نواب اکبر بگٹی اور وفاقیت پرست سیاست کا بانجھ پن – محمد عامر حسینی

 

آج 26 اگست 2017ء ہے۔ بلوچستان کے سابق چیف منسٹر نواب شبہاز اکبر خان بگٹی کی برسی ہے۔

اس موقعے پہ پورے بلوچستان میں بلوچ اکثریت کے علاقوں میں پہیہ جام ہڑتال اور مکمل شٹر ڈاؤن ہے۔اگر آپ سوشل میڈیا پہ اس دن کی مناسبت سے بلوچ قوم سے تعلق رکھنے والے افراد کی پوسٹوں کا ایک جائزہ لیں تو آج بلوچستان میں کون سی فکر اور سوچ غالب ہے؟ آپ کو اس کی بخوبی سمجھ آسکتی ہے۔

انگریزی اخبار روزنامہ ڈان سے وابستہ معروف السٹیٹر خدا بخش ابڑو نے نواب شہباز اکبر بگٹی کی ایک السٹریشن بنائی ہے۔ اس میں انھوں نے نواب اکبر بگٹی کی ’عینک‘ کو بہت نمایاں کیا اور پھر ان کو اس غار کے دامن میں صوفے پہ بیٹھے دکھایا ہے جس غار کو ان کا مدفن بنا دیا گیا تھا اور وہاں سے ان کی عینک اور چند دوسری چیزیں ہی مل پائی تھیں۔

اب یہ عینک بھی بلوچستان کی قومی مزاحمت کی تحریک کے نوجوانوں میں مزاحمت اور جدوجہد کا استعارہ بن گئی ہے۔

ذوالفقار علی ذلفی سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پہ بہت سرگرم سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور لکھاری ہیں۔ انھوں نے اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پہ اپنی پوسٹ میں نصرت مرزا کے نواب اکبر بگٹی سے غار میں لیے گئے چند آخری انٹرویوز میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:

’نصرت مرزا نے نواب اکبر بگٹی سے پوچھا، اگر فوج اور قوم میں تصادم ہوگیا تو وہ کیا کریں گے؟ نواب بگٹی نے کہا، ’میں گورگیج بالاچ کی پیروی کروں گا‘۔

اکبر بگٹی نے جب یہ کہا تو بلوچ سمجھ گئے تھے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا لیکن نصرت مرزا اور پاکستان کے دیگر لوگوں کی اکثریت کو اس کی سمجھ نہیں آئی تھی۔‘

زلفی اصل میں یہ کہنے کی کوشش کررہے تھے کہ پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس اور اس کے گرد گھومتا پاکستان کا مین سٹریم میڈیا بلوچ تاریخ سے ہی لاعلم نہیں، یہ بلوچ قوم کے ہیروز اور سورماؤں سے بھی ناواقف اور ان کی تاریخ میں قوم پرستی کی بڑی لہروں سے نابلد ہیں۔ تبھی تو یہ بلوچ قوم سے معاملہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

بلوچ نوجوانوں کی اکثریت نواب شہباز اکبر بگٹی کی زبردست مداح ہے اور وہ ان کی مشرف دور میں شہادت کے بعد سے بہت زیادہ عزت کرتی ہے اور ان کے ماضی کے ان گوشوں کو بھول چکی ہے جب نواب اکبر خان بگٹی بلوچ قوم کی اکثریت کی خواہشات اور امنگوں کے مخالف سمت کھڑے تھے۔

نواب اکبر بگٹی نے نوجوانی میں بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ ڈالا اور وہ اس موقعے پہ قلات نیشنل اسمبلی اور قلات میں سرگرم دیگر پارٹیوں کی طرح بلوچ قوم کے آزاد اور خود مختار الگ وطن کی حمایت میں نہ کھڑے ہوئے۔

70ء تک آتے آتے ان کے خیالات میں تھوڑا بدلاؤ آیا اور وہ نیشنل عوامی پارٹی کی طرف جھگ گئے لیکن 71ء کے انتخابات کے بعد نیپ کی قیادت نے ان کو اون کرنے کی بجائے ڈس کریڈٹ کردیا۔

نواب خیربخش مری اور عطا اللہ مینگل اور دیگر نے نواب اکبر بگٹی کے نیپ کے اجلاسوں میں بیٹھنے پہ انگلی اٹھادی۔ نواب اکبر اس سارے عمل سے اس قدر غصے میں آئے کہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملالیا۔

لیکن نواب اکبر بگٹی کو بتدریج یہ احساس ہوتا چلا جارہا تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ اور وردی، بے وردی نوکر شاہی بلوچستان کو مفتوحہ کالونی سمجھتی ہے اور وہ چند سرداروں اور دیگر لوگوں کو رشوت دے کر وہ یہ یہ خیال کرتی ہے کہ اس سے ان کو کچھ بھی کرنے کا لائنسس مل جاتا ہے۔

نواب اکبر بگٹی کی یہ سوچ اس وقت عمل میں بدل گئی جب ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ پاکستانی فوج کے ایک افسر کیپٹن حماد نے مبینہ طور پرجنسی زیادتی کی۔ نواب اکبر خان بگٹی زیادتی کے مبینہ ملزم کی ان کے پاس حوالگی کا مطالبہ کررہے تھے جبکہ واپسی تو درکنار کیپٹن حماد سے کوئی ابتدائی پوچھ پڑتال بھی نہیں ہوئی۔

نواب اکبر بگٹی اس واقعے کے بعد مکمل طور پہ ’قوم پرستی‘ کی طرف مائل ہوئے اور وہ مرکز کی کسی یقین دھانی پہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔

انہوں نے اپنی موت سے کچھ دنوں پہلے ملٹری کے محاصرے کے دوران بلوچی زبان میں ایک انٹرویو دیا تھا۔ یہ تین منٹ کا انٹرویو ہے۔اس انٹرویو میں نواب اکبر خان بگٹی کہتے ہیں:

’میں نے اپنی زمینوں پہ سکول، کالج، ہسپتال بنوائے اور اپنی زمینیں عوام کی خوشحالی کے لیے عطیہ کیں اور مقصد عوام کی بھلائی اور بہتری تھا۔

حکومت کہتی ہے کہ سردار ’ترقی اور ڈویلپمنٹ‘ نہیں چاہتے تو مکران میں تو نہ سردار ہیں اور نہ قبائلی نظام۔

میں نے تو وہاں بھی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوئی نہیں دیکھیں۔

وہاں لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے اور وہ علاقے ہمارے علاقوں کی طرح پسماندہ ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں قبائلی نظام نہیں ہے۔

میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ ترقی وہ ہوتی ہے جس کے عوام  اپنی ضروریات کے تحت خواہش مند ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو حکومت ہم پہ بزور طاقت مسلط کرتی ہے۔

حکومت چھاؤنیاں اور شاہراہیں فوج کے لیے بناتی ہے جوکہ ہم نہیں چاہتے۔

یہ ایسا انفراسٹرکچر بناتی ہے جس سے ہمیں اور زیادہ دبایا جاسکے اور ہم پہ قبضے کو جاری رکھا جاسکے تاکہ ہماری ’نسل کشی‘ کی راہ ہموار ہوتی رہے۔ ایسی ترقی جو عوام کے مفاد میں ہو اور عوام کی ضرورت ہو اسے میں خوش آمدید کہتا ہوں۔‘

سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے ایک ہوٹل میں منعقدہ پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے اکبر خان بگٹی کو مارنے کی یوں توجیہہ پیش کی :

’نواب اکبر بگٹی کو مارنے کا فیصلہ صرف میرا نہیں تھا بلکہ اس میں ڈی جی ایف سی، کورکمانڈر کوئٹہ، گورنر بلوچستان، چیف منسٹر، وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعظم سب مشترکہ طور پہ شامل تھے۔

نواب اکبر بگٹی کے فراری کیمپ پورے بلوجستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ان کے آدمی سوئی گیس اور تیل کی پائپ لائنوں پہ حملے کررہے تھے۔ ڈیرہ بگٹی کے پہاڑوں سے ایف سی پہ ایک دن میں 400 راکٹ فائر کیے گئے۔

یہ لوگ پاکستانی فوج کے کاموں میں اور ریاست کی ترقی کے کاموں میں رکاوٹ ڈال رہے تھے اور پاکستان سے الگ ہونے کی مانگ کررہے تھے تو ایسے لوگوں کو کچل دیاجانا اور مار دیا جانا بالکل ٹھیک اقدام تھا‘۔

اگرچہ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی سیاست کا جھنڈا اٹھانے والی مین سٹریم سیاسی جماعتوں نے نواب اکبر خان بگٹی کی موت کو قتل قرار دیتے ہوئے جنرل مشرف کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ شریک چئرمین آصف علی زرداری ہوں یا پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابق سربراہ اور معزول وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق یا جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان ہوں یا پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ۔۔۔

ان سب نے آج تک بلوچستان میں مرکز اسلام آباد اور اس کی مرضی سے بننے والی بلوچستان حکومتوں کے ڈویلپمنٹ ماڈل (ترقی کے ماڈل) میں کسی جوھری اور بنیادی خرابی کی نشاندہی نہیں کی ہے۔

نہ ہی ان کی جانب سے نواب اکبر خان بگٹی، عطا اللہ مینگل، نواب خیربحش مری اور آج کی نئی نسل کے وہ بلوچ لیڈر جن کو مرکز والے منحرف بلوچ قیادت اور پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ غدار اور بھارتی پراکسی جبکہ پاکستان کی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی اکثریت ناراض بلوچ رہنما قرار دیتی ہے کے ترقی بارے موقف اور تصور کو کوئی اہمیت دی گئی ہے۔

اس وقت نواب اکبر بگٹی بعد از مرگ بلوچ قوم میں مزاحمتی سیاست کے حامیوں میں آزادی و خود مختاری کی علامت ہیں جبکہ بلوچ قوم کے اندر وفاقی پارلیمانی سیاست کے علمبرداروں کے نزدیک نواب اکبر بگٹی اب بھی وفاق پرستی کی علامت ہیں۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیشتر تجزیہ کار نواب اکبر بگٹی کی قائد اعظم سے دوستی، پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے اور پھر بلوچ ںیپ قیادت کے برعکس کوئٹہ کی گورنری اسلام مرکز کی اشیر باد سے لینے اور پھر کئی وزراتیں اور اس کے بعد چیف منسٹر بلوچستان بننے کا زکر کرتے ہیں اور نواب اکبر خان بگٹی کی موت کا ذمہ دار محض مشرف کو ٹھہراتے ہیں۔

ان میں سے اکثر بار بار ڈائیلاگ اور مکالمے کی بات بھی کرتے ہیں، یہ مرکز پرست جو اپنے آپ کو ’پاکستانیت‘ کا علمبردار کہتے ہیں۔ تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیا ڈائیلاگ و مکالمہ کرنے سے پہلے وہ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ بلوچستان میں (مرکز کا) ترقی کا جو ماڈل ہے وہ وہاں کی عوام کی خواہشات اور ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا؟

کیا وہ یہ بتاسکتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی آخری دنوں میں وہی بات کیوں کرنے لگے تھے جو ان سے پہلے خیربخش مری، عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو نے کئی بار دُھرائی تھیں؟

نواب اکبر خان بگٹی کی ناگہانی موت کو گیارہ سال گزرچکے ہیں۔ ان کے قتل کے مقدمے میں جنرل مشرف سمیت سب نامزد ملزمان عدالتی اشتہاری ہیں۔ یہ کیس ایک طرح سے ڈیڈ پڑا ہوا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس جس میں بہت بھاری تعداد پنجابی بولنے والوں کی ہے کے ہاں بلوچستان میں (ان کے بقول) انسرجنسی /بغاوت اور شورش (جو بلوچ علیحدگی پسندوں کے ںزدیک آزادی کی تحریک ہے) سوائے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کی منصوبہ بندی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

وہ آج تک اس کا رشتہ پاکستان کے مجموعی ترقیاتی ماڈل سے جوڑکر بڑے کینویس میں اسے دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔

قاضی ریحان داد گوادر سے تعلق رکھنے والے آزاد خیال بلوچ دانشور ہیں۔

انھوں نے نواب اکبر خان بگٹی پر ’شہید اکبر۔۔۔ صدی کی تاریخ‘ کے عنوان سے ایک چشم کشا طویل مضمون لکھا ہے۔

اس میں وہ بتاتے ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی نے آخری وقت بھی یہ کوشش کی کہ مرکز کے ساتھ ایک باعزت معاہدہ ہوجائے اور خون خرابے سے بچتے ہوئے بلوچ ۔ مرکز تنازعے کا حل نکل آئے۔

انھوں نے ان 16 نکات کا ذکر کیا ہے جو نواب اکبر خان بگٹی نے چودھری شجاعت اور مشاہد حسین کی قیادت میں آنے والے وفد کے ساتھ مذاکرات کے دوران پیش کیے تھے۔

یہ نکات بہت اہمیت کے حامل تھے اور یہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی نے ایک طرح سے بلوچستان کے لیے کم و بیش وہ مانگیں کی تھیں جو شیخ مجیب الرحمان نے چھے نکات میں پیش کی تھیں اور شیخ مجیب نے ان مطالبات کے گرد ہی الیکشن مہم چلائی تھی اور الیکشن جیت بھی لیا تھا۔

مگراس زمانے میں بھی مغربی پاکستان کی کم و بیش سب وفاق پرست سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کو مسترد کردیا تھا اور پھر ریاست نے اس تنازعے کا  فوجی حل تلاش کرنا چاہا تھا اور انجام سب کے سامنے ہے۔

وفاقی پارلیمانی سیاست کرنے والی جماعتوں کی جملہ قیادت ہو یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ یا پاکستان کی پنجابی اکثریت کی حامل اربن چیٹرنگ دانش، ان کے نزدیک تو پاکستان میں ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن جو کنفیڈریشن کے قریب ہو اس کی بات کرنا ہی غداری ہے یا انتہا پسندی ہے۔

جبکہ پوسٹ مشرف دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سمیت بلوچ و پشتون قوم پرست پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے کا حل ’18ویں ترمیم‘ کی صورت پیش کیا جس میں ’انتقال و تقسیم اقتدار‘ محض سراب ہی ثابت ہورہا ہے۔

بلوچستان، سندھ، سرائیکی بیلٹ، فاٹا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں اس وقت فیڈرل پارلیمانی سسٹم کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان علاقوں میں قوم پرستی کا ’علیحدگی پسند رجحان‘ ہی سندھی، بلوچ ، گلگتی، بلتی اور کشمیری نوجوانوں میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔

ریاست اس رجحان کی مقبولیت کو سنسر شپ ، میڈیا کنٹرول، اینٹی سائبر کرائمز ایکٹ ، سوشل میڈیا کنٹرول پالیسیز اور پاکستان پروٹیکشن ایکٹ  اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے وسیع پیمانے پہ اطلاق کے زریعے سے چھپانے، دبانے کی کوشش کررہی ہے۔

ریاست کی جانب سے تو اس معاملے کی نشاندہی کرنے والے لبرل، سافٹ ناقد لکھاریوں، بلاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو بھی معاف نہیں کیا جارہا ہے۔

اس وقت ریاست کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کا ماڈس آپرینڈی ( طریقہ کار) بلوچستان ، اندرون سندھ ، کراچی، کے پی کے، فاٹا اور سرائیکی ریجن میں جبری گمشدگیاں ، ماورائے عدالت و قانون قتل، سی ٹی ڈی، ایف آئی اے اور سی آئی اے کا بظاہر آئین و قانون سے ماورا اقدامات کے زریعے سے لوگوں کو دبانا لگ رہا ہے۔

پاکستان کا جو سب سے بڑا آئیں ساز ادارہ (پارلیمنٹ) اس مسئلے پہ آج تک کوئی سنجیدہ بحث تک نہیں کرسکا اور پارلیمانی جماعتوں کی قیادت اس پہ بانجھ نظر آتی ہے۔

سول سوسائٹی کی پنجاب، کراچی واسلام آباد کا اشراف سیکشن نواز شریف، زرداری،عمران خان وغیرہ سے باہر نکلنے اور اس سے اوپر اٹھ کر ایشوز کو دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔

مہرجان کے گھوسٹ نام سے سوشل میڈیا پہ سرگرم بلوچ دانشور کا یہ جملہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس کے لکھاریوں کے بارے میں مظلوم اور کچلے جانے والے گروہوں کے دانشور کیا سوچ رکھتے ہیں:

’جب میں ریاستی لبرل کہتا ہوں تو کچھ لوگ لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑتے ہیں لیکن شکر ہے قوم دوست انسان وہاں پہنچ گئے جہاں انہیں پہنچانا مقصود تھا۔ آپ کسی لبرل تجزیہ کار کے پوسٹ 14 اگست کے حوالے سے دیکھیں تو اقلیت سے محبت،11اگست کی تقریر ہی موضوع بحث ہے۔اقلیت برداری سے محبت اپنی جگہ کیا کسی ریاستی لبرل دانشور نے اقلیتی قوموں پہ جاری ریاستی جبر پہ بھی کچھ لکھا ہے؟

مذہب کا منجن بیچنے والے دانشور قوموں کو مذہبی کلمے میں جبکہ ( نام نہاد) لبرل ریاستی بیانیے میں زبردستی پرو کر قومی سوال کو جس شدت سے دبانے کی کوشش کررہے ہیں یہ اسی شدت سے اُبھر رہا ہے‘۔

Source:

http://nuktanazar.sujag.org/akbar-bugti-anniversary

Comments

comments