سانحہ ماڈل ٹاؤن، باقر نجفی رپورٹ اور چند سوالات

 

ادارتی نوٹ: 17 جون 2014 کے سانحہ ماڈل ٹاؤن  منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے بعد حیدر جاوید سید وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے اپنے کالموں میں اس بات کا تفصیل سے ذکر کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس اہلکاروں میں پولیس کی وردی اور سادہ لباس میں کالعدم لشکرِ جھنگوی کے دہشت گرد شامل تھے۔ ان کے یہ کالمز خبریں ملتان میں بھی شائع ہوئے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے قلم کار پر اس حوالے سے شائع ہونے والے کالموں میں بھی انہوں نے اس بات کا ذکر کیا۔ جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے عدالتی حکم پر پبلک ہونے کے بعد ان کا مؤقف لیا گیا ہے۔

سترہ جون 2014ء کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ 17 جون کا سانحہ ہرگز برپا نہ ہوتا اگر جھنگ اور فیصل آباد سے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو پولیس کی وردیاں پہنا کر منہاج القرآن کے باہر نہ بھیجا گیا ہوتا۔ منہاج القرآن پر لشکر کشی اصل میں آپریشن ضربِ عضب کا شریفی جواب تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت دہشت گردی کے متاثرہ طبقات کا سیاسی اتحاد بنانے کے لئے سرگرم عمل تھی۔ان کوششوں میں عوامی تحریک کو بڑی حد تک کامیابی ہو حاصل ہوئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریاست اور حکومت کے درمیان جنگ تھی۔ جس میں حکومت کے سرکاری اور نجی لشکر نے ریاست کے حامیوں کو خون میں نہلا دیا۔

مگر جس سوال کو اس رائے میں یکسر نظرانداز کر دیا جائے گا وہ یہ ہے کہ کیا منہاج القرآن پر لشکر کشی 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے اتحادی و سرپرست کا کردار ادا کرنے والی دہشت گرد تنظیموں، تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کی دلجوئی کا اقدام نہیں تھا؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ جناب جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں مجھ طالب علم کے لئے فقط ایک بات نئی ہے۔ وہ یہ کہ “وقوعہ کے وقت پولیس والے یہ کہتے تھے کہ بلاؤ اپنے علیؑ اور حسینؑ کو وہ تمہیں بچائیں۔ پھر جب مظاہرین نعرہ حیدری ؑ لگا رہے تھے تو پولیس نے انہیں گولیاں ماریں”۔ مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر ایسا کیا گیا تھا تو یہ پولیس اہلکاروں کے جملے نہیں ہو سکتے بلکہ پولیس کی وردیاں پہنے ان کے دہشت گردوں کے الفاظ ہوسکتے ہیں جو اپنی تکفیری خیالات کے بنا پر صوفی سنیوں اور شیعوں کو یکساں دشمن اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔ پناب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے کالعدم لشکر جھنگوی سے ذاتی اور نظریاتی تعلق اور فیصل آباد میں اس تنظیم کے دہشت گردوں کے ذریعے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں پر حملے کروانے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔  17 جون کے سانحہ سے قبل پنجاب میں بلوچستان کے ایڈیشنل آئی جی پولیس  پولیس مشتاق سکھیرا کو آئی جی لگانے کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ مشتاق سکھیرا نے ہی 2013ء کے انتخابات سے قبل لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کی مسلم لیگ (ن) سے مفاہمت کروائی تھی۔

