جوگندر ناتھ منڈل : کچھ نئے سوالات – عامر حسینی

 

ڈان نیوز اردو ویب سائٹ پہ اختر بلوچ کا ایک آرٹیکل شایع ہوا ہے۔اس آرٹیکل میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت خاص طور پہ جناح صاحب کے بارے میں پاکستان کی لبرل اشرافیہ کے بنائے ہوئے ایک خاص بیانئے کو ‘جوگندر ناتھ منڈل ‘ کے راستے سے ایک بار پھر کوشش کی گئی اور تاریخی تناظر میں خود جوگندرناتھ منڈل کے کردار کی جانچ کرنے سے انحراف کیا گیا۔اختر بلوچ نے اپنے اس مضمون میں یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ جناح ‘جوگندرناتھ منڈل’ کو وزیرقانون بناکر پاکستانی ریاست کو جدید لبرل روشن خیال و سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کررہے تھے اور نوکر شاہی /بیوروکریسی نے اسے ناکام بناڈالا۔

اس سے پہلے یاسر لطیف ہمدانی کا ایک آرٹیکل ڈیلی ٹائمز میں شایع ہوا تھا جس میں یاسر لطیف ہمدانی نے ‘دو قومی نظریہ ‘ کا خالق ڈاکٹر امبیدکر اور جناح ‘ دونوں کو قرار دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس نظریہ کا ‘مذہب ،اسلام ‘ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔یاسر لطیف ہمدانی نے اس آرٹیکل میں امبیدکر کی کتاب

Annihilation of Caste

کا ذکر تو کیا لیکن کسی ایک جگہ بھی اس نے امبیدکر کی کتاب ‘ پاکستان اینڈ پارٹیشن آف انڈیا ‘ اور امبیدکر کے لیکچر ‘ رندے،جناح اور گاندھی’اور اس میں جناح و گاندھی کے بارے میں ظاہر کئے گئے خیالات بارے اپنے پڑھنے والوں کو نہیں بتایا۔عاسر لطیف ہمدانی اے وی سوامی،امبیدکر اور جناح کی 1939ء میں پونا میں ملاقات کا ذکر تو کرتا ہے اور وہاں پہ سامنے آنے والے مشترکہ اعلامیہ کی بات کرتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ امبیدکر اور سوامی نے جناح کی جانب سے کانگریس اور برٹش کے تقسیم کے پلان اور اس کے نتیجے میں بننے والی مجوزہ ریاست پاکستان کو کیسے 1939ء کے اعلامیہ سے انحراف اور اپنے آپ سے غداری خیال کیا تھا؟اور تقسیم پہ امبیدکر نے اپنی کتاب میں جناح اور پاکستان بارے کیا تحریر کیا تھا ۔وہ بس ہمیں یہ کہتا ہے کہ امبیدکر جناح کے بعض اقدامات کا ناقد تھا لیکن وہ جناح کے ساتھ مثالی تعلقات کے حامل تھے جبکہ یہ سراسر حقائق کے منافی بات ہے

http://www.dailytimes.com.pk/…/ambedkar-jinnah-and-muslim-n…
http://www.india.com/…/b-r-ambedkar-vs-muhammad-ali-jinnah…/
http://www.india.com/…/b-r-ambedkar-125th-birth-anniversar…/
http://www.firstpost.com/…/attention-sanghis-when-the-musli…
http://www.columbia.edu/…/00ambedk…/txt_ambedkar_ranade.html

