Mumtaz Qadris are everywhere – by Altaf Ahmad
I am ashamed of being a Pakistani today.
I still remember the day a foreign firm that I worked with online for 2 years offered me to join their office at Warsaw. They were willing to increase my pay and bear my travel expenses. I decided not to go as I thought if I remain in my country I will create jobs for my fellow country men and would bring the entire foreign currency to my country.
I have always been the optimistic one even at the most scariest time I used to remain positive and always thought that soon things would be alright. I always use to focus on the brighter side of things and same was with my country. No matter how grave the situation would get I always trusted my state and its different pillars safeguarding it. I always believed in the people of this country that they can do better than this, if they are provided the right platform.
Today’s tragic incident (assassination of Governor Salman Taseer) has completely changed my views. I now feel that staying back in Pakistan was a wrong decision. I mean a person who is a sitting Governor is not safe rather he gets assassinated after expressing his views regarding a mere controversial law added to constitution by worst dictator ever. So how can I be sure that someday I wouldn’t meet the same fate, if someday I annoy some other Mumtaz Qadri with my views?
This killer would soon meet his well deserved fate but Mumtaz Qadris are every where, they are in our schools, bazaars, mosques, madrassas, universities, colleges, offices, law enforcing agencies, political parties and especially media and if we roughly and/or honestly calculate, every second person that we deal in our daily life is a Mumtaz Qadri….
I always used to defend my country; its institutions no matter how unpopular that view was but how can I defend this… The nature of the act and thought behind this heinous act puts a lot of question marks on our national character and identity. I literally have no courage now left to walk with my head held high and say that I’m proud of my country.
A country where the chief power-holder (military establishment) has heavily invested in religious fanaticism for their specific jihadi agendas in Afghanistan and Kashmir, where politicians are scared to confront forces of religious and sectarian extremism, where media persons are hand in glove with the security establishment, where schools, colleges, mosques, madrassahs, newspapers and TV channels are cultivating a twisted version of history, Pakistan and Islam, the presence of Mumtaz Qadris is a norm, not an anomaly.
Malik Mumtaz Qadri’s statement (Samaa TV)
قتل کی یہ واردات اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس کی کوہسار مارکیٹ میں ہوئی جہاں ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار نے ان پر گولیاں برسا دیں۔
ادھر وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کی ہلاکت سکیورٹی اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے ہوئی۔ واقعے کی جگہ کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حملہ آور نے محرر سے کہہ کر اپنی ڈیوٹی گورنر پنجاب کے حفاظتی سکواڈ میں لگوائی تھی۔
رحمان ملک نے کہا کہ جب سلمان تاثیر ریستوران سے پیدل نکلے تھے تو ان کے اردگرد سکیورٹی اہلکاروں کا گھیرا ہونا چاہیے تھا تاہم ایسا نہیں ہوا اور سکیورٹی اہلکار گاڑیوں میں بیٹھے رہے اور انہیں گاڑیوں میں سے ایک میں سے حملہ آور نے نکل کر گورنر کو نشانہ بنایا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سٹی سرکل کے ایس ڈی پی او احمد اقبال نے بتایا ہے کہ گورنر پنجاب کوہسار مارکیٹ میں واقع ایک ریستوران میں کھانا کھانے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ ان کے ایک محافظ نے ان پر فائرنگ کی۔
