A survey of blasphemy laws in Muslim countries – by Wusatullah Khan
Related article: Namoos-e-risalat or namoos-e-zia-ul-haq? – by Abbas Ather
کاش انہیں ضیا مل جائے
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
اس کرہِ ارض کی آبادی چھ ارب نوے کروڑ ہے۔اس میں ایک ارب ستاون کروڑ مسلمان ہیں۔ یعنی دنیا کے ہر چوتھے شخص کی وابستگی اسلام سے ہے۔ باون ممالک اور خطوں میں اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔ اس دنیا کے تریپن فیصد مسلمان پندرہ ممالک میں بستے ہیں۔
(ایک)
انڈونیشیا کی پچیس کروڑ آبادی میں سے چھیاسی فیصد کلمہ گو ہیں۔انیس سو پچھتر میں قائم ہونے والی انڈونیشین علما کونسل شرعی قوانین کے نفاز میں حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔دو ہزار چھ میں انڈونیشیا میں چھ مذاہب کو سرکاری عقیدہ تسلیم کیا گیا۔اسلام ، کیتھولک ازم، پروٹسٹنٹ ازم ، بدھ ازم ، ہندو ازم اور کنفیوشس ازم۔انڈونیشیا کے پینل کوڈ کے آرٹیکل ایک سو چھپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔
( دو)
ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے
انڈونیشیا کے ہمسایہ ملک ملیشیا میں ستر فیصد آبادی مسلمان ہے۔سیکولر عدالتوں کے ساتھ ساتھ شرعی عدالتی نظام بھی کام کرتا ہے۔ملیشین وفاق میں شامل کئی ریاستوں میں قانون سازی کا ماخذ شریعت ہے۔وفاقی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اور دو سو اٹھانوے اے کے تحت توہینِ مذہب کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید اور ایک ہزار امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ ہے۔
(تین)
ملیشیا سے ذرا پرے آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا مسلمان ملک بنگلہ دیش ہے۔پندرہ کروڑ میں سے تراسی فیصد آبادی کلمہ گو ہے۔انیس سو ترانوے میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش نے ایک قانونی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جس کے تحت پاکستان کی طرز پر توہینِ قرآن و رسول پر عمر قید اور سزائے موت تجویز کی گئی۔لیکن یہ بل مسترد ہوگیا۔اس وقت بنگلہ دیشی پینل کوڈ کے آرٹیکل دو سو پچانوے اے کے تحت توہینِ مذہب پر پانچ برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔
( چار)
افغانستان کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سن دو ہزار چار میں نافذ ہونے والے آئین کے تحت عدالتیں جرم کی سنگینی کے حساب سے توہینِ مذہب پر سزائے موت تک دے سکتی ہیں۔لیکن اگر مجرم سزا سنائے جانے کے تین روز کے اندر اظہارِ پشیمانی کرے تو سزا ساقط بھی ہوسکتی ہے۔
( پانچ)
ایران میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں
ایران کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے اور ملکی قوانین کا ماخذ فقہِ جعفریہ ہے۔ایرانی پینل کوڈ میں توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی شق نہیں بلکہ اسلامی حکومت کی مخالفت ، توہینِ مذہب اور اکثریتی عقیدے سے متصادم مواد کی اشاعت پر سزاؤں کو ایک ہی خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ان میں سے کسی جرم پر بھی اس کی سنگینی کے اعتبار سے سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔
(چھ)
سعودی عرب کی لگ بھگ سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔سعودی پینل کوڈ حنبلی مکتبہِ فکر کے تحت بنائے گئے شرعی قوانین ، فتاوی اور شاہی فرمانوں اور ان کے تحت وقتاً فوقتاً بنائے جانے والے ذیلی ضوابط کا مجموعہ ہے۔توہینِ مذہب حدود کے دائرے میں آتا ہے۔ جرم کی سنگینی کے اعتبار سے جرمانے ، کوڑوں ، قید یا موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بادشاہ پشیمانی ظاہر کرنے پر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے۔
(سات)
سعودی ہمسائے یمن کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔اسلام سرکاری مذہب ہے۔توہینِ مذہب کے مقدمات کا فیصلہ شرعی قوانین کے تحت کیا جاتا ہے اور جرم کی سنگینی کے اعتبار سے کوڑوں اور قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