جوگندرناتھ منڈل ہندؤ دلت /اچھوت کمیونٹی کا ایک ایسا فرد تھا جو تعلیم یافتہ اور قانون کے شعبے کی ڈگری رکھتا تھا اور وہ ممبئی /بمبئی کی مڈل کلاس کا حصّہ تھا۔جوگندرناتھ منڈل نے ممبئی کی مونسپل کونسل کا الیکشن لڑا اور وہ ممبر بھی بنے اور وہیں کونسل میں ان کے روابط آل انڈیامسلم لیگ سے ہوگئے۔وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے کمیونل ایشو پہ موقف کی حمایت میں سرگرداں ہوگئے۔جوگندرناتھ منڈل کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے بشمول محمد علی جناح نے 1937ء کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد کانگریس سے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمیونل ایشو پہ اپنے لئے بہت کارآمد پایا۔کانگریس نے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے کانگریس کو ہندؤں کی جماعت قرار دینے بلکہ اسے ہندؤں کی اونچی جاتی خاص طور پہ برہمن واد پارٹی ثابت کرنے کے الزام کو رد کرنے کے لئے کانگریس کی صدارت ابوالکلام آزاد کے سپرد کی اور ھلت ہندؤ کمیونٹی کو کانگریس کے ساتھ جوڑنے کے لئے ایک جانب تو گاندھی نے ان کے لئے ہریجن کا نیا نام پسند کیا جسے دلت کمیونٹی کی سیاست کے سب سے بڑے ترجمان ڈاکٹر امبیدکر نے مسترد کردیا اور گاندھی پہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ دلتوں کو برہمن جاتی کا غلام بنائے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اسی دوران ہندوستان کی کمیونل سیاست میں ایک اور کردار بہت تیزی سے مرکزی سیاست کے منظرنامے پہ ابھرکر سامنے آیا اور وہ تھا ارودے وینکٹ پا رام سوامی /ای وی رام سوامی پریار ۔یہ مدراس پرزیڈنسی کے انتہائی مالدار گھرانے کے فرد تھے اور انیس سو انیس میں کانگریس میں شامل ہوئے مگر 1925ء میں کانگریس سے مستعفی ہوگئے اور انھوں نے کانگریس پہ برہمنوں کی پارٹی ہونے کا الزام عائد کیا جبکہ یہ اچھوتوں میں سب سے نچلے طبقے جن کو ‘مہار /چوڑے چمار کہا جاتا تھا کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنے لگے۔اور ‘مہاروں’ کو منظم کرنے لگ گئے تھے۔ڈاکٹر امبیدکر اس دوران دلت کے حقوق کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔اور یہ دونوں نچلی جاتی کے ہندؤں میں بہت مقبول تھے اور گاندھی سے لیکر نہرو تک یہ کانگریس کی قیادت کے شدید ناقد تھے۔

جب 37ء میں کانگریس کی وزراتیں قائم ہوگئیں اور کانگریس نے کسی بھی جگہ آل انڈیا مسلم لیگ کو شریک اقتدار کرنا مناسب خیال نہ کیا اور خود آل اںڈیا مسلم لیگ کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کا دعوی کردیا تو جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے کانگریس کو ایک ہندؤ برہمن جماعت جبکہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پہ منوانے کی حکمت عملی اختیار کی اور بہت جارحانہ اقدامات کئے تو اسی حکمت عملی کے تحت جناح اور مسلم لیگی قیادت نے کانگریس کو زچ کرنے اور اسے نیچا دکھانے کے لئے امبیدکر اور اے وی رام سوامی سے روابط شروع کئے اور پھر 1939ء میں یہ تینوں رہنماء پونا میں اکٹھے ہوئے۔جناح کا پاکستان ، اے وی رام سوامی و امبیدکر کا دراوڑستان ان دونوں کے امتزاج سے نئی حکمت عملی بنانے پہ اتفاق ہوا۔

اس زمانے میں جناح نے ان دونوں رہنماؤں کو یہ تاثر دیا کہ وہ کسی بھی قسم کی تھیوکریٹک ریاست بنانے کے خواہاں نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں جب آزادی ملے تو مسلمان ، دلت ، سکھ جو ہندؤ براہمن مفادات کی نمائندہ پارٹی کانگریس ہے اس کے یک طرفہ راج سے امان پاجائیں۔لیکن بعد ازاں جناح نے ‘ہندؤ۔مسلم ‘ کی بنیاد پہ ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے پہ کانگریس سے ملکر رضامندی ظاہر کردی اور اے وی رام سوامی و ڈاکٹر امبیدکر وغیرہ کو بالکل بھی اعتماد میں نہیں لیا۔اے وی سوامی نے جناح سے کہا بھی کہ وہ ان کی درواڑستان کی آواز بھی بلند کریں لیکن اس کے جواب میں جناح نے جو کہا وہ بہت مایوس کن تھا

‘اگر لوگ درواڑستان چاہتے ہیں تو وہ خود اس کی مانگ کریں،میں تو صرف مسلمانوں کا ترجمان ہوں ‘
ڈاکٹر امبیدکر نے جناح کے اس رویے کو صریح غداری اور دھوکے سے تعبیر کیا اور انھوں نے اس حوالے سے ایک کتاب ‘پاکستان اینڈ پارٹیشن آف انڈیا ‘ بھی لکھی۔اس میں ایک جگہ پہ امبیدکر نے صاف صاف لکھا کہ جناح ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کی باہمی بھائی چارے کی جو بات کی تھی وہ دھوکہ تھی۔ان کے ہاں ‘یکجہتی کی بات مسلمانوں کے علاوہ دلت اور دیگر سے ہے تو سہی لیکن اس کا فائدہ صرف ان کے لئے ہے جو اس کارپوریشن کے ممبر ہیں جبکہ اس کارپوریشن سے جو باہر ہیں ان کے لئے دھکے اور دشمنی ہی ہے’۔