سلمان تاثیر پیر کو ہی اسلام آباد آئے تھے
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے سلمان تاثیر پر سرکاری گن سے فائرنگ کی۔
پولیس حکام کے مطابق حملہ آور کا نام محمد ممتاز قادری بتایا ہے جو گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصے سے گورنر پنجاب کی سکیورٹی پر تعینات تھا۔
سلمان تاثیر کو فوری طور پر پولی کلینک ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ انتقال کرگئے۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی لاش کا پوسٹمارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کے جسم پر 27 گولیوں کے نشانات تھے۔ ڈاکٹر محمد فرخ کا کہنا تھا کہ سلمان تاثیر کو پیچھے سے گولیاں ماری گئیں۔ اس کے علاوہ اُنہیں گردن پر جو دو گولیاں لگیں وہ اُن کی موت کا سبب بنی۔ اُنہوں نے کہا کہ سلمان تاثیر کے پھیپڑے بھی گولیوں سے متاثر ہوئے۔
فائرنگ کے واقعے کے فوراً بعد پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔
ملک ممتاز حسین قادری جن کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے سلمان تاثیر کا قتل کیا
گورنر پنجاب سلمان تاثیر پر قاتلانہ حملہ کرنے والے پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے کانسٹیبل محمد ممتاز قادری راولپنڈی کے علاقے مسلم ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق وہ سنہ اُنیس سو پچاسی میں پیدا ہوئے اور سنہ دو ہزار دو میں ایلیٹ فورس میں شمولیت اختیار کی۔ ملزم ممتاز قادری اس سے پہلے بھی گورنر پنجاب کے حفاظتی دستے میں تعینات رہے تھے۔ ملزم کا رجحان مذہب کی طرف تھا جب وہ پولیس میں بھرتی ہوا تو اُس نے داڑھی رکھی تھی جسے ایک سال قبل مُنڈوا دیا تھا تاہم اُن کے ساتھیوں کی طرف سے اس عمل پر مذمت کی گئی جس پر اُنہوں نے دوبارہ داڑھی رکھ لی تھی۔
پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تحقیقاتی ٹیم میں شامل کچھ ارکان ملزم کے اہلخانہ کو اُٹھا کر اسلام آباد لے آئے ہیں جہاں پر اُنہیں تحقیقات کے سلسلے میں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم محمد ممتاز قادری کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور ان کے ساتھ ان کے والد اور بھائی کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممتاز قادری کے فون کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔
کوہسار مارکیٹ کے قریب واقع گورنر پنجاب کے گھر پر تعینات ایک سب انسپکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ گورنر پنجاب پیر کو اسلام آباد آئے تھے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی میں ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ حملہ آور کو گرفتار کرنے کے علاوہ گورنر کی سکیورٹی پر تعینات تمام اہلکاروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پنجاب پولیس کے ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں سلمان تاثیر کے ذاتی گھر اور پنجاب ہاؤس میں ایلیٹ فورس کے دو سیکشن تعینات کیے گئے تھے جن میں پولیس اہلکاروں کی تعداد چودہ تھی۔
رحمان ملک نے کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حراست میں لیے گئے ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے یہ حملہ اس لیے کیا کہ گورنر پنجاب نے ناموسِ رسالت قانون کو ایک کالا قانون کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس نقطے کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ ایک انفرادی عمل ہے یا اس کے پیچھے کوئی ہے۔
رحمان ملک کا کہنا تھا کہ گورنر کی سکیورٹی پنجاب پولیس فراہم کرتی ہے ان سے معلوم کیا جائے گا کہ جو لوگ انہیں تحفظ کے لیے فراہم کیے گئے کیا ان کی جانچ پڑتال ہوئی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’فورس میں جتنے بھی لوگ ہوتے ہیں خاص طور پر جو وی آئی پیز کو دیے جاتے ہیں ان کی پہلے تحقیقات ہوتی ہے اور پولیس کی سپیشل برانچ اس بارے میں رپورٹ دیتی ہے کہ ان میں سے کس کا تعلق کس فرقے سے ہے یا اس کے کیا خیالات ہیں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110104_salman_taseer_dead_zs.shtml
مذہب کے نام پر
