کیا تم جانتے ہو کون تھا یہ مرد جری؟ – تنویر عارف

نوٹ: ڈاکٹر حسن ظفر عارف جن کی لاش پراسرار حالت میں ان کی گاڑی میں الیاس گوٹھ کراچی میں پچھلی نشست پہ ملی۔ان کی موت کیسے ہوئی؟گاڑی وہ خود چلارہے تھے جبکہ وہ ڈی ایچ اے میں ایم کیو ایم کے قانونی مشیر ایڈوکیٹ عبدالمجید کے فرید چیمبرز سے شام کے پہلے پہر میں گھر کی طرف روانہ ہوئے اور الیاس گوٹھ ان کے گھر کے راستے میں نہیں پڑتا۔ہفتے کی شام وہ گھر کی جانب روانہ ہوئے اور اتوار کو دوپہر کے وقت ان کی لاش بارے معلوم ہوا۔ڈاکٹر سیمی جمالی ترجمان جناح ہسپتال کراچی ان کی موت کو طبعی قرار دے رہی ہیں۔ان کے اہل خانہ بھی ابھی اسے قتل کہنے سے گریز کررہے ہیں۔لیکن شکوک و شبہات موجود ہیں۔انہوں نے اکتوبر 2016ء سے اپریل 2017ء کا دورانیہ سندھ رینجرز کی حراست میں گزارا تھا۔اس دوران ان پہ سب سے بڑا الزام غداری، ملک کے خلاف کام کرنے وغیرہ کا لگا۔لیکن ثابت کچھ نہ ہوسکا۔ہائیکورٹ سندھ نے ان کی ضمانت لی اور وہ رہا ہوئے۔

ان کے خلاف نادیدہ قوتوں نے کام کرنا ترک نہیں کیا تھا۔ان کے خلاف نہ صرف مین سٹریم میڈیا میں پروپیگنڈا کیا جارہا تھا بلکہ سوشل میڈیا پہ بھی ان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا جاری تھا۔انہوں نے ایم کیو ایم (لندن) جوائن کی ہوئی تھی اور اس کے مرکزی ڈپٹی کنوئیر تھے۔الطاف حسین اور ان کی جماعت کو وہ ایسے وقت میں سپورٹ کرنے میں لگے ہوئے تھے جب الطاف حسین کے اپنے ساتھیوں اور بڑے بڑے ان کے ناموں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف مارکس واد، لیفٹ واد اور کرانتی کاری کے کس اصول،ضابطے اور استدلال کے تحت ایم کیو ایم لندن میں گئے تھے اس کا تو شاید ہمیں کبھی معلوم نہ ہوسکے لیکن اس کا سبب بہرحال موقعہ پرستی نہیں تھی۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف شاید 80ء کی دہائی کے واحد کراچی یونیورسٹی کے استاد تھے جو ہمیشہ جینز پہن کر یونیورسٹی آیا کرتے تھے اور جنھوں نے کاندھوں تک آنے والی زلفیں رکھی ہوئی تھیں۔80ء کی دہائی میں جب وہ گرفتار ہوئے تو عقیل عباس جعفری کے انسائیکلوپیڈیا دماغ نے ہمیں یاد دلایا کہ ایک انگریزی اخبار میں ان کی تصویر شایع ہوئی اور اس کے نیچے کیپشن لکھا تھا:

DSP Vs PhD

لیکن 2016ء میں اکتوبر میں جب وہ گرفتار ہوئے تو ان کو گرفتار کرنے والے سپاہی اور حوالدار رینک کے رینجرز کے لوگ تھے۔ان کے ہزاروں شاگرد تھے اور ہزاروں کی تعداد میں ان سے سیاسی ایکٹوسٹ ،دانشور،صحافی اور ادیب متاثر تھے۔جب ان کے سیاسی عمل اور دانشوری کا سورج نصف النھار پہ تھا تو ان کی شخصیت کیسی تھی؟ اس بارے میں تنویر عارف نے اپنی یادوں کو تازہ تو کیا ہی ساتھ ہی ہمیں بھی ماضی کے اس پرآشوب دور میں لے گئے جس میں حسن ظفر عارف کا کردار یادگار تھا۔انھوں نے یہ تذکرہ انگریزی میں تحریر کیا۔میں نے اسے اردو میں ڈھال کر استاد کا کچھ قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔

آج سوشل ميڈیا پہ ان کی ناگہانی موت پہ ہزاروں لوگ سوگ کا اظہار کررہے ہیں اور ان سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان ہزاروں لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ایم کیو ایم اور اس کے سیاسی خیالات سے سخت اختلاف رکھتے ہیں۔ان کی شرافت اور کمٹمنٹ کی گواہی ان کے خیالات سے سخت ترین اختلاف کرنے والے اور دائیں بازو کے بڑے بڑے نام بھی دے رہے ہیں۔جیسے لوگ پروفیسر غفور ، مولانا شاہ احمد نورانی سے اختلاف کے باوجود ان کی تعریف کرتے رہے۔ڈاکٹر حسن ظفر عارف صاحب کردار سیاسی دانشور تھے۔ع-ح

وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل تھا۔کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کا پروفیسر تھا۔جب وہ ڈیپارٹمنٹ آتا تھا تو ہر کوئی اپنے اندر ایک قسم کی گرمی عمل، جوش اور خوشی محسوس کرتا اور طلباء کے درمیان وہ آب و تاب سے موجود ہوتا تھا۔ہم گھنٹوں اس کا انتظار کرتے کہ کب وہ آئے اور ہمیں لیکچر دے۔جب وہ فلسفے کے مختلف موضوعات پہ ہموار لہجے میں بولتا تو کلاس میں اسقدر سناٹا ہوتا کہ سوئی بھی گرتی تو آواز سنائی دے جاتی۔میں ہمیشہ ان کی انگلیوں میں دبی سگریٹ کو دیکھتا رہتا جو ان کے کسی بھی پف کے بغیر تیزی سے راکھ ہوتا چلا جاتا تھا۔

وہ سب سے زیادہ کرشماتی،ورسٹائل اور ایک ہالی ووڈ ہیرو ٹائپ کردار تھے،میں نے جب کبھی ان کو دیکھا تو لمبے بالوں،نیلی جینز،سرخ شرٹ اور چمکدار مسکان کے ساتھ انتہائی سادگی سے کبھی سیڑھیوں پہ تو کبھی فرش پہ طلباء کے ساتھ آئیڈیالوجیز اور معاصر جدید فلسفے پہ بات کرتے ہوئے دیکھا۔وہ ایک دوست کی طرح، ایک انقلابی جیسے ،چی گیویرا جیسے لگتے تھے۔

ضیاء کے سب سے سخت ترین مارشل لاء کے دوران،جنرل جہانداد خان، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سندھ نے کالجز اور یونیورسٹیز کو ایک مراسلہ بھیجا کہ کوئی استاد مارشل لاء کی مذمت نہیں کرے گا۔ اور تب یہ وہی تھے،بنھوں نے جنرل کو ایک خط کے زریعے سے جواب دیا،جو کہ چند گھنٹوں میں ہی میں تمام ترقی پسند طالب علموں میں تقسیم ہورہا تھا۔اس کی نقول تمام جامعات و کلیات میں ان دنوں ایسے پہنچ گئی تھیں ،جیسے آج کل فیس بک اور ٹوئٹر پہ ٹرینڈز وائرل ہوجاتے ہیں۔خط میں کہا گیا تھا کہ کیسے ایک جنرل کو یہ ہمت ہوئی کہ وہ اساتذہ سے مخاطب ہو اور ان کو یہ ہدایت دے کہ انہیں کیا پڑھانا ہے اور کیا نہیں۔ان دنوں کی مارشل لاء حکومت کو دیا گیا سب سے سخت ترین جواب تھا۔جن لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ مارشل لاء کے قوانین کا خوف کس چیز کا نام ان دنوں ہوا کرتا تھا،وہ لیفٹ کے اور ایم آرڈی کے لوگوں سے پوچھ لیں۔

اس خط کی پاداش میں ان کو فوری طور پہ نوکری سے برخاست کردیا گیا تھا اور پھر ان کو جیل بھیج دیا گیا۔پھر میں نے ان کو دس سال بعد دیکھا۔وہ بے روزگار تھے اور رزق کے لئے کتابیں لکھ رہے تھے،بعد ازاں میں نے سنا کہ وہ لندن چلے گئے۔

وہ کرشماتی سورما ڈاکٹر حسن ظفر عارف تھے۔

استادجی! آپ کو سلام

Comments

comments