ڈاکٹر امبیدکر نے گوکھلے میمویل ہال پونا میں( 18 جنوری 1940ء) ایک لیکچر دیا جس کا عنوان تھا

‘Ranade ,Gandhi and Jinnah ‘

اس لیکچر میں امبیدکر نے گاندھی اور جناح کے بارے میں دو پیراگراف میں یوں تبصرہ کیا :

Politics in the hands of these two Great Men have become a competition in extravaganza. If Mr. Gandhi is known as Mahatma, Mr. Jinnah must be known as Qaid-i-Azim. If Gandhi has the Congress, Mr. Jinnah must have the Muslim League. If the Congress has a Working Committee and the All-India Congress Committee, the Muslim League must have its Working Committee and its Council.

The session of the Congress must be followed by a session of the League. If the Congress issues a statement, the League must also follow suit. If the Congress passes a Resolution of 17,000 words, the Muslim League’s Resolution must exceed it by at least a thousand words. If the Congress President has a Press Conference, the Muslim League President must have his. If the Congress must address an: appeal to the United Nations, the Muslim League must not allow itself to be outbidden.

When is all this to end? When is there to be a settlement? There are no near prospects. They will not meet, except on preposterous conditions. Jinnah insists that Gandhi should admit that he is a Hindu. Gandhi insists that Jinnah should admit that he is one of the leaders of the Muslims. Never has there been such a deplorable state of bankruptcy of statesmanship as one sees in these two leaders of India.

They are making long and interminable speeches, like lawyers whose trade it is to contest everything, concede nothing, and talk by the hour. Suggest anything by way of solution for the deadlock to either of them, and it is met by an everlasting “Nay.” Neither will consider a solution of the problems which is not eternal. Between them Indian politics has become “frozen,” to use a well-known Banking phrase, and no political action is possible.

ان دو پیرا گراف سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ امبیدکر جناح اور گاندھی کو ایسے سٹیٹس مین خیال کرتا تھا جن کے دیوالیہ پن کی تباہ کن حد تک حالت کا آج تک کسی اور جگہ پہ مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔امبیدکر کہتا ہے کہ جناح چاہتے ہیں کہ گاندھی اپنے آپ کو پورے ہندوستان کا رہنماء ماننے کی بجائے صرف ‘ہندؤ لیڈر ‘ مان لے جبکہ گاندھی جناح سے کہتا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا واحد اور آخری رائے دینے کا حق رکھنے والا لیڈر کہلانا چھوڑ دے۔امبیدکر دونوں کو ہندوستانی سیاست کو مفلوج کرنے کا الزام دیتا ہے۔امبیدکر کی جناح اور گاندھی پہ اس تنقید سے پریس میں بہت شور اٹھا تھا۔جب امبیدکر کا یہ لیکچر شایع ہوا تو اس کے دیباچے میں امبیدکر نے اس تنقید کے بارے میں کچھ جوابات دئے:

I am condemned because I criticized Mr. Gandhi and Mr. Jinnah for the mess they have made of Indian politics, and that in doing so I am alleged to have shown towards them hatred and disrespect. In reply to this charge what I have to say is that I have been a critic and I must continue to be such. It may be I am making mistakes, but I have always felt that it is better to make mistakes than to accept guidance and direction from others or to sit silent and allow things to deteriorate.

Those who have accused me of having been actuated by feelings of hatred forget two things. In the first place this alleged hatred is not born of anything that can be called personal. If I am against them, it is because I want a settlement. I want a settlement of some sort, and I am not prepared to wait for an ideal settlement. Nor can I tolerate [for] anyone on whose will and consent settlement depends, to stand on [his] dignity and play the Grand Moghul.

In the second place, no one can hope to make any effective mark upon his time, and bring the aid that is worth bringing to great principles and struggling causes, if he is not strong in his love and his hatred. I hate injustice, tyranny, pompousness and humbug, and my hatred embraces all those who are guilty of them.

