گول مول موقف نہیں چلے گا – عامر حسینی
Memphes Barker
میفس بارکر کے مضامین کا لب لباب بتاتا ہے کہ وہ نیولبرل ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ برطانیہ کے ایسے اخبارات میں چھپتا ہے جو برطانیہ کی حکومتوں چاہے وہ آج کی ٹوری پارٹی ہو یا ماضی کی ٹونی بلئیر کی رائٹ ونگ قیادت کے ساتھ لیبر پارٹی ہو کی دائیں سمت کی پالیسوں کی سپورٹ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان حکومتوں کے دوسرے ممالک جیسے مڈل ایسٹ میں عراق، شام، لیبیا اور جنوبی ایشیا میں افغانستان کے اندر فوجی یا پراکسی مداخلتوں کی پالیسی کو سپورٹ کرتے ہیں۔
میفس بارکر کے آرٹیکلز پڑھنے سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہوتی کہ وہ اپنی سوچ میں پاکستان کے دیسی کمرشل لبرل سیکشن کے خیالات و نظریات کے قریب ہیں۔جو پاکستان کے اندر مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں اچکزئی و حاصل بزنجو وغیرہ کو لبرل جمہوریت پسند قرار دیتے ہیں اور ان کو اینٹی اسٹبلشمنٹ ثابت کرتے ہیں۔
میمفس بارکر کا جو ٹوئٹر ہینڈل ہے، اس پہ ہم ان کو فالو کرنے والوں میں اور ان کے ساتھ اتفاق کرنے والوں میں پاکستان کے دیسی کمرشل لبرل مافیا کے بڑے بڑے نام دیکھ سکتے ہیں۔
میمفس بارکر کا تازہ آرٹیکل ‘دی گارڈین’ ڈیلی میں شایع ہوا ہے۔ اس مضمون میں وہ پشتون تحفظ موومنٹ بارے دی گارڈین کے قارئین کو بتانے کی کوشش کررہے ہیں۔حسب معمول بیکر نیولبرل کمرشل مافیا کی طرح جب وہ پشتون کمیونٹی کو درپیش مصائب اور مشکلات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں امریکہ سمیت سرمایہ دارانہ بلاک کی سر جنگ کے زمانے میں افغان وار پروجیکٹ اور اس میں مغربی سرمایہ دار طاقتوں اور سعودی عرب کے کردار بارے کچھ بھی نہیں بتاتے۔
وہ نائن الیون سے پہلے طالبان کے افغانستان میں قبضے اور اس کے متوازی پاکستان کی طالبانائزیشن اور اس میں مڈل ایسٹ کے کردار اور پھر نائن الیون کے بعد امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تذکرہ بھی گول کرجاتے ہیں۔ اور وہ پشتون علاقوں میں ہوئے سب معاملات میں سارا بوجھ اور سارا ملبہ پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے عسکری ہئیت مقتدرہ پہ ڈالتے ہیں اور اس موقف کو ہی آگے بڑھاتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ ایک تو پشتون 45 ملین آبادی کے ساتھ اقلیت قرار دے ڈالتے ہیں جبکہ فیڈریشن آف پاکستان میں کے پی کے ایک الگ اکائی ہے اور اسے کسی بھی لحاظ سے اقلیت نہيں قرار دیا جاسکتا۔
منظور پشتین نے اپنے فیس بک آفیشل پیج پہ دی گارڈین ویب سائٹ پہ نمودار ہونے والے میمفس بارکر کے آرٹیکل کو بنا کسی تنقیدی ریمارکس کےشئیر کردیا ہے۔ اور وہ ابتک پاکستان کے دیسی کمرشل لبرل کے نکتہ نظر کو کسی تنقید کے بغیر اپنے آفیشل پیج پہ جگہ دیتے آتے ہیں۔
پی ٹی ایم کے ایک اور سرکردہ نوجوان جن کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ عدنان حسین مندوخیل انھوں نے عدنان حسین شالئیزئی کے نام سے مس جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ اور ہزارہ خواتین کی تادم مرگ بھوک ہڑتال میں پی ٹی ایم کے کردارپہ ایک پوسٹ جو کی ہے اس میں انھوں نے کہا کہ انھوں نے احسن اقبال وفاقی وزیر داخلہ کو یاد کرایا کہ وہ جس طرح سے مسلم لیگ نواز کو اخلاقی سپورٹ دے رہے ہیں تو مسلم لیگ نواز کو بھی جوابی اخلاقی سپورٹ دینی چاہئیے۔ عدنان حسین مندوخیل کا فیس بک آفیشل پیج ہمیں بتاتا ہے کہ وہ محمود خان اچکزئی کے کھلے سپورٹر ہیں۔ اس پوسٹ سے پہلی بار پی ٹی ایم کا مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں کی جانب رویے اور موقف بارے بہت واضح روش کا پتا چلا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ بات دیکھنے کو مل رہی تھی کہ پی ٹی ایم کو پاکستان میں ایسے صحافی اور سول سوسائٹی ایکٹوسٹ اور لبرل لیفٹ کے لوگوں کو پی ٹی ایم کے لوگ اہمیت دے رہے تھے جو نواز شریف کی جدوجہد کو اسٹبلشمنٹ مخالف جدوجہد قرار دے رہے ہیں اور یہ دیسی لبرل کہلانے والا طبقہ پاکستان میں شیعہ ، صوفی سنّی، احمدی، ہندؤ، کرسچن اور خود لبرل اور ایسے ہی پولیس و فوج پہ ہونے والے حملوں کے بارے میں انتہائی گول مول موقف رکھنے کی حثیت سے بدنام ہیں۔