( آٹھ)
متحدہ عرب امارات کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام سرکاری و نجی سکولوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم لازمی ہے۔توہینِ مذہب پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔لیکن انیس سو ترانوے میں وفاقی سپریم کورٹ کی دی گئی رولنگ کے مطابق شرعی سزاؤں کا اطلاق غیر مسلمانوں پر نہیں ہوگا۔
( نو)
کویت میں قانون سازی کا منبع شریعت ہے۔ لیکن توہینِ مذہب کا معاملہ انیس سو اکسٹھ کے پریس اینڈ پبلیکشنز لا کا حصہ ہے۔ کوئی بھی تحریر و تقریر جس سے مذہب یا مقدس شخصیات کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو اس پر جرمانے یا قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
( دس)
اردن کی پچانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ توہینِ مذہب کے قانون کے تحت تین برس تک قید اور جرمانے کی سزا ہے۔
( گیارہ)
ترکی کی ساڑھے سات کروڑ کی آبادی میں پچاسی فیصد مسلمان ہیں۔ ملک پر پچھلے دو ادوار سے اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ توہینِ مذہب کے لئے علیحدہ سے کوئی قانون نہیں ہے۔ البتہ ترک پینل کوڈ میں دو ہزار پانچ میں شامل کئے گئے آرٹیکل تین سو ایک کے تحت ترک قوم اور اس کی اقدار، ریاست، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کی ہتک پر چھ ماہ سے دو برس تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
( بارہ)
مصر کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ سرکاری مذہب اسلام ہے۔ تمام نجی و سرکاری سکولوں میں اسلامک سٹڈیز لازمی مضمون ہے۔ ہر مصری شہری کے شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بھی ہے۔ جامعہ الازہر کی اسلامک ریسرچ کونسل مذہبی امور پر حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کونسل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی مذہبی کتاب شائع نہیں ہوسکتی۔ سن دو ہزار چھ میں بننے والے توہینِ مذہب کے قانون کے تحت چھ ماہ تا پانچ برس قید اور ایک ہزار پاؤنڈ جرمانے تک سزا ہوسکتی ہے۔
( تیرہ)
الجزائر کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہے۔ انیس سو نوے کے ایک قانون کے تحت وزارتِ مذہبی امور ایسی کسی بھی شے کی اشاعت کو روک سکتی ہے جس سے توہین مذہب کا پہلو نکلتا ہو۔ پینل کوڈ کے تحت مذہبی اہانت پر دو سال تک قید اور پانچ لاکھ دینار تک سزا ہے۔
( چودہ)
نائجیریا کی ساڑھے بارہ کروڑ آبادی میں پچھتر فیصد مسلمان ہیں۔ ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شرعی و سیکولر عدالتی نظام کام کرتا ہے۔ پینل کوڈ کی شق دو سو چار کے تحت توہینِ مذہب کی سزا دو برس تک ہے۔
( پندرہ )
سوڈان کی چار کروڑ تیس لاکھ آبادی میں ستر فیصد مسلمان ہیں۔کرمنل ایکٹ کے سیکشن ایک سو پچیس کے تحت توہینِ مذہب کے مجرم کو جج جرم کی نوعیت دیکھتے ہوئے جرمانے ، قید یا چالیس کوڑوں کی سزا دے سکتا ہے۔
پاکستان کی سترہ کروڑ آبادی میں مسلمان ستانوے فیصد ہیں۔ پاکستان کے پینل کوڈ کی دفعہ ایک سو تریپن اے کے تحت توہینِ مذہب اور مذہبی منافرت پھیلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ برس قید ہے۔ دفعہ دو سو پچانوے کے تحت مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ قابلِ تعزیر جرم ہے۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے اے کے تحت زبان یا قلم سے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قید ، جرمانے یا اشاعت شدہ مواد کی ضبطی ہوسکتی ہے۔ اس دفعہ کے تحت قرآن سمیت تمام الہامی کتابیں اور رسولِ اکرم سمیت تمام انبیا کی توہین کا احاطہ ہوتا ہے۔
