شوگر ملز مافیا اور غریب کسان کی پکار

جنوبی پنجاب کے ضلع رحیمیار خان میں اس وقت پانچ شوگر ملیں کام کر رہی ہیں لیکن غریب کسان کا گنا اٹھانے کے لئے کوئی بھی مل تیار نہیں، سب ملیں اس وقت بڑے بڑے ذمین داروں کا گنا اٹھا رہی ہیں جبکہ غریب کسان کی کوئی نہیں سننے والا نہیں، آج دسمبر کی 14 ہوگئی لیکن غریب کسان پرمٹ کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، پانچوں شوگر ملز ملکان نے حسب روایت آپس میں ایکا کر رکھا ہے کہ کسان کو جتنا دبا سکتے ہیں دبائیں۔ اس وقت مارکیٹ میں چینی 60 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے لیکن کسان کا گنا 120 میں بھی کوئی اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری جانب پنجاب حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں عملی طور پر حکومت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

ویسے ایک سوال ہے کہ پنجاب حکومت ان طاقتور شوگر مل ملکان کیخلاف اقدام اٹھائے بھی تو کیوں؟، کیوںکہ ایک شوگر مل سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کی ہے، دوسری شوگر مل خود مسلم لیگ ن کے ایم این اے مخدوم خسرو بختیار کی ہے، تیسری مل چوہدری منیر احمد صاحب کی ہے، کون چوہدری منیر؟، جی صحیح سمجھے، وہی چوہدری منیر جس نے اپنے بیٹے کی شادی مریم نواز کی صاحبزادی سے کی ہے۔ چوتھی جیٹھہ بٹھہ شوگر مل کسی شیخ نثار احمد کی ہے، اور پانچویں شوگر مل جہانگیر خان ترین کی ہے جو ہر جگہ انصاف لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ضع رحیمیار خان پاکستان کا وہ واحد ضلع ہے جہاں خلاف قانون پانچ شوگر ملیں قائم ہیں۔ کیوں کہ کاٹن ایریا میں چار ملیں بھی زائد ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک سے کاٹن کی فصل اب نہ ہونے کے برابر ہے۔

تو بات ہو رہی تھی شوگر ملز مافیا کی، جی ہاں یہ پانچوں وقت کے فرعون مل مالکان غریب کسانوں کا خون چونس رہے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب غریب کسان جائے بھی تو کہاں؟، گنا وہ واحد فصل ہے جو سال میں ایک ہی بار کاشت ہوتا ہے اور فصل کٹنے سے پہلے اس زمین میں کوئی دوسری فصل بھی کاشت نہیں کرسکتے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سال بھر محنت کرکے فصلوں کو تیار کرنے والے کسان کو اس کی محنت کا ثمر نہیں مل رہا، طاقتور مافیا ہر جگہ پر قابض ہے، اب کسی کو گنے کے پرمٹ ملتے بھی ہیں تو وہ بھی سیاسی بنیاد پر۔

جو سیاسی حریف ہوتا ہے اس کی فصل اٹھانے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں، اس کو اتنا رولایا جاتا ہے کہ اس کے گنے کا رس ہی خشک ہو جاتا ہے اور ایک ہزار من دینے والا ایکٹر پانچ سو من پر آکر گرتا ہے۔ ظلم کی چکی میں پسنے والے ان کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گنا کی کاشت پر خرچ، بیچ اور کھاد کا خرچ، کٹائی پر خرچ، اور فصل سے اٹھا کر مل تک لانے کا خرچ، یہ تمام اخراجات ملاکر حساب کیا جائے تو کسان کو ایک ڈھیلا بھی نہیں بچتا۔ گزشتہ سات برسوں سے گنا 150 روپے فی من سے اوپر جانے کا نام ہی نہیں لے رہا، الٹا اب اس کا نرخ 120 روپے فی من پر آکر گرا ہے، جبکہ اس عرصے کے دوران چینی کا نرخ 35 روپے کلو سے شروع ہوا جو اب 60 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔

دوسری جانب ہر شوگر مل پر ایک خاص رقم فی من سڑکوں کی ریپئرنگ کے نام پر کاٹی جاتی ہے لیکن جنوبی پنجاب کی دیہی علاقوں کی سڑکیں دیکھیں تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں، اربوں روپے سڑکوں کی تعمیر کے نام پر کسانوں سے لوٹ لئے جاتے ہیں لیکن یہ پیسے کبھی سڑکوں کی تعمیر پر خرچ نہیں ہوتے۔ ایک غریب کسان جائے بھی تو کہاں جائے۔ حکومتیں ہوں، عدالتیں ہوں یا پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے، یہ سب طاقتور طبقے کیلئے حرکت میں آتے ہیں۔

Comments

comments