زینب کا خط اپنے باپ امین کے نام – عامر حسینی
پیارے بابا!
میں نے اپنے خدا سے کچھ لمحات مستعار لیکر آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں۔آپ سے مخاطب ہونے کا خود مجھ میں حوصلہ نہیں ہے۔مگر کیا کروں آپ اور امی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تو میں یہ سب لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔
بابا! جب تکلیف کے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے ہوئے،میری سانس اکھڑگئی اور میرے پامال جسم سے میری روح جدا ہوگئی تھی تو میں اچانک اسفل مکان سے مکان علیا تک آگئی اور یہاں ہر طرف مجھے پریوں اور حوروں نے اپنی آغوش میں لے لیا اور میں نجانے کب تک سوتی رہی اور پھر اٹھی تو مجھے ایک نورانی چہرے والی عورت نے اپنے آغوش میں لے لیا۔سیاہ لباس میں ملبوس میں اس عورت کی شفقت مجھے بالکل امی کی طرح محسوس ہوئی اور یہ مجھے تھپکی دیتی رہی۔کہنے لگی،’ بیٹی! جتنا کرب اور عذاب تم نے سہنا تھا،سہہ لیا، اب راضی و برضا ہوکر یہاں رہو،یہ وہ جگہ جہاں کوئی کرب اور کوئی تکلیف اب تمہیں چھو بھی نہیں سکے گی۔اور اب کوئی اور کٹھن منزل نہیں رہی۔دکھ اور تکلیف کی دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔’ یہ کہتے ہوئے بھی اس عورت کی آنکھوں میں،میں نے گہرے دکھ کے سائے دیکھے اور چہرہ مجسم اداسی تھا۔
بابا! اس مکان علیا میں،میری سوچ کو جیسے پر لگ گئے ہوں۔اور مجھے لگتا ہے کہ میں ایک دم سے بڑی ہوگئی ہوں۔اب مجھے چیزیں خودبخود سمجھ آنے لگی ہیں۔میں اس مجسم اداسی عورت کی آغوش میں حدت مادر محسوس کررہی تھی اور میں نے بے اختیار اس شفیق مہربان مثل مادر عورت سے پوچھ ہی لیا،’آپ کون ہیں؟’ تو اس عورت نے انتہائی درد بھری آواز میں مجھ سے کہا،’ میری غریب شہر بیٹی! میں تمہاری ہم نام ہوں۔مجھے زینب کہتے ہیں،شریکۃ الحسین میرا لقب ہے اور لوگ مجھے ‘ام المصائب’ بھی کہتے ہیں۔’ یہ سب سنکر میں نے ایک دم سے آنکھیں بند کرلیں اور میں نے آپ اور امی کو یاد کیا تو ایک دم سے جیسے کسی نے میرے سامنے فاصلے سمیٹ دیا ہو اور میں وہاں قصور میں اپنے گھر میں پہنچ گئی،میں نے دیکھا کہ ایک چارپائی پہ میرا جسم کفن میں لپٹا پڑا ہے اور امی،خالائیں، بہنیں اور بھائی اور آپ پاس کی رشتہ دار عورتیں بین کررہی ہیں۔میں نے زرا دور نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا کہ وقت کے ظالموں کا ٹولہ قاتل جنسی درندوں سے لوگوں کی توجہ بٹانے اور ان کو آزادی سے وحشیانہ کھیل کھیلنے دینے والے حکمرانوں کے تخت کو بچانے والے آپ اور امی کو ہی میرے ساتھ ہوئے ظلم کا الزام دے رہے ہیں۔یہ سب دیکھ کر میرا دل دکھ سے بھر گیا اور میں آپ اور امی کو حوصلہ دینے کے لئے ہاتھ آگے بڑھانے کو تھی کہ کسی نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔میں نے آنکھیں کھول دیں۔
یہ وہی مثل مادر شفیق تھیں ،میرا ہاتھ تھامے ہوئے کہنے لگیں،’بٹیا ! یہ آج کی روایت نہیں ہے۔یہ چودہ سو سال سے جاری روایت ہے کہ مقتول کو خود اس کے قتل کا سزاوار ٹھہرایا جائے۔اور اس کے مظلوم وارثوں کا غم بٹانے کی بجائے ان کو ہی الزام دیا جائے۔میں نے یہ مناظر کربلاء سے دربار کوفہ و دمشق میں کئی بار دیکھے تھے اور آج بھی دیکھتی ہوں کہ ہم سب شہداء و متاثرین کرب و بلاء کو انصاف کب ملے گا۔اس وقت تم جس خطے سے آئی ہو وہاں ایک ایسا حکمران ٹولہ برسراقتدار ہے جس کے مربی حجاز پہ مسلط آل سعود ہیں جنھوں نے مکّہ و مدینہ پہ قبضہ کرنے کے بعد ہماری قبروں سے بھی انتقام لیا تھا اور جن کی یہ تعریف کرتے ہیں انھوں نے میرے بھائی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سمیت خانوادہ رسول کے سروں کو نیزے پہ بلند کرکے ہمیں ننگے سر و پیر دربار یزید لعین میں پیش کیا تھا اور اپنے ظلم کو حق اور ہماری مظلومیت کی نفی کی تھی۔ہم نے صبر اور ثابت قدمی دکھائی تھی۔اور تمہارے والدین بھی یہی کررہے ہیں اور ظالموں کے مقدر میں خائب و خاسر ہونا لکھ دیا گیا ہے۔’
ابا! میں آپ کو بھی کہتی ہوں کہ صبر اور ثابت قدمی کی تلقین کرتی ہوں۔ظلم کی رات بس ختم ہونے کو ہے۔ظالم حکمران ٹولہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔اور آپ کے زخموں پہ نمک چھڑکنے والوں کے دن بھی تھوڑے ہیں۔یہاں مجھ جیسی اور بچیاں اور بچے موجود ہیں۔یہ سب یہاں بہت آرام سے ہیں اور عنقریب ظالم اپنے ظلم کا بدلہ پائیں گے۔اگر یزیدیت کی آندھیاں ہیں تو ان کے سامنے کار زینبی ادا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔امی کو کہنا کہ وہ گھبرائیں مت،اور ان اللہ مع الصابرین اور انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد کریں اور اول و آخر درود و سلام کی پابندی کریں۔بے شک اللہ کے ذکر میں دلوں کا سکون ہے۔
فقط والسلام
تمہاری مظلوم بیٹی زینب درگوش زینب بنت علی سلام اللہ علیھا