یہ شام، یمن بارے بھی امریکہ نواز موقف رکھتے ہیں۔ اور ان پہ یہ الزام بھی ہے کہ یہ دیوبندی عسکریت پسندی اور جس آئیڈیالوجی پہ یہ عسکریت پسندی استوار اس بارے گول مول موقف کے حامل ہیں۔ اور یہ بات ہزارہ کمیونٹی کے احتجاج کے دوران دیکھنے میں آئی کہ دیسی لبرل اور لبرل لیفٹ نے ہزارہ کمیونٹی پہ ہونے والے حملوں میں ان کی شیعہ شناخت کا ذکر غائب کیے رکھا اور ساتھ ان پہ حملہ آور دیوبندی عسکریت پسندوں کے تکفیری ٹولے کے سرکردہ لوگوں کا نام بھی زبان پہ لانے سے گریز کیا۔ کیونکہ اگر رمضان مینگل جیسے لوگوں کا نام سامنے آتا تو پھر اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کا نام بھی سامنے آتا اور ان کے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کی بات بھی سامنے آتی اور یہ سارا عمل دیسی لبرل کا مقدمہ نواز شریف بارے دھڑام سے گرادیتا ہے۔
پی ٹی ایم کی قیادت کے پانچ مطالبات سے ہٹ کر پاکستان میں جہادی و تکفیری عسکریت پسندی بارے جو یک رخی تجزیہ ہے وہ بالکل دیسی کمرشل لبرل مافیا اور عالمی نیو لبرل دانش سے ہی مستعار لیا ہوا ہے۔یہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں علاقائی اور عالمی نیولبرل طاقتوں اور ان کے پاکستان میں کرداروں کی اکثریت کو نکال دیتا ہے۔
انقلابی سوشلسٹ کے رہنماء پروفیسر ڈاکٹر ریاض پی ٹی ایم کے بارے میں میمفس بارکر کے مضمون پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
پاکستانی فوج کو ہندوستان اور افغانستان میں دہشت گردی اور جنگ کے پیچھے قرار دینا پی ٹی ایم کے لیے ” یہ جو دہشت گردی ہے۔۔۔” کے نعرے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچانے والا خیال ہے۔افغانستان پہ امریکہ اور ناٹو افواج نے قبضہ کررکھا ہے اور یہ استدلال کہ پاکستان ہندوستان و افغانستان میں دہشت گردی کے پیچھے ہیں محض لولا لنگڑا موقف ہے جو افغانستان میں جنگ کے جاری رکھنے کا جواز ہے۔ سامراجی پاکستان آرمی کے آپریشنوں کے بارے میں پی ٹی ایم کی جو حقیقی شکایات ہیں جیسے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اس وقت تک ترک نہیں کریں گے،جب تک پی ٹی ایم کھل کر افغانستان میں جنگ کے خلاف موقف نہیں اپناتی اور سامراجیوں کا نام بھی افغانستان اور پاکستان میں پشتونوں کے دشمنوں کے طور پہ نہیں لیتی۔
تو بارکر کا مضمون پشتین یا چی گیورا کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یا تو سامراجی مقاصد کے لیے تحریر کیا گیا ہے
“What marks the PTM out as a particular threat to Pakistan’s army, which has ruled the country for more than half its 70-year history, is that its allegations mirror those made by western officials, namely that the army plays a “double game” with regard to terrorism, silently supporting groups that target India and Afghanistan.”
” پی ٹی ایم کو جو خاص بات پاکستانی فوج(جس نے ستر سال میں سے نصف سالوں تک ملک پہ حکمرانی کی ہے) کے لیے خطرہ بناتی ہے وہ اس کے الزامات ہیں جو مغربی حکومتوں کے اہلکاروں کی جانب سے پاکستان کی فوج پہ دہشت گردی کے معاملے میں ڈبل گیم کھیلنے سے لیکر خاموشی سے ہندوستان اور افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے تک لگائے جاتے رہے ہیں۔
“
(یعنی بارکر کے مضمون کی یہ سطور بتاتی ہیں کہ بارکر افغانستان میں دہشت گردی، جنگ سے آنے والی تباہ کاری کا الزام پاکستانی فوج پہ دھرتا ہے اور امریکہ و ناٹو افواج جنھوں نے افغانستان پہ قبضہ کررکھا ہے اور جنگ مسلط کی ہوئی ہے ان کا نام تک نہیں لیتا تاکہ افغانستان میں سامراجی جنگ کو جاری رکھا جائے۔)
پی ٹی ایم اگر جنگ مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی حامی ہے تو وہ پاکستان میں جنگ کی حمایت کرنے والے دیسی لبرل اور عالمی سطح کے نیو لبرل بارے بھی منصفانہ موقف اپنائے۔ وہ ابتک دیوبندی عسکریت پسندی اور اس کے شیعہ،صوفی سنّی ، کرسچن، احمدی،سیاسی رہنماؤں، علماء و مشائخ پہ حملوں بارے کردار پہ بھی انتہائی گول مول موقف کی حامل ہے۔وہ ہزارہ کمیونٹی کے احتجاج پہ حمایتی بیان تو دیتے ہیں لیکن اس کے ذمہ دار تکفیری گروہوں کا نام تک لینا گوارہ نہیں کرتے۔