تیس برس تک چار گورنر جنرل ، چار فوجی و غیر فوجی صدور اور آٹھ وزرائے اعظم اور تمام دینی و سیاسی جماعتیں انہی تین دفعات کو احترامِ مذہب کے لئے کافی سمجھتے رہے۔ محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ دفعات ناکافی ہیں۔اگر خیال آیا تو تیسرے فوجی آمر ضیا الحق کو۔ جس نے دفعہ دو سو پچانوے اور دو سو پچانوے اے کے ہوتے ہوئے بھی دو سو پچانوے بی کا اضافہ کیا جس کے تحت قرانِ کریم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی سزا عمر قید رکھی۔ (تورات ، زبور اور انجیل سمیت کسی اورالہامی کتاب یا صحیفےپر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا)۔ جبکہ دفعہ دو سو پچانوے سی کے تحت رسولِ اکرم کی براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں یا کنایوں میں توہین کی کم ازکم سزا موت رکھی۔( اس دفعہ کے دائرے میں دیگر انبیائے کرام نہیں آتے)۔
ضیاالحق کے دور میں ملک میں کلاشنکوف اور ہیروئین کی بیماریاں پھیلیں
یوں ضیا الحق نے پاکستان کو دنیا کا واحد مسلمان ملک بنا دیا جہاں توہینِ مذہب کا قانون پہلے سے نافذ ہوتے ہوئے بھی الہامی کتابوں اور انبیائے کرام کی توہین کو نئی درجہ بندی میں بانٹ دیا گیا اور شاہ خالد بن عبدالعزیز کے مشیر ڈاکٹر معروف دوالبی ، شریف الدین پیرزادہ ، اے کے بروہی ، ڈاکٹر تنزیل الرحمان ، جسٹس افضل چیمہ اور مولانا ظفر احمد انصاری وغیرہ کی رہنمائی میں مرتب کردہ حدود اور توہینِ مذہب کے قوانین کے مسودات کو الہامی دستاویزات کے مساوی سمجھ لیا گیا۔
چنانچہ ضیا الحق کے بعد آنے والی جس حکومت نے بھی اس قانون کے انتقامی استعمال کو روکنے کے لئے ترمیم کی بات کی اسے شریعت دشمن قرار دیا گیا۔ترمیم تو کجا اس قانون کے تحت ہونے والی زیادتیوں کی جانب اشارہ بھی گناہِ کبیرہ اور لائقِ قتل قرار پایا۔زیریں عدالتیں ہجوم کے دباؤ میں آتی چلی گئیں۔اور مقدمے کے دوران یا با عزت بری ہونے کی صورت میں بھی ملزموں کو یا تو قتل ہونا پڑا ، یا چھپنا پڑا یا ملک چھوڑنا پڑا۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میں اکتیس برس سے نافذ توہینِ مذہب کا قانونی مسودہ واقعی الہامی حیثیت رکھتا ہے تو پھر سعودی عرب اور ایران سمیت دنیا کا کوئی اور مسلمان ملک اب تک اسے اپنا ماڈل نا بنا کر اسکے فیوض و برکات سے کیوں محروم ہے۔
تو کیا پاکستان کے علاوہ باقی مسلمان ممالک اور حکومتوں کا عقیدہ کمزور یا گمراہ ہے یا وہ اسلام کی اس تشریح کو سمجھنے سے قاصر ہیں جسے پاکستانی مسلمانوں کا ایک طبقہ درست سمجھتا ہے۔
پاکستان میں دنیا کی کل مسلمان آبادی کا صرف گیارہ فیصد بستا ہے۔اس گیارہ فیصد میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں جو انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور نائجیریا کو بھی نصیب نہیں۔ حلانکہ ان تین ممالک میں مجموعی طور پر ساڑھے باون کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں۔
کاش انہیں بھی کوئی ضیا نصیب ہو جائے ۔کاش ان کی بھی زندگی اور آخرت سنور جائے ۔۔
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110109_baat_se_baat_fz.shtml
توہینِ رسالت قانون: ساڑھے نو سو مقدمات
پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون کے تحت مقدمات کا ریکارڈ رکھنے والے اداروں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اِس قانون کے غلط استعمال نے نا صرف غیرمسلم اقلیتوں بلکہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر اس قدر سنگین الزامات عائد کرنا، جن میں سے بیشتر ابتدائی پولیس تحقیق ہی میں ثابت نہیں ہو سکے، ملک میں مختلف فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت کا پتہ دیتی ہے۔
توہینِ رسالت کے قانون پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق اِس قانون کے تحت اب تک ملک میں ساڑھے نو سو سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر عیسائی، ہندو یا احمدی نہیں بلکہ مسلمان شہریوں کے خلاف ہیں۔
توہینِ رسالت کے قانون پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق اِس قانون کے تحت اب تک ملک میں ساڑھے نو سو سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر عیسائی، ہندو یا احمدی نہیں بلکہ مسلمان شہریوں کے خلاف ہیں۔