اسی مفاہمت کی بنا پر ہی مسلم لیگ (ن) نے  نے کالعدم لشکر جھنگوی کے دو کمانڈروں، گجرات سے چودھری عابد رضا اور مظفر گڑھ سے عباد اللہ ڈوگر کو قومی اسمبلی کے لئے اپنا امیدوار بنایاتھا۔ 17 جون کو جب رانا ثناء اللہ کے حکم پر منہاج القرآن پر لشکر کشی کی گئی تو پولیس فورس کی وردیوں میں موجود دہشت گردوں اور سادہ لباس میں گولیاں برساتے دہشت گردوں کی ویڈیوز کے ذریعے شناخت کا عمل خفیہ ایجنسیوں نے مکمل کیا تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیوں نہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں اور نجفی کمیشن  کی رپورٹ ہر دو کی مشترکہ بنیاد پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ پھر یہ بھی اہم بات ہے کہ ایک جوڈیشنل کمیشن خود ن حکومت پنجاب نے قائم کروایا اور خطرات کو بھانپتے ہوئے کمیشن کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا

پچھلے ساڑھے تین برسوں سے عرض کرتا چلا آ رہا ہوں کہ فوج اور لیگی حکومت کے درمیان اختلافات اور نفرت کی بنیاد آپریشن ضرب عضب بنا۔ گو بعد میں حکومت نے رائے عامہ کے دباؤ اور معروضی حالات کے پیشِ نظر اس آپریشن کو “اون” کیا لیکن حکومت کو اطلاع دیئے بغیر شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب سے مسلم لیگ (ن) کے مالکان میں جو اشتعال پیدا ہوا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفرت میں تبدیل ہو گیا۔ ایک ایسا ملک جہاں دستور سے ماوراء بالادستی کا زعم نہ صرف موجود ہو بلکہ اس زعم کی پرورش میں خود مسلم لیگ (ن) کا حصہ بھی رہا ہو وہاں یہ کہنا کہ صرف فوج ہی غلط ہے قطعی طور پر درست نہیں۔ منہاج القرآن آپریشن سے قبل لگ بھگ چار بار اجلاس ہوئے۔ ان اجلاس میں آئی جی اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے صورتحال کا معروضی حالات اور حقائق کی روشنی میں تجزئیہ کرتے ہوئے آپریشن کو فساد کا موجب قرار دیا۔ جس کے جواب میں مشتاق سکھیرا کو پنجاب لا کر آئی جی بنادیا گیا۔ اور ڈپٹی کمشنر کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ایک صحافی کی حیثیت سے معاملات کو سمجھنے کے لئے جو کوششیں کیں ان کے پیشِ نظر قبل ازیں عرض کرتا رہا ہوں کہ اس کے براہِ راست ذمہ دار شہباز شریف ، رانا ثناء اللہ ، ڈاکٹر توقیر شاہ اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا ہیں۔ جہاں تک پنجاب حکومت کی بنائی جے آئی ٹی کی رپورٹ کا سوال ہے تو اس جے آئی ٹی نے تو حکومتی ایف آئی آر اور حکومتی مؤقف پر تحقیقات کے گھوڑے دوڑائے تھے۔ اس وقت عوامی تحریک کا یہ مطالبہ کیوں نہ تسلیم کیا گیا کہ ایک آزاد جے آئی ٹی بنائی جائ؟

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشنل انکوائری رپورٹ کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ اولاََ یہ کہ یہ کمیشن پنجاب حکومت کی درخواست پر قائم کیا گیا مگر بعدازاں کمیشن کے دائرہ کار کو محدود کر دیا گیا۔ اس کے لئے وزیراعلیٰ نے باقاعدہ حکم جاری کیا۔ ثانیاََ یہ کہ کمیشن کی تحقیقات مکمل ہوئیں تو اس رپورٹ کو پبلک کرنے کے معاملے پر حکومت پنجاب نے ہی ہائیکوڑت سے حکم امتناعی لیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر کمیشن کا دائرہ اختیار محدود کیا گیا؟ اور یہ کہ آخر پنجاب حکومت کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے سے رکوانے کے لئے تین سال تک اسٹے آرڈر کیوں لے کر بیٹھی رہی؟ یہاں ایک اور سوال سامنے آتا ہے ۔ وہ یہ کہ ایک طرف تو پنجاب حکومت نے کمیشن  کی رپورٹ پبلک کرنے کے خلاف حکم امتناعی لیا اور دوسری طرف پاکستانی نظام انصاف کے مکروہ ترین کردار جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے پر مشتمل ایک رکنی جائزہ کمیٹی قائم کر دی۔