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان میں شدت پسندی کے رحجان کے پھیلاؤ سے مذہب کے نام پر ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں مذہب کے نام پر گورنر پنجاب سلمان تاثر پہلی اہم شخصیت نہیں ہیں اور نہ شاید آخری ہوں جنہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پاکستان میں شدت پسندی کے رحجان کے پھیلاؤ سے ان ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سلمان تاثیر اگر ناموس رسالت قانون میں ترمیم کی بات کرتے ہلاک ہوئے ہیں تو مذہبی رہنما مفتی سرفراز احمد نعیمی کو لاہور میں جبکہ جعمیت علماء اسلام کے مولانا حسن جان کو پشاور میں خودکش حملوں کی مبینہ مخالفت کی پاداش میں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
تاہم پیپلز پارٹی کے ابتدا میں انکار اور اب تائید سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ملک کی ایک بڑی سیاسی شخصیت یعنی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سیاسی سے زیادہ مذہبی تھی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا موقف اگر اب مانا جائے تو اس قتل کی تمام تر ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما بیت اللہ محسود کے سر ہے۔ بیت اللہ محسود بعد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
خیبر پختونخوا کی بڑی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفندیار ولی تاہم خوش قسمت تھے کہ خودکش حملے میں محفوظ رہے لیکن ان کی جماعت کے عالم زیب خان کی طرح کے کئی رہنما شدت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے صاحبزادے کا قتل بھی شامل ہے۔
اسی صوبے میں پولیس کو بھی شدت پسندوں کی جانب سے دو اعلی ترین افسران کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ یہ دو اعلیٰ شہرت کے حامل افسر صفوت غیور اور ملک سعد تھے۔
مردان میں مقیم ڈاکٹر محمد فاروق جوکہ سوات یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اپنے معتدل اسلامی نظریات کی وجہ سے گزشتہ دنوں ہلاک ہوئے۔ لیکن اسی ملک میں جاوید احمد غامدی جیسے مذہبی رہنما بھی ہیں جنہیں اپنے نظریات کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا ہے
فروری دو ہزار سات کو پنجاب کی وزیر برائے سماجی بہبود ظل ہما عثمانکو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ عورتوں کا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی اور مردوں کو محکوم بنانے کی کوشش ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110104_religious_killings_haroon_ha.shtml
سلمان تاثیر: پیپلز پارٹی کے نڈر کارکن
سلمان تاثیر حال ہی میں توہینِ رسالت کے قانون پر اپنے بیان کی وجہ سے متنازعہ بن گئے تھے
اسلام آباد میں ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے گورنر پنجاب پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر کارکن تھے اور بھٹو خاندان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔
سلمان تاثیر کو پندرہ مئی 2008 کو پنجاب کا گورنر بنایا گیا تھا۔
سلمان تاثیر نے اپنا سیاسی سفر 1960 کی دہائی میں طالب علمی کے زمانے میں شروع کیا تھا۔ انہوں نے فوجی آمر جنرل ضیاء کے ہاتھوں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر ان کی گرفتاری اور پھانسی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ بھی لیا تھا۔
1980 میں انہوں نے اپنے مرحوم رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمری لکھی۔
سنہ انیس سو اٹھاسی میں جب بے نظیر بھٹو پہلی باراقتدار میں آئیں تو سلمان تاثیر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبے کی نواز شریف حکومت کی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد جب نواز شریف نے وفاق کا اقتدار سنبھالا تو سلمان تاثیر حکومت مخالف پیپلز پارٹی کی لانگ مارچ میں پیش پیش رہے اور گرفتار ہوکر جیل گئے۔اس زمانے میں کہا گیا کہ انہیں جیل میں خاص طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سنہ انیس سو ترانوے میں سلمان تاثیرنے پاکستان کرکٹ بورڈ میں خزانچی کے فرائض انجام دیے اور بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات کے مالی امور کے انچارج بھی رہے۔
سلمان تاثیر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں قاسم ضیاء اور میاں یوسف صلاح الدین کے عزیز اور برصغیر کے نامور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض کے بھانجے ہیں۔
سلمان تاثیر کے والد ڈاکٹر محمد دین تاثیر اس صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کے ایک بڑے شاعر، ادیب اور دانشور تھے۔ فیض احمد فیض کے ہم زلف ایم ڈی تاثیر کواپنی جوانی میں علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ وہ خوش گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی نکتہ رس نقاد بھی تھے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کی۔
سلمان تاثیر پیپلز پارٹی کے سینیئر کارکنان میں سے ایک تھے
حال ہی میں سلمان تاثیر اس وقت خبروں میں آئے جب انہوں نے توہینِ رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی عیسائی خاتون آسیہ سے جیل میں ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ وہ آسیہ کی جانب سے معافی نامہ لے کر صدر آصف علی زرداری کے پاس جا رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد اس پر دستخط کر دیں گے۔
پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں اٹاں والی کی رہائشی آسیہ کو چند روز قبل ننکانہ صاحب کی مقامی عدالت نے توہین رسالت کے الزام میں موت اور ایک لاکھ روپے کی سزا سنائی تھی۔ ان کے اس اقدام پر پنجاب کی مختلف شہروں میں ان کے خلاف جلوس نکالے گئے اور مذہبی جماعتوں کے اراکین نے مظاہرے بھی کیے۔
جب اس وقت ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا صدر صاحب کی جانب سے معافی ملنے سے مذہبی تصادم کا امکان تو نہیں تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا کہنا تھا ’نہیں ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ مذہب کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے اور اس میں مذہب کو نہیں لانا چاہتے اور قائداعظم محمد علی جناح کے دیئے گئے اصولوں کی مطابق پاکستان کو ایک روشن خیال اور ترقی پسند ملک بنانا چاہتے ہیں۔‘
اسی طرح ستمبر 2009 میں لاہور میں ایک تقریب میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ سیالکوٹ میں مبینہ طور پر توہین رسالت میں ملوث ایک مسیحی نوجوان کی ہلاکت کے بعد یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو ختم کیا جائے تو گورنر پنجاب نے جواب دیا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دو سوپچانوے سی کا قانون (توہین رسالت کا قانون) ختم ہونا چاہیے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110104_salman_taseer_profile_as.shtml
ہمیں آخر اپنے ملک میں دو فیصد سے بھی کم غیر مُسلموں سے اتنا خوف کیوں آتا ہے؟ آخر ہمیں اُس مہربان نبّی کی عزت کے نام پر گلے کاٹنے کا اِتنا شوق کیوں ہے جِس نے ایک قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا۔ آخر غازی عِلم دین شہید کو غازی اور شہید کہہ کر اپنے کونسے ڈر کو چھپا رہے ہیں اور اپنے اندر چھپے کس مجاہد کو دلاسا دے رہے ہیں؟
آخر ہم روزہ رکھنے سے لے کر سورج گرہن کے اسباب جانے کے لیے مفتی منیب الرحمٰن کے پاس کیوں بھاگے بھاگے جاتے ہیں؟
آخر ہمیں کس نے یقین دلایا کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو بچانے کے لیے قوم کی بیٹی آسیہ کا سر تن سے جدا کرنا ضروری ہے؟
اُسی اِسلام آباد شہر میں جہاں سلمان تاثیر کا قتل ہوا صِرف دو ہفتے پہلے ناموسِ رسالت کانفرنس میں کون کون شامل تھا۔ کیا اُس میں وہ لوگ شامل نہیں تھے جن کے پارٹی منشور میں ہر شیعہ، احمدی، ہندو، یہودی کو قتل کرنے کا عندیہ نہیں دیا گیا۔
آخر ہمیں اُس مہربان نبّی کی عزت کے نام پر گلے کاٹنے کا اِتنا شوق کیوں ہے جِس نے ایک قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا۔
کیا ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں، میڈیا میں اور سرکاری اداروں میں شامل نہیں ہیں؟ کیا ایسے لوگوں کے ساتھ ہم شادیوں اور مہندیوں میں کھانا نہیں کھاتے؟
سلمان تاثیر نے جو حد پار کی وُہ ہم سب کے اندر موجود ہے۔ کبھی کبھی ہم ڈرتے ہیں کہ ہم نے اس حد کے دوسری طرف تو قدم نہیں رکھ دیا؟ ہمیں اپنا ایمان اتنا کمزور لگتا ہے کہ اُس کی سلامتی کے لیے کسی کو قربانی کا بکرا بنانا ضروری ہے۔
اور اگر ہمارا دِل اِتنا کمزور ہے کہ ہم خود چُھری نہیں چلا سکتے تو چلانے والے کی مدح تو کر سکتے ہیں۔ وہ جو اپنے آپکو لبرل مسلمان سمجھتے ہیں وُہ زیادہ سے زیادہ اپنی ناک پکڑ کر مُنہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ کیا مفکرِ پاکستان علامہ اِقبال نے غازی عِلم دین شہید کے جنازے پر نہیں فرمایا تھا کہ یہ ان پڑھ ہم سے بازی لے گیا؟
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110104_hanif_taseer_piece_zs.shtml
سلمان تاثیر کو توہین رسالت پر قتل کیا، ندامت نہیں ملزم ممتاز حسین قادری
Updated at 2030 PST
اسلام آباد….گورنر پنجاب کے قاتل ممتازحسین قادری نے کہا ہے کہ اس نے سلمان تاثیر کو توہین رسالت پرقتل کیا ہے اور اپنے فعل پراسے کوئی ندامت نہیں۔ملزم ممتاز قادری سے راولپنڈی کے ایک ایس پی نے تفتیش کی ہے۔ پولیس کو دیے گئے بیان میں ممتاز قادری کہا ہے کہ اس نے دو سے تین دن پہلے فیصلہ کیا کہ سلمان تاثیر کو قتل کرے گا۔ملزم نے بیان میں کہا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کر کے گناہ کبیرہ کیا اور وہ سلمان تاثیر کو قتل کر کے مطمئن اور خوش ہے ۔ملزم نے کہا کہ اسے اپنے خاندان کا احساس ہے لیکن انہیں خدا کے حوالے کر دیاہے۔ذرائع کے مطابق ممتاز قادری یکم جنوری1985 میں پیدا ہوا ،2003 میں پنجاب کانسٹیبلری میں ملازمت اختیار کی اور2008 میں ایلیٹ فورس کی ٹریننگ لی۔ملزم ممتاز قادری نماز کا پابند اور ایلیٹ ٹریننگ سنٹر میں نعتیں بھی سنایا کرتا تھا۔دریں اثنا پولیس نے ملزم ممتازحسین قادری کے چاروں بھائیوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=107728
سلمان تاثیر کی گردن پر لگنے والی گولی موت کی وجہ بنی ،پوسٹ مارٹم رپورٹ
Updated at 2130 PST
اسلام آباد…گورنر پنجاب سلمان تاثیرکی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق انہیں27گولیاں لگی ہیں اور موت گردن پر لگنے والی گولی سے ہو ئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابقسلمان تاثیرکوتمام گولیاں پیچھے سے ماری گئیں جو جسم کے پچھلے حصے سے داخل ہوئیں اور جسم کے اگلے حصے سے باہر ہوئیں ۔سلمان تاثیرکی موت گردن پرلگنے والی گولی سے ہوئی جبکہ سلمان تاثیرکادل محفوظ تھا۔رپورٹ کے مطابق گورنر کو4سے5فٹ کے فاصلے سے گولیاں ماری گئیں۔
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=107733
The Ilam Din fiasco and lies about Jinnah by Yasser Latif Hamdani
Posted by AdminNovember 29, 2010
Jinnah’s record as a legislator tells us a different story altogether. He was an indefatigable defender of civil liberties. He stood for Bhagat Singh’s freedom and condemned the British government in the harshest language when no one else would
In the recent debate over the blasphemy law, a group of Jamaat-e-Islami-backed right-wing authors have come up with an extraordinary lie. It is extraordinary because it calls into question the professional integrity of the one man in South Asian history who has been described as incorruptible and honest to the bone by even his most vociferous critics and fiercest rivals, i.e. Mohammad Ali Jinnah. The lie goes something like this: ‘Ghazi’ Ilam Din ‘Shaheed’ killed blasphemer Hindu Raj Pal and was represented by Quaid-e-Azam at the trial who advised him to deny his involvement in the murder. ‘Ghazi’ and ‘Shaheed’ Ilam Din refused and said that he would never lie about the fact that he killed Raja Pal. Quaid-e-Azam lost the case and Ilam Din was hanged.
To start with, the story is entirely wrong. First of all, Jinnah was not the trial lawyer. Second, Ilam Din had entered the not guilty plea through his trial lawyer who was a lawyer from Lahore named Farrukh Hussain. The trial court ruled against Ilam Din. The trial lawyer appealed in the Lahore High Court and got Jinnah to appear as the lawyer in appeal. So there is no way Jinnah could have influenced Ilam Din to change his plea when the plea was already entered at the trial court level. Nor was Ilam Din exactly the ‘matchless warrior’ that Iqbal declared him to be — while simultaneously refusing to lead his funeral prayers. Indeed Ilam Din later filed a mercy petition to the King Emperor asking for a pardon.
The relevant case — in which Jinnah appeared — cited as Ilam Din vs. Emperor AIR 1930 Lahore 157 — makes interesting reading. It was a division bench judgement with Justice Broadway and Justice Johnstone presiding.
Jinnah’s contention was that the evidence produced before the trial court was insufficient and the prosecution story was dubious. To quote the judgement, “He urged that Kidar Nath was not a reliable witness because (1) he was an employee of the deceased and, therefore, interested. (2) He had not stated in the First Information Report (a) that Bhagat Ram (the other witness) was with him, and (b) that the appellant had stated that he had avenged the Prophet. As to Bhagat Ram it was contended he, as an employee, was interested, and as to the rest that there were variations in some of the details.”
The court rejected this contention. The judgement continues that “Mr Jinnah finally contended that the sentence of death was not called for and urged as extenuating circumstances, that the appellant is only 19 or 20 years of age and that his act was prompted by feelings of veneration for the founder of his religion and anger at one who had scurrilously attacked him.” The court rejected this contention as well referring to Amir vs. Emperor, which was the same court’s decision a few years earlier. Interestingly, the curious reference to 19 or 20 years deserves some attention. Why did Jinnah as one of the leading lawyers refer specifically to an argument that had been exploded by the same court only two years earlier? That only Mr Jinnah can answer and I do not wish to speculate. Perhaps he was trying to argue what Clarence Darrow had argued successfully a few years ago in the famous Leopold and Loeb case involving two 19-year old college students who had committed the ‘perfect crime’. Clarence Darrow’s defence converted a death sentence to a life sentence.
Another corollary of the argument forwarded by our right-wing commentators is that since Jinnah defended Ilam Din in this murder trial, he favoured the ‘death sentence for blasphemy’. It is an odd derivative even for average intellects that most Pakistani ultra-rightwingers and Islamists possess. First of all, it is quite clear that Jinnah did not defend the actions of Ilam Din. He had attacked the evidence on legal grounds. Second, it is clear that there was no confession and Jinnah did not ask Ilam Din to change his plea. Third, when the court rejected Jinnah’s contentions, Jinnah’s argument was simply that a death sentence was too harsh for a man of 19 or 20, with the obvious implication that sentence should be changed to life imprisonment.
We can only conjecture as to what Jinnah’s reasons as a lawyer and politician to agree to be the lawyer for the appellant before the high court were. In any event, a lawyer’s duty is to accord an accused the best possible defence. Just because a lawyer agrees to defend an accused does not mean that the lawyer concurs with the crime. One is reminded of the famous Boston Massacre in 1770 when British soldiers opened fire and killed five civilians who were protesting against them. The British soldiers hired John Adams as a lawyer, who got five of the accused acquitted, arguing that a sentry’s post is his castle. Does that mean that John Adams was in favour of British rule in the US? If so, it is rather ironic that he was the prime mover and the guiding spirit behind the American declaration of independence. Similarly, when Clarence Darrow defended Leopold and Loeb, was he in any way suggesting that the crime that those two young men had committed was justified?
Jinnah’s record as a legislator tells us a different story altogether. He was an indefatigable defender of civil liberties. He stood for Bhagat Singh’s freedom and condemned the British government in the harshest language when no one else would. In the debate on 295-A of the Indian Penal Code, a much more sane and reasonable law than our 295-B and 295-C, Jinnah had sounded a warning against the misuse of such laws in curbing academic freedoms and bona fide criticisms. I have quoted that statement in my previous two articles.