I want to tell my critics that I regard my feelings of hatred as a real force. They are only the reflex of the love I bear for the causes I believe in, and I am in no wise ashamed of it. For these reasons I tender no apology for my criticism of Mr. Gandhi and Mr. Jinnah, the two men who have brought India’s political progress to a standstill.

اس لیکچر کی تاریخ اشاعت 1943ء اور یہ دیباچہ امبیدکر نے 22 پرتھوی راج روڈ دہلی سے 15 مارچ 1943ء کو لکھا۔امبیدکر کہتے ہیں کہ ان کو گاندھی اور جناح پہ تنقید کرنے پہ کوئی شرمندگی نہیں ہے اور ان کی تنقید اور ان دونوں رہنماؤں کی سیاست سے نفرت کی بنیاد ذاتی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی سیاست میں ‘گند ‘پھیلانے کے سب ہے۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی سیاست کو مفلوج کرنے اور ایک جگہ پہ کھڑا کرنے میں ان دونوں رہنماؤں کا بڑا ہاتھ ہے۔
ہم ڈاکٹر امبیدکر اور اے وی رام سوامی کی جناح بارے آراء سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ان کو مبالغے سے تشبیہ دے سکتے ہیں لیکن خود جناح کے الفاظ میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے کمیونل ایشو پہ اپنے تئیں بس مسلمانوں کے مفاد کی ترجمانی کررہے تھے۔اگرچہ یہ بات قابل بحث ہے کہ جب جناح مسلمان کہتے تھے تو کیا ان کی پالیسیاں مسلمانوں کے تمام سماجی طبقات کے مفادات کی ترجمانی کرتی تھیں ؟ تقسیم سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا جو حال ہوا اور بڑے پیمانے پہ مہاجرت اور خون ریزی ہوئی اس بارے جناح اور لیگ کی قیادت پہ کافی سوال اٹھائے جاتے ہیں جیسے کانگریس پہ ہندؤ اور سکھوں کی مہاجرت اور ان پہ ٹوٹ پڑنے والے مصائب کے حوالے سے اٹھائے جاتے ہیں ۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناح نے اے وی سوامی اور ڈاکٹر امبیدکر کے بقول جب ان سے دھوکہ کرلیا تھا جوگندرناتھ منڈل کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آرہی تھی اور وہ کیوں بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ اور جناح کے ساتھ چل رہے تھے۔اس کی بنیادی وجہ بنگال کی سیاست تھی۔بنگال کے اندر جس چیلنج کا سامنا مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کو تھا کم و بیش اس طرح کا چیلنج دلت ہندؤں کو بھی تھا۔مسلمان اور ہندؤ دلتوں کی اکثریتی آبادی غریب کسانوں پہ مشتمل تھی جبکہ تھوڑی سی جو مڈل کلاس /شہری بابو کلاس تھی اس کو بھی اپنے اپنے شعبوں میں ہندؤ مڈل کلاس اور ہندؤ سرمایہ دار پرتوں سے سخت ترین دشمنی کا سامنا تھا۔کانگریس میں بنگال کے ہندؤ براہمن اور مرکنٹائل و بڑے زمین داروں کی نمائندگی ولبھ بھائی پٹیل کررہے تھے۔اور یہ ولبھ بھائی پٹیل تھے جنھوں نے 1946ء کے الیکشن میں ممبئی کی پرونشل اسمبلی کے ممبران کے ووٹوں سے ڈاکٹر امبیدکر کو مرکزی دستور ساز اسمبلی کا رکن بننے سے رکوانے کی ہدائیت بمبئی دستور ساز اسمبلی کے وزیر اعظم پی جے کھیر کو جاری کی تھیں اور ڈاکٹر امبید کر کو اس بات کا بخوبی علم ہوگیا تھا۔

جب کانگریس ممبئی سے امبیدکر کا راستا روکنے مرکزی دستور ساز اسمبلی میں آنے سے روک رہی تھی تو اس وقت جوگندر ناتھ منڈل بنگال میں مسلم لیگ کی حسین شہید سہروردی کی قیادت میں بننے والی حکومت کے اندر طاقتور اور بااختیار وزیر اور حسین شہید سہروردی کے فیورٹ اور انتہائی معتمد ساتھی تھے۔اور بنگال کے اندر وہ دلت۔مسلم یونٹی کے سب سے بڑے دلت ہندؤ رہنماء بھی تھے۔جوگندر ناتھ منڈل ایک آئیڈیل ازم کا شکار تھے۔ان کