بھارتی سپریم کورٹ نے دہلی صوبے میں 19 اکتوبر کو منائی جانے والی دیوالی کے تہوار پہ پٹاخے پھوڑنے اور کریکر چلانے پہ پابندی لگا دی ہے اور ساتھ ہی دہلی پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے ان تمام لائسنسوں کو معطل کردیا ہے جو پٹاخوں کی فروخت کی اجازت دیتے ہیں۔
یہ معطلی دیوالی کے ختم ہونے پہ منسوخ ہوگی۔
ہندوستانی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دہلی میں شور اور فضا کی آلودگی میں کمی لانے کو بنیادی وجہ بناتے ہوئے صادر کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں تین بچوں کی جانب سے ان کے والدین نے ایک عوامی مفاد کی حامل پٹیشن دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیوالی و دسہرا میں آتش بازی کے استعمال سے دہلی میں پہلے سے موجود شور و فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا، اس لیے اس پہ پابندی لگائی جائے۔
اس پیٹشن کے برخلاف آتش بازی کا سامان فروخت کرنے والی ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ آتش بازی پہ پابندی عائد کی گئی تو اس سے ہندو مذہب کے تہوار کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ہندوستانی سپریم کورٹ کی جانب سے اس فیصلے کے سنائے جانے کے ساتھ ہی مین سٹریم بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے حق اور خلاف تند وتیز بحث دیکھنے میں آ رہی ہے۔
بھارت کے انگریزی پریس میں چھائے لبرل حلقے کے اندر تو اس فیصلے کو تحسین کی نظر سے دیکھا جارہا ہے جبکہ ہندوستانی ورناکیولر پریس اس پہ شدید تنقید کررہا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی تحسین آمیز خبر میں کچھ یوں بنائی گئی ہے:
نئی دہلی: دہلی اور این سی آر( دارالحکومت کے زیر انتظام علاقوں) میں اس سال دیوالی شور اور دھویں سے پاک ہوگی۔ سپریم کورٹ کا شکریہ جس نے سوموار کو 19 اکتوبر کو دیوالی کی مناسبت سے آتش بازی کے سامان پہ پابندی عائد کردی ہے ۔۔۔
ہندوستان کی حکمران جماعت بی جے پی اور ہندوتوا کی حامی جماعتیں آر ایس ایس، بجرنگ دل، ویشوا ہندو پریشد اور ہندو رائٹ ونگ اس پابندی کو ہندوؤں سے امتیازی سلوک قرار دے رہا ہے اور وہ اسے مسلمانوں کو خوش کرنے کا سپریم کورٹ کا معذرت خواہانہ انداز بتلارہا ہے۔
ہندو رائٹ ونگ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ شرلی پٹاخوں پہ پابندی لگائی جارہی ہے تو پھر جانوروں کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کے تہوار بکرا عید پہ بھی پابندی لگائی جائے۔
اس آرٹیکل میں دیوالی کے موقعے پہ فائرکریکر کے استعمال کی تاریخ پہ بحث کی گئی ہے کہ اس کا استعمال کب شروع ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی عاشور، میلاد، عرس اور میلوں کی شروعات کے تاریخی حوالے تلاش کرنے والے ریشنلسٹ اور مذہبی انتہا پسند عقل اور شرع دونوں راستوں سے ثقافتی تقریبات پہ پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہندوستانی بورژوازی (سرمایہ دار) لبرلز کی فیصلے کی حمایت اور ہندو رائٹ ونگ کی مخالفت کی وجوہات سے ہٹ کر سوشل اور مین سٹریم میڈیا پہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پہ تنقید کا ایک اور نقطہ نظر سامنے آیا ہے۔
سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ دہلی اور پورے بھارت میں شور اور فضائی آلودگی کا سبب کیا ہے؟
دیوالی پہ آتش بازی تو صفر اعشاریہ صفر صفر دو فیصد ( پورے سال کی نسبت سے) ہی آلودگی پھیلاتے ہوں گے لیکن اس کے برعکس دہلی و گڑگاؤں کے اندر پھیلا آٹو موبائل سیکٹر اور دیگر انڈسٹری جو آلودگی پھیلاتی ہے وہ فضائی آلودگی کا 99 فیصد سے زیادہ ہے اور صنعتی فضلہ الگ۔