There cannot be any question that Jinnah the legislator would have balked at the idea that his defence of a murder convict is now being used by some people to justify a law that is ten times more oppressive and draconian than the one he had cautioned against. To this day, I have only found him alone to have had the courage to state in the Assembly on September 11, 1929: “If my constituency is so backward as to disapprove of a measure like this then I say, the clearest duty on my part would be to say to my constituency, ‘you had better ask somebody else to represent you’.”
http://www.gecolumns.com/2010/11/29/the-ilam-din-fiasco-and-lies-about-jinnah-by-yasser-latif-hamdani/
———-
The Ilm-ud- Din Narrative and Murder of Salman Taseer
by Raza Habib Raja
Every country and society has some heroes whose deeds are glorified so that the young can hopefully emulate them. In a society where Ilm-ud-Din has been made into a legend and a “Shaheed” rather than being called a murderer, murder of Salman Taseer is hardly a surprise. Mumtaz Qadri, in his head was going to Heaven and on his way to attaining the same legendary status when he fired shots at Salman Taseer.
The incident has shown that we need to reevaluate freedom of expression and the way it is regulated. Why do we allow the perpetuators of the religious propaganda to breed freely? Why do we try to narrate story of murderers like Ilm-ud-Din in a consecrated manner? By such narrations, we may not be converting the entire population into fanatics but nevertheless a critical mass is getting radicalized. And all what the hardliners need is that critical organized mass which is ready to even adopt violence.
Salamn Taseer even within his own party was an exception. He was one of the very few individuals who dared to out rightly criticize the blasphemy law and his opposition was coming at a time when even the Prime Minister had started to appease the hardliners. If and only if, all the moderate elements had supported Salman Taseer openly instead of bracketing his point of view as merely “personal”, at least concrete signals would have been given to the hard line elements.
To all others , for God sake let’s show collective courage. Majority is still moderate but totally helpless in front of an organized militant religious minority. And let’s not try to make heroes out of murderers like Ilm-ud-Din. We need a new set of heroes and ideals.
http://pakteahouse.net/2011/01/04/the-ilm-ud-din-narrative-and-murder-of-salman-taseer/#more-11482
سلمان تاثیر نے جو حد پار کی وُہ ہم سب کے اندر موجود ہے۔ کبھی کبھی ہم ڈرتے ہیں کہ ہم نے اس حد کے دوسری طرف تو قدم نہیں رکھ دیا؟ ہمیں اپنا ایمان اتنا کمزور لگتا ہے کہ اُس کی سلامتی کے لیے کسی کو قربانی کا بکرا بنانا ضروری ہے۔
اور اگر ہمارا دِل اِتنا کمزور ہے کہ ہم خود چُھری نہیں چلا سکتے تو چلانے والے کی مدح تو کر سکتے ہیں۔ وہ جو اپنے آپکو لبرل مسلمان سمجھتے ہیں وُہ زیادہ سے زیادہ اپنی ناک پکڑ کر مُنہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ کیا مفکرِ پاکستان علامہ اِقبال نے غازی عِلم دین شہید کے جنازے پر نہیں فرمایا تھا کہ یہ ان پڑھ ہم سے بازی لے گیا؟
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110104_hanif_taseer_piece_zs.shtml
The society will continue to produce these fanatics when we will make heroes out of murderers like ilam din.
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نےگورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز حسین قادری کو ایک روزہ راہدری ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیاہے۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ملزم کو راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔
ملزم ممتاز قادری کو پولیس کے کڑے پہرے میں کمرۂ عدالت میں لایا گیا جہاں پر موجود وکلاء نے نہ صرف اُن کو پھولوں کے ہار پہنائے بلکہ اُن پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کی گئیں اور اُن کے حق میں نعرے لگائے گئے۔
اسلام آباد سے نامہ نگار شہزاد کے مطابق ایک وکیل خُرم قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن سمیت تین سو وکلاء نے ممتاز حسین قادری کے مقدمے کی پیروری کرنے کے درخواست دی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کسی شخص کو بھی ناموسِ رسالت قانون کی بےحرمتی یا اُس میں ترمیم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ واضح رہے کہ خُرم قریشی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں گرفتار ہونے والے ایک ملزم شیر زمان کے بھی وکیل ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے گورنر پنجاب کے بیٹے شہریار ثاثیر کی درخواست میں ملزم ممتاز حسین قادری کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ درخواست میں اُنہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ اُن کے والد کو مذہبی سیاسی گروہوں کی سازش کا نشانہ بنایا گیا اور یہی گروہ اُن کے والد کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/01/110105_qadri_remand_rza.shtml