Why Zardari?

It is not a secret…………Asif Ali Zardari is always a favourite target for the pro-establishment and pro-Taliban journalists and politicians; he is portrayed as responsible for all of the Government’s alleged failures. This is despite the fact that Prime Minister Yusuf Raza Gilani has clarified times and again that he (Gilani) is running the Government not the President. But in the words of Nazir Naji sahib, “the December (now “March” forecast) brigade” is not ready to accept this fact. Do you know why? This article from BBC Urdu provides the answer:

It is  an answer to both:

Those who want to know why Zardari is being targeted by the right wing apologists of political parties and the media.

And those who want to know what Zardai means to PPP and its supporters (the jialas):

انور سِن رائے

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

بہت سے لوگوں نے یہ کہانی بچپن ہی سے سنی ہو گی جس میں ایک جادو نگری ہوتی ہے اور اس جادو نگری کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس طوطے تک رسائی حاصل کی جائے جس میں طلسم بنانے والے نے اپنی جان رکھ کر اسے ایک ایسے محفوظ مقام پر رکھا ہوتا ہے جس تک رسائی آسان نہیں ہوتی لیکن اگر مقام تک رسائی حاصل کر کے طوطے کی گردن مروڑنے میں کامیابی حاصل کر لی جائے تو سارا طلسم ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کہانی پتہ نہیں کیوں کچھ فرق کے ساتھ، مجھے آج کل پاکستان کی سیاست سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہے۔

حالات نے پیپلز پارٹی کا طلسم آصف زرداری کی ذات میں جمع کر دیا ہے۔ انہوں بینظر بھٹو کو پیش آنے والے سانحے کے بعد نہ صرف پارٹی کو ایک رکھا ہے بلکہ اسے اقتدار میں لانے میں بھی کامیابی بھی حاصل کی ہے۔

یہ بات ان کی بہت بڑی شکست ہے جنہوں نے بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کی وہ کامیابی حاصل کر لی جو ضیا الحق کے دور میں بھی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔اب ان حلقوں کے پاس تین سال اور کچھ ماہ ہیں۔ اس کے بعد الیکشن ہوں گے۔ پیپلز پارٹی دو سال کے لگ بھگ گزار چکی ہے۔

گزرے دو سالوں میں کیا ہوا؟ پیپلز پارٹی نے بہت کچھ کمایا اور گنوایا۔ جن کا ہدف آصف زرداری ہیں انہیں پتہ ہے وزیر اعظم سمیت کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ خاص طور پر اس بات کو ان سیاستدانوں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے جنہوں نے ضیا الحق جیسے صدر کے سائے میں نمو پائی ہو۔ اسحاق خان جیسے صدر کو دیکھا اور با اختیار صدر کی ہمنوائی کا مزا چکھا ہو اور مخالفت کے زخم بھی کھائے ہوں۔ لیکن میڈیا کے بڑے حصے کا کھلا اور واضح ہدف بھی صدر آصف زرداری ہی ہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے وہ صدر جنرل مشرف اور صدر آصف زرداری میں کوئی فرق کرنے پر تیار نہیں۔ یا انہیں بھی یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جان آصف زرداری میں ہے، آصف زرداری کی گردن مروڑی جائے گی تو پیپلز پارٹی کی جان خود بخود نکل جائے گی۔ یا ان کا فخر و غرور یہ ہے کہ اگر وہ بے وردی صدر جنرل مشرف ناکوں چنے چبوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو آصف زرداری کس کھیت کی مولی ہیں۔

لیکن کیا ذرائع ابلاغ میں یہ آزادی، اداروں کے اندر محض پیشہ ورانہ آزادی کا فروغ ہے کیوں کہ اب تک تو ان اداروں میں کام کرنے والے یہ آزادی صرف پیشہ ورانہ آزادی کے طور پر اختیار نہیں کر سکتے۔ انہیں اتنی ہی آزادی ہوتی تھی جتنی انہیں ڈھیل دی جاتی ہے اور یہ ڈھیل اچھے صحافیوں کے رابطوں کو دیکھ دی جاتی تھی۔ جو صحافی ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ کے لیے جتنا زیادہ قابلِ اعتماد ہوتا تھا اتنا ہی بڑا اور اچھا ہوتا تھا اور اتنی ہی اسے اپنے ادارے میں ڈھیل ملتی تھی۔ کیوں کہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان سے زیادہ اس بات کو اور کون جان سکتا ہے کہ کس ادارے کے بغیر بقا ممکن نہیں رہے گی۔

اس پس منظر میں پیپلز پارٹی نے جو کچھ گنوایا ہے کر کے گنوایا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ جوتوں اور پیاز کی کہانی دہراتے اور ہنستے ہیں اور پیپلز پارٹی کے ہم خیال اور کارکن دکھ بھری آنکھوں سے انہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو دباؤ میں آ کر خود بھی اپنے آپ میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔

لیکن ان میں سے کچھ ضرور سوچتے ہوں گے: جوہری کمانڈ کنٹرول کی وزیر اعظم کو منتقلی، عرصہ دراز کے بعد این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق، بلوچستان پیکیج، جلا وطن بلوچ رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کا عزم، شدت پسندوں کے خلاف آپریشن، آپریشن سے اندرون ملک ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی اور اس سے کامیاب نبرد آزمائی کیا یہ سب ایسے کام نہیں جنہیں گنا نہ جائے۔ کیا یہ سب میثاقِ جمہوریت پر عمل نہ ہونے کے شور، بے وفائی کے طعنوں، عدلیہ کی بحالی کی مختلف حکمتِ عملی، آٹے کا بحران، چینی کا بحران، بجلی کا بحران، این آر او کے غوغے میں گم ہوجائے گا۔

اگر آئندہ تین سال میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے بہت کچھ کرنے کی کوشش کی ہے یا کیا ہے تو پارٹی سرخرو ہو گی اور سرِ فہرست ہوں گے آصف زرداری اور اس قابل ہوں گے کہ بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت اپنی اگلی نسل کو منتقل کر سکیں اور یہی بات انہیں ہضم نہیں ہو سکتی جنہیں بھٹو کے بعد بینظیر ہضم نہیں ہو سکیں۔ شاید اسی لیے ایسی کوششیں ہوتی دکھائی دیتی ہیں کہ زدرادی کو پارٹی کا بوجھ بنا دیا جائے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Abdul Nishapuri
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. benfettoume
    -