دلوانے میں، تفتیشی اداروں اور خفیہ اداروں کی ناکامی ہے۔ یہ پورے سکیورٹی نظام کی ناکامی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں کسی کیس کا واضح طور پر حل نہیں ملا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ان لوگوں کو احساس نہیں ہو گا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملتی ہے، اور یہ رکاوٹ نہیں بن رہا ۔تو یہ جو حالات ہیں، ان میں حکومت کی کارکردگی اور ناکامی کا بہت بڑا دخل ہے۔
دوسری جانب آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ تشدد کا پہلو اب زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے پاس پہلے بندوقیں نہیں تھیں۔
لیکن انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
رحمان صاحب کے مطابق، ایک وزیر مارا گیا ہے اور ایک گورنر لیکن بہت سے لوگ اس کی مذمت نہیں کرر ہے۔ ’ان کے دلوں میں خاص نرم گوشہ ہے ان انتہا پسندوں کے لیے جو یہ کارروائی کرتے ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی جماعتیں کہتی ہیں لیکن درحقیقت مذہبی جماعتیں ہیں۔‘
کیا اس کا حل ڈھونڈنے کے لیے دیر ہو چکی ہے؟ کیا پاکستان تشدد کی راہ پر مستقل طور پر چل پڑا ہے؟ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہی ہے اگر وہ مل بیٹھ کر ڈھونڈیں۔
‘کسی بھی چیز کے لیے دیر نہیں ہوتی۔اگر ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جائیں تو کل بھی دیر تھی، اگر ہاتھ نہ چھوڑیں تو آنے والا کل بھی دیر نہیں ہو گی۔‘
چاہے تشدد اور انتہا پسندی کی راہ سے مڑنے کے لیے سیاسی حل نکالا جائے یا سکیورٹی نظام کی اصلاحات کی جائے، جب تک پاکستان میں کلیدی کردار رکھنے والی قوتوں میں اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوتا، یہ ممکن نہیں ہوگا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/03/110304_blasphemy_shamsi_si.shtml
Hamid Gul in PTI student wing Dharna (
http://criticalppp.com/forum/topic.php?id=848
Irfan Siddiqi of PML-N writes:
بہت سے باخبر حلقے کہہ رہے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے فوری ذمہ داری قبول کرلینے کے باوجود اس قتل میں کچھ ایسے عناصر کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے جنہیں رحمان ملک صاحب کی حکومت لاڈلوں کی طرح پال پوس رہی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنے کا معاملہ ہمیشہ ہی مشکوک اور پراسرار رہا ہے۔ قتل کے مقام پر ایسے پمفلٹ ملے جن پر الله‘ رسول کے نام اور آیات قرآنی کے حوالے تھے۔ یہ کاغذ بے دردی کے ساتھ زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس سے قبل ہونے والی سینکڑوں وارداتوں میں کبھی ایسے نہیں ہوا۔ ہر شخص کو خبر ہے کہ اسلام آباد‘ ریمنڈ ڈیوس کے قبیلے کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سینکڑوں گھر سی آئی اے کے کارندوں‘ بلیک واٹرز یا زی کے گرگوں کی تحویل میں ہیں۔ پنجاب کو گالی دینے سے پہلے رحمان ملک یہ تو بتائیں کہ ان اوباشوں کو ویزے کون دے رہا ہے؟ کیا شہباز شریف نے سمندر پار کچھ دفاتر کھول رکھے ہیں؟ میرے دوست سلیم صافی‘ ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ اسٹوری جنگ اور نیوز میں دے چکے ہیں کہ 2010ء کے صرف چار مہینوں کے اندر‘ صرف دبئی قونصلیٹ سے 86 امریکیوں اور 150 بھارتیوں کو پاکستان کے ویزے جاری کئے گئے۔ یہ ویزے اُن دنوں جاری ہوئے جب پاکستان کا دفتر خارجہ باقاعدہ سرکلر جاری کرچکا تھا کہ کسی امریکی کو ‘ واشنگٹن کے سوا کسی دوسرے ملک سے ویزا جاری نہ کیا جائے۔ خبر شائع ہونے پر جب دفتر خارجہ نے دبئی قونصلیٹ سے پوچھا کہ یہ خلاف ورزی کیوں ہوئی تو وہاں سے تحریری طور پر جواب آیا کہ یہ دبئی میں مقیم فلاں بااثر شخصیت کے حکم پر ہوا۔ کیا رحمان ملک صاحب اس شخصیت کو جانتے ہیں؟ اور کیا رحمان ملک صاحب کو معلوم ہے کہ دبئی سے ویزا لینے والی چھ امریکی خواتین نے پاکستان میں اپنی رہائش کا پتہ ایوان صدر اور زرداری ہاؤس لکھا تھا؟ کیااُنہیں معلوم ہے کہ بیشتر ویزا درخواستیں جس دن دی گئیں‘ اُسی دن ویزے لگ گئے؟ کیا اُنہیں پتہ ہے کہ بعض مقدس ویزوں کے اجراء کے لئے جمعہ کی چھٹی کے دن قونصل خانہ کھلوایا گیا؟ کیا یہ سب کچھ شہباز شریف نے کیا؟
واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ پاکستانی سیکورٹی ایجنسیز سے بالا بالا براہ راست ویزے جاری کرے؟ اس حکم نامے کے بعد صرف دو دنوں کے اندر چارسو امریکیوں کو ویزے جاری کئے گئے۔ جنوری 2010ء سے جولائی 2010ء تک چھ ماہ میں 1895 ویزے جاری ہوئے۔ 14/جولائی 2010ء سے 30/اگست2010ء تک صرف ڈیڑھ ماہ میں 1445 مزید امریکیوں کو ویزے دیئے گئے۔ ان میں سے بیشتر کو ڈپلومیٹک ویزے جاری کئے گئے اور ان میں نوئے فی صد سے زائد کا تعلق ریمند ڈیوس کے قبیلے سے ہے ۔ رحمان ملک بنائیں کہ مارچ 2009میں امریکن سفیر این پیٹرسن کے ایک خط پر انہوں نے بلیک واٹرز اور زی جیسے گرگوں کے لئے ”انٹر رسک“ اور کچھ دوسرے کو ممنوعہ بور کے ہتھیاروں کے کتنے لائسنس جاری کئے تھے؟۔ ”انٹر رسک“ کے لئے امریکیوں کو 140‘ اے کے 47 رائفلز درآمد کرنے کی اجازت کیا پنجاب نے دی تھی؟
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=510635
The Taliban should not feel insulted anymore! Instead of them being used as stupid proxies and “local assets” of the CIA, now Caucasian contractors like Raymond Davis are being called to do the job!
Obviously the stupid Taliban would not know who’s paying them to do what, because they’re so deeply involved with their hashish and their sodomy and their fighting and killing and looting and plundering.
Maybe if there was something about American imperialism, and use of proxies to further Great Game interests, in the Quran, then they could have at least some basic education in global geopolitics and really figure out what’s what instead of being insulted (which they feel every day, about cartoons and bears and what all).
PS If Hameed Gul is Pakistan’s Tony Soprano, then I would like to find out who his goomah’s are…