ساڑھے نو سو میں سے چار سو اسی مقدمات مسلمانوں کے خلاف اور ساڑھے تین سو کے قریب احمدی فرقے کے ارکان کے خلاف درج کیے گئے ہیں۔
عیسائیوں کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات کی تعداد ایک سو بیس کے قریب جبکہ ہندو شہریوں کے خلاف صرف چودہ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے میں جتنے مقدمات درج ہوئے وہ اُن درخواستوں کا پانچواں حصہ بھی نہیں تھے جو اس طرح کے مقدمات درج کروانے کے لیے پولیس کے پاس دائر کی گئیں یعنی توہینِ مذہب اورتوہینِ رسالت کے قانون کے تحت دائر کی گئی چار ہزار درخواستیں پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد بالکل ہی بے بنیاد ہونے کی بنا پر مسترد کر دیں۔
یہ بات بھی ماہرین کے نزدیک قابل بحث ہے کہ جو مقدمات دائر ہوئے اُن میں سے کتنے حقائق کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ انیس سو چوراسی سے لے کر، جب توہینِ مذہب کا قانون پہلی بار پاکستان کے قانون کا حصہ بنا، ابھی تک کسی ایک ملزم کے خلاف بھی عدالتی عمل مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ یعنی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کسی ملزم کو توہینِ رسالت کے قانون کے تحت سزا نہیں دی ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے میں جتنے مقدمات درج ہوئے وہ اُن درخواستوں کا پانچواں حصہ بھی نہیں تھے جو اس طرح کے مقدمات درج کروانے کے لیے پولیس کے پاس دائر کی گئیں یعنی توہینِ مذہب اورتوہینِ رسالت کے قانون کے تحت دائر کی گئی چار ہزار درخواستیں پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد بالکل ہی بے بنیاد ہونے کی بنا پر مسترد کر دیں۔
انسانی حقوق سے متعلق ایک غیر سرکاری ادارے میں توہینِ رسالت قانون پر تحقیق کرنے والے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اِس قانون کے معرضِ وجود میں آنے کے ابتدائی چند سالوں میں یہ قانون صرف احمدی فرقے کے ارکان کے خلاف استعمال کیا گیا جنہیں تازہ تازہ حلقہ اسلام سے خارج کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق نوے کی دہائی کے بعد سب سے زیادہ مقدمات عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف درج کیے گئے۔
سنہ دو ہزار کے بعد پاکستان میں توہینِ رسالت و مذہب کے الزام کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا۔ اور یہ رجحان پاکستانی معاشرے میں اُس دور میں پروان چڑھنے والے رویوں کی مکمل طور پر عکاسی کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کے اعدا و شمار بتاتے ہیں کہ سنہ دو ہزار کے بعد سے اس قانون کے تحت سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف درج کیے گئے۔ جتنے مقدمات درج کیے گئے اس سے پانچ گنا زیادہ درخواستیں دائر کی گئیں جن میں سے بیشتر مسلمانوں کے ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مخالف فرقے کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔
یہ وہی دور ہے جب پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے عروج حاصل کیا۔
اس رجحان کی تازہ ترین مثال ڈیرہ غازی خان کے اُن امام مسجد کی ہے جنہیں مخالف فرقے کے ایک اجتماع کا پوسڑ پھاڑنے پر اُن کے بیٹے کے ہمراہ چالیس سال کی سزا سنائی گئی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110114_blasphemy_cases_rwa.shtml
Abbas Ather’s article based on Wusatullah Khan’s research
http://express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1101144334&Issue=NP_LHE&Date=20110114
Only five out of 54 Muslim states have tough blasphemy laws
Wednesday, January 12, 2011
By Umar Cheema
ISLAMABAD: Religious scholars and lawyers, who have unequivocally supported the blasphemy law in its existing shape, said that similar laws that carry capital punishment for blasphemers are being practised in hardly five Islamic countries out of 54.
All of those interviewed affirmed such laws exist at least in two Islamic countries: Pakistan and Saudi Arabia, but were not certain of the exact number of countries governed by such stringent legislation as one of them said it is also being practised in Iran, Sudan and Afghanistan.
One religious scholar, explaining the absence of such laws in other Islamic countries, said it was due to the fact that these countries were set up on the basis of nationalism, not on ideological grounds like Pakistan.
Ibtisma Elahi Zaheer, secretary general of Jama’t Ahl-e-Hadith Pakistan, Ismail Qureshi Advocate and Rao Abdul Raheem, the counsel of Mumtaz Qadri, the assassin of Governor Salman Taseer, were interviewed for the purpose. Sahibzada Fazl Karim, a leading figure of Tuhaffaz-e-Namoos-e-Risalat, couldn’t be reached for his version in this respect.
Ibtisam affirmed the presence of such laws in Saudi Arabia but was not certain about their existence in Afghanistan under the new Constitution, though it was practised there in the past. Asked why the stringent legislation was not enacted in other Muslim countries, Ibtisam said majority of the countries in the Islamic bloc were formed on the basis of nationalism hence they didn’t form such strict laws.
Another prominent scholar on the issue interviewed was Ismail Qureshi Advocate, who took the blasphemy law to the Sharia Court that resulted in the ruling that blasphemer would be awarded death sentence, deleting the option of life imprisonment, told The News that blasphemy law requiring death sentence for the offender, exists in Saudi Arabia, Pakistan and Afghanistan. Though he mentioned UAE in the list of such countries, he was not certain whether it is practised there.
A study of Egyptian Constitution however found that the minimum sentence for such an offender is six months and maximum five years. Article 98(f) of the Penal Code of Egyptian Constitution, as amended by Law 147/2006 states the penalty for blasphemy and similar crimes states: “Confinement for a period of not less than six months and not exceeding five years, or a fine of not less than five hundred pounds and not exceeding one thousand pounds shall be the penalty inflicted on whoever makes use of religion in propagating, either by words, in writing, or in any other means, extreme ideas for the purpose of inciting strife, ridiculing or insulting a heavenly religion or a sect following it, or damaging national unity.”
As regards Afghanistan, the issues relating to blasphemy are governed by Sharia permitting capital punishment for such an offender.
Besides Egypt and UAE, there are several other Muslim countries that have blasphemy laws but no capital punishment for the offenders. For example, Algeria was the only country other than Pakistan that had moved the United Nations for legislation on blasphemous acts, but its Constitution doesn’t permit death sentence for blasphemers. This country’s law prohibits blasphemy using legislation rather than applying Sharia laws. The penalty for blasphemy may be imprisonment as well as a fine.
Likewise, in Jordan, the punishment for this crime is imprisonment, not death sentence. For example, Jihad Momani, a Jordanian journalist, published three of the cartoons in the Shihan weekly, along with an editorial calling on Muslims to be reasonable. He was fired from job and arrested later on but was not awarded capital punishment.
In Malaysia, the Constitution’s sections 295-298A of the Penal Code punish offences against all religions with up to three years in prison or a fine of around US$1,000. Indonesian Constitution’s section 156(a) of the Criminal Code prohibits conduct that affronts a “recognised religion” (identified as Islam, Buddhism, Hinduism, Roman Catholicism or Protestantism). But this largest Islamic country doesn’t have capital punishment as sentence for the blasphemer but imprisonment up to five years as well as fine. Analysts say if someone commits blasphemy in writing and persistently owns his writing that person must be punished under the law.
http://www.thenews.com.pk/TodaysPrintDetail.aspx?ID=3266&Cat=13&dt=1/12/2011