تکفیری نظریات کے حامل اور صوفی سنی دشمن فہم رکھنے والے خلیل الرحمٰن رمدے نے اپنی رپورٹ میں جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو متنازعہ بنانے اور عدالتی کمیشن پر فرقہ وارانہ پھبتی کسی۔ پچھلے کچھ عرصہ سے رانا  ثناء اللہ جسٹس باقر نجفی کے مذہبی عقیدے کے حوالے سے جو زہریلے بیان دیتے رہے ان بیانات کو غذا تکفیری خلیل الرحمٰن رمدے کی جائزہ رپورٹ سے فراہم کی گئی۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک اور سال پر غور کر لیجئے۔آج تک کتنے عدالتی کمیشنز کی تحقیقاتی رپورٹس پر جائزہ کمیشن بنائے گئے؟ اچھا اگر جائزہ کمیشن ضروری ہی تھا تو ُپنجاب حکومت کی مراعات پر پلنے والے خلیل الرحمٰن رمدے ہی کیوں؟

رمدے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ رمدے اپنے خاندانی مذہبی عقیدے کے حوالے سے صوفی سنیوں کے بدترین مخالف ہیں۔ ہم اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جن دو عفت مآب خواتین کے چہرے اور سر میں قریب سے براہِ راست گولیاں ماری گئیں ان کا جرم کیا تھا؟ یہی کہ وہ ڈھال بن کر ڈاکٹر قادری کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں؟ کیونکہ منہاج القرآن کے کارکنوں کو بھی اطلاع تھی کہ پولیس فورس میں وردیاں پہنے چند لشکر جھنگوی کے دہشت گرد بھی موجود ہیں جو ڈاکٹر قادری کے گھر کے اندر داخل ہو کر کارروائی کر سکتے ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے پنجاب حکومت کے ملازمین اور رانا ثناء اللہ منہاج القرآن  کے خلاف غلیظ ترین پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ خود رانا کا یہ دعویٰ بھی موجود ہے کہ منہاج القرآن کے کارکنوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ ساڑھے تین سال گزر گئے  ان “مرحوم” پولیس والوں کے کوائف کوئی سامنے نہیں لایا۔

یہ بھی عرض کر دوں کہ باقر نجفی رپورٹ کو لے کر جو خواتین و حضرات جمہوریت اور قانون کا درس دے رہے ہیں وہ ماڈل ٹاؤن میں برپا ہوئی قیامت پر مجرمانہ خاموشی کے مرتکب کیوں ہوئے؟ وہ  لوگ جو اس امر کے خواہش مند تھے کہ اس رپورٹ کے ساتھ ایبٹ آباد والی رپورٹ بھی پبلک کی جائے وہ لیگی قیادت سے ذرا دریافت تو کریں کہ اس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کے لئےدوسرے معاملات کا سیاپا درست نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ باقر نجفی رپورٹ، پنجاب حکومت کی گھریلو جے آئی ٹی رپورٹ اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ ان سب پر ایک جوڈیشنل کمیشن قائم کر کے تحقیقات کروا لی جائیں تاکہ شکایات بھی دور ہوں اور مزید حقائق بھی عوام کے سامنے آ سیکیں۔

حرف آخر  یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے حوالے سے پچھلے ساڑھے تین سالوں کے دوران یہ کمرشل لبڑل طوطے ڈاکٹر قادری پر بحریہ ٹاؤن والے ریاض ملک کی معرفت 5 ارب روپے لینے کا الزام لگا رہے تھے وہ پچھلے دو دنوں سے خاموش کیوں ہیں؟ کچھ تو بولیں کہ ان کی غزل سرائی کی منتظر ہے خلقت۔

Source

http://www.qalamkar.pk/haider-javed-syed-171/

Comments

comments