کھوسہ صاحب گورنر بن گئے ۔ اچھا ہوا۔ انہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کیا اور میاں شہباز شریف سے ملا قات کی ۔ اور بھی اچھا ہوا ۔گویا اب گورنر ہاؤس کا مزاج بدل گیا ہے سلمان تا ثیر کا اپنا مزاج تھا ۔جو لوگ سلمان تاثیر کو بچپن سے جانتے ہیں وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ وہ شروع سے ہی دبنگ قسم کے انسان تھے ۔ پھر ان کے ساتھ جیل میں جس قسم کا سلوک کیا گیا تھا وہ اسے نہیں بھولے تھے ۔ اور آپ یاد کیجے کس کی حکومت میں ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تھا ۔ اس لئے ان سے کسی اور قسم کے روئیے کی امید رکھنا ہی غلط تھا۔ اب یہ کہنا کہ وہ ایساکسی کے کہنے پر کرتے تھے صحیح نہیں ہے ۔
کھوسہ صاحب اس مزاج کے نظر نہیں آتے ۔ ہیں تو وہ بھی پیپلزپارٹی کے کلچر کی ہی پیداوار۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ اس وقت تمام جمہو ری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ہی سب کا بھلا ہے ۔ سلمان تا ثیر کے قتل کے بعد ملک میں ایسے حالات پیدا کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پورے معاشرے میں انتشار پیدا ہو جائے اور وہ طاقتیں جو عام انتخابات میں کبھی کامیاب نہیں ہو تیں وہ حکومت اور ریاست پر قبضہ کر لیں ۔ یہ طاقتیں پورے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر نے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اس میں ہماری حکومت کی کمزوری کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔ وہ ان طاقتوں کے آ گے جھکتی چلی جا رہی ہے ۔
ناموس رسالت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے ۔کون بد بخت مسلمان ہے جو اس سے اختلاف کر سکتا ہے ۔ مگر اس سے بھی توکوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس قانون کو ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔چلئے،قانون ختم نہ کیجے، ماروی میمن کی بات ہی مان لیجے ۔ماروی نے دوسرے اکیس ارکان پالیمنٹ کے دستخطوں سے ایک قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ناموس رسالت کے قانون کو چھیڑے بغیر ایک اور قانون بنایا جا ئے جس میں مظلوموں کو تحفظ فراہم کیا جا ئے ۔ اور پھر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کئی سال پہلے سفارش کر چکی ہے کہ ناموس رسالت کے سلسلے میں جھوٹا الزام لگا نے والے کو بھی وہی سزا دی جائے جو شاتم رسول کو دی جا تی ہے ۔ یہ اس زما نے کی بات ہے جب ڈاکٹر ایس ایم زمان کونسل کے سر براہ تھے ۔ اب تو حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل جمعیت ا لعلمائے اسلام کے حوالے کر دی ہے جو ا یک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے ۔لیکن اگر ڈاکٹر زمان کی سفارش مان لی جاتی اور باضابطہ قانانون بنا دیا جا تا تو آج جس صورت حال کاہمیں سامنا ہے وہ پیش نہ آتی ۔ لیکن ہم یہ کس سے کہہ رہے ہیں؟ ۔ سب ڈرے ہوئے ہیں ۔ سب سیاست کررہے ہیں۔ ایک کو یہ فکر ہے کہ کہیں اس کی حکومت نہ چلی جائے ۔ اور دوسرے اس فکر میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حکومت پر قبضہ کر لیا جا ئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کی اکثریت الیکشن میں انہیں کبھی کامیاب نہیں ہو نے دے گی ۔کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ اس ملک کا کیا ہو گا۔ اس معاشرے اور اس کے ان شہریوں کا کیا ہو گا جو نئے ز ما نے کے ساتھ چلنا چا ہتے ہیں۔
Calling 295-C as ‘black-law’ is not blasphemy: Qadri’s lawyer
Daily Times Monitor
LAHORE: Waheed Anjum, counsel for Mumtaz Qadri, has said calling section 295-C, as the ‘black law’ was not blasphemy, a private TV channel reported on Friday.
Speaking in a programme, Rawalpindi Bar Association President Waheed Anjum said that 302 and 295-C are man-made laws and calling such laws, as ‘black-laws’ didn’t fall into the category of blasphemy. The Pakistan Penal Code section doesn’t have any provision which can implicate a person, who threatens others to kill over the blasphemy issue, he said.
He said there was no law to kill or threaten a person for blasphemy. He said section 506 could be applicable on a person who hurls death threat on others.
He added that section 302 would be imposed on the person who kills somebody over the blasphemy issue, for which there is capital punishment or life imprisonment. Anjum said article 302-C would be imposed on Qadri, who killed former Punjab governor Salmaan Taseer for terming the blasphemy law as ‘black law. He said Qadri didn’t have any enmity with Taseer. He said that the court would decide about the case after considering the evidences, the channel reported.
کھوسہ صاحب گورنر بن گئے ۔ اچھا ہوا۔ انہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کیا اور میاں شہباز شریف سے ملا قات کی ۔ اور بھی اچھا ہوا ۔گویا اب گورنر ہاؤس کا مزاج بدل گیا ہے سلمان تا ثیر کا اپنا مزاج تھا ۔جو لوگ سلمان تاثیر کو بچپن سے جانتے ہیں وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ وہ شروع سے ہی دبنگ قسم کے انسان تھے ۔ پھر ان کے ساتھ جیل میں جس قسم کا سلوک کیا گیا تھا وہ اسے نہیں بھولے تھے ۔ اور آپ یاد کیجے کس کی حکومت میں ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تھا ۔ اس لئے ان سے کسی اور قسم کے روئیے کی امید رکھنا ہی غلط تھا۔ اب یہ کہنا کہ وہ ایساکسی کے کہنے پر کرتے تھے صحیح نہیں ہے ۔
کھوسہ صاحب اس مزاج کے نظر نہیں آتے ۔ ہیں تو وہ بھی پیپلزپارٹی کے کلچر کی ہی پیداوار۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ اس وقت تمام جمہو ری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ہی سب کا بھلا ہے ۔ سلمان تا ثیر کے قتل کے بعد ملک میں ایسے حالات پیدا کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پورے معاشرے میں انتشار پیدا ہو جائے اور وہ طاقتیں جو عام انتخابات میں کبھی کامیاب نہیں ہو تیں وہ حکومت اور ریاست پر قبضہ کر لیں ۔ یہ طاقتیں پورے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر نے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ اس میں ہماری حکومت کی کمزوری کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔ وہ ان طاقتوں کے آ گے جھکتی چلی جا رہی ہے ۔
ناموس رسالت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے ۔کون بد بخت مسلمان ہے جو اس سے اختلاف کر سکتا ہے ۔ مگر اس سے بھی توکوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس قانون کو ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔چلئے،قانون ختم نہ کیجے، ماروی میمن کی بات ہی مان لیجے ۔ماروی نے دوسرے اکیس ارکان پالیمنٹ کے دستخطوں سے ایک قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ناموس رسالت کے قانون کو چھیڑے بغیر ایک اور قانون بنایا جا ئے جس میں مظلوموں کو تحفظ فراہم کیا جا ئے ۔ اور پھر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کئی سال پہلے سفارش کر چکی ہے کہ ناموس رسالت کے سلسلے میں جھوٹا الزام لگا نے والے کو بھی وہی سزا دی جائے جو شاتم رسول کو دی جا تی ہے ۔ یہ اس زما نے کی بات ہے جب ڈاکٹر ایس ایم زمان کونسل کے سر براہ تھے ۔ اب تو حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل جمعیت ا لعلمائے اسلام کے حوالے کر دی ہے جو ا یک خاص مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے ۔لیکن اگر ڈاکٹر زمان کی سفارش مان لی جاتی اور باضابطہ قانانون بنا دیا جا تا تو آج جس صورت حال کاہمیں سامنا ہے وہ پیش نہ آتی ۔ لیکن ہم یہ کس سے کہہ رہے ہیں؟ ۔ سب ڈرے ہوئے ہیں ۔ سب سیاست کررہے ہیں۔ ایک کو یہ فکر ہے کہ کہیں اس کی حکومت نہ چلی جائے ۔ اور دوسرے اس فکر میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حکومت پر قبضہ کر لیا جا ئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کی اکثریت الیکشن میں انہیں کبھی کامیاب نہیں ہو نے دے گی ۔کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ اس ملک کا کیا ہو گا۔ اس معاشرے اور اس کے ان شہریوں کا کیا ہو گا جو نئے ز ما نے کے ساتھ چلنا چا ہتے ہیں۔
ہم کس سے کہیں ؟… آئینہ…مسعود اشعر
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=497838
Calling 295-C as ‘black-law’ is not blasphemy: Qadri’s lawyer
Daily Times Monitor
LAHORE: Waheed Anjum, counsel for Mumtaz Qadri, has said calling section 295-C, as the ‘black law’ was not blasphemy, a private TV channel reported on Friday.
Speaking in a programme, Rawalpindi Bar Association President Waheed Anjum said that 302 and 295-C are man-made laws and calling such laws, as ‘black-laws’ didn’t fall into the category of blasphemy. The Pakistan Penal Code section doesn’t have any provision which can implicate a person, who threatens others to kill over the blasphemy issue, he said.
He said there was no law to kill or threaten a person for blasphemy. He said section 506 could be applicable on a person who hurls death threat on others.
He added that section 302 would be imposed on the person who kills somebody over the blasphemy issue, for which there is capital punishment or life imprisonment. Anjum said article 302-C would be imposed on Qadri, who killed former Punjab governor Salmaan Taseer for terming the blasphemy law as ‘black law. He said Qadri didn’t have any enmity with Taseer. He said that the court would decide about the case after considering the evidences, the channel reported.
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=20111\15\story_15-1-2011_pg1_6
Gift from “Ghazi Mumtaz Hussain Qadri” to Pakistani Muslims
Sunni Tehreek demolishes Masjid & Commit Blasphemy
http://www.youtube.com/watch?v=GXPqqJeNFWw&feature=channel_video_title
plz describe the blasphemy law in full and also describe the amendments which should be under taken.?