کوفہ شہر : ایک کتاب ۔ایک تاریخ – کے بی فراق گوادر
جب فکشن کا ایک برتر نمونہ A Tale of two city ایسا ناول پڑھا تو اس بابت کئی پہلو روشن ہوگئے چونکہ شہر اپنے آپ میں ایک کردار حوالہ بھی رکھتے ہیں اور اس کو بڑے تناظر میں رہ کر دیکھنا چاہیے تاکہ کُلیت کے ساتھ متعلقات کی صورت فکر و نظر کا باعث بنیں۔ جسکے ساتھ ہی معنوی پہلو در آتےہیں۔اس سلسلے میں طرزِ معاشرت، طرزِ فکر اور طرزِ معیشت کے جِلو میں ایک سیاسی جہت بھی منعکس کر رہا ہوتا ہے۔جو کہ اپنے سپوت کی صورت، اپنے تعینات تلاشتی ہیں جس طرح ہماری معاشرت اور تاریخ میں کوفہ ایسے شہر کا جب بھی تذکرہ پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے تو اس کے لیے بیشتر کے ہاں کوفیوں کی نسبت سے مزموم تصویر ابھر کر سامنے آتا یا دکھایا جاتا۔لیکن اس پر محبی عامر حسینی صاحب نے عالمانہ کام کرکے اس کی تاریخی تشخص پر پڑی گرد صاف کرنے کی سعی کی۔اور ایک تہذہبی و زندگی آموز اور معنوی تناظر کو اجاگر کرتے ہوئے برتر سطح کا کام کیا۔
چونکہ واقعہ ء کربلا بطورِاستعارہ اپنی حدوں سے نکل کر ہم آپ کی ادبی و تہذیبی چلن میں بھی نفوذ کا باعث بنا۔جس طرح بلوچستان کی ایک بلوچ مصنفہ محترمہ در شہوار احمد زئی جو آغا نصیر خان احمد زئی کی صاحبزادی ہیں نے اپنی کتاب “امام حسین کی زندگی ” کے پیش لفظ میں محرم اور اہلِ بیت کو کس طرح اپنی زندگی میں موجود پایا۔اس بابت لکھتی ہیں۔” ہمارا بچپن بڑا اچھا گزرا ہے اس زمانے میں تعصب نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔لوگ بہت خوش عقیدہ اور آپس میں محبت بھائی چارے اور رواداری سے رہتے تھے، ایک دوسرے کے ہاں تقاریب میں شرکت کرتے تھے ۔
ہمارے دادا کا مکان میکانگی روڈ کوئٹہ میں تھا ۔اس زمانے میں ہمیں ماہ محرم کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔محرم کے شروع ہوتے ہی مجھ پر خود بخود رنج و غم کی کیفیت طاری ہو جاتی اور میں عزادار بن جاتی۔ہمارے خاندان کے اکثر لوگ امام بارگاہ آتے جاتے تھے محرم کا بڑا احترام کرتے تھے۔ساتویں محرم کو امام بارگاہ سے منتیں اٹھائی جاتی تھیں۔ہمارے ہاں محرم کے مہینے کو اماموں کا مہینہ کہتے ہیں۔لوگ اُلٹی چارپائی پر سوتے، خواتین بناؤ سنگھار سرمہ وغیرہ سے پرہیز کرتیں۔شربت لگائی جاتیں اور لوگ امام حسین علیہ السلام کو یاد کرکے گریہ کرتے تھے ۔عاشور کے دن لوگ قبرستان یا کسی سید کے گھر جمع ہو کر گندم ابال کر تقسیم کرتے جسے ” حسینی کوہل” کہا جاتا تھا ۔آج بھی ہمارے معاشرے میں جملہ استعجاب یا مصیبت کے بے ساختگی سے نکلتا ہے “یا حسین ” اور یہ جملہ ہمارے ہمارے لوگوں کے باطن میں رکھا ہوا ہے ۔”