تو سپریم کورٹ فضائی اور زمینی آلودگی پھیلانے والی انڈسٹری پہ پابندی لگانے بارے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سمیت کئی ایک بائیں بازو کی ہندوستانی تنظیموں نے سپریم کورٹ کی جانب سے لگائے جانے والی پابندی کو منافقت اور آلودگی و شور کے اصل اسباب سے نظریں ہٹانے کا بہانہ قرار دیا ہے۔
کئی ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان قوتوں کو تقویت پہنچائی ہے جو ہندوستان میں مشترکہ ثقافتی ورثوں اور تہواروں کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔
ایسے فیصلوں سے ہندو اور مسلم بنیاد پرستوں کو تقویت ملے گی اور اس کے مظاہر دیکھنے کو بھی مل رہے ہیں۔
بکرا عید پہ پابندی لگائے جانے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے پاکستان میں عدالتی جوڈیشل ایکٹوازم سے اثر لیا ہے۔ 2005ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں پتنگ بازی اور بیساکھی کے تہوار بسنت کے موقعہ پہ بھی پتنگ اڑانے پہ پابندی لگادی تھی۔
کثیر الثقافت سرگرمیوں کی مخالف نتہا پسند تنظیمیں ہمیشہ سے بسنت کو ہندو تہوار کہہ کر اس پر پابندی کا مطالبہ کرتی رہی تھیں۔
پنجاب حکومت ہر سال ایک حکم نامے کے زریعے اس پابندی میں توسیع کر دیتی ہے۔
عدالت نے جب انسانی جانوں کے ضیاع کو بنیاد بنا کر پتنگ بازی پہ پابندی لگائی تو معاملہ یہاں پہ رکا نہیں۔ اب کئی اور تہواروں اور میلوں پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ ویلنٹائن ڈے کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔ اس روز پاکستان اور بھارت کے انتہا پسند ایک پیج پر ہوتے ہیں۔
پاکستان کے اندر بھی محرم الحرام کے حوالے بورژوازی لبرل اور ریشنلسٹوں کا ایک سیکشن اور تکفیری جہادی بنیاد پرستوں کی جانب سے محرم الحرام کے جلوسوں اور عوامی مقامات پہ ہونے والی مجالس پہ پابندی عائد کرنے اور ان کو چار دیواری کی حدود میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
اس کے ساتھ میلاد النبی کے جلوسوں پہ بھی پابندی کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ عرسوں اور میلوں کی اکثریت پہلے ہی پابندی کا شکار ہے۔
سرمایہ دار لبرل کا ایک حصّہ محرم الحرام میں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر کیے جانے والے سکیورٹی اقدامات کی وجہ سے راستوں کی بندش اور موبائل نیٹ ورک کے معطل ہونے اور کئی ایک معشیت متاثر ہونے کا نام لے کر ان جلوسوں پہ پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ دوسرا سیکشن حیرت انگیز طور پہ فرقہ وارانہ ڈسکورس اختیار کرتا ہے جس میں ابن تیمیہ، ابن وہاب، محمود عباسی وغیرہ کے عقائد کی بنیاد پر عاشور کے جلوسوں کو چار دیواری میں محدود کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
فیسٹول کو عوامی جگہوں پہ منانے کے مخالف لبرل و ریشنلسٹ سیکشن اور تکفیری فاشسٹ عناصر کے اس باہمی اتحاد کو پاکستان کے اندر سیکولر، لبرل، لیفٹ اور شیعہ و صوفی مسلمانوں کی اکثریت ’مشترکہ کلچر مخالف‘ رویہ قرار دیتی ہے اور اس کی جڑیں پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے زمانے سے بہت شدت سے شروع ہونے والے وہابی ازم، تکفیر ازم، جہاد ازم کے پروسس کو قرار دیتی ہے۔
ریاست کی جانب سے ازخود ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے ملک بھر میں مشترکہ ثقافت کے علمبردار میلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کا اجتماعی زندگی میں اظہار بہت کم ہوگیا ہے۔
ایسے اقدامات سے انتہائی قدامت پرست اور تنگ نظری پہ مبنی مذہبی جنونیت رواداری کی جگہ لے رہی ہے۔
دونوں ریاستیں انتہا پسندی کی ’شُرلیاں چھوڑ رہی ہیں جس سے نفرت کی آگ پھیلے گی۔ تہواروں اور میلوں پر پابندیوں کے مضمرات کا ادراک نہ اِدھر ہے نہ اُدھر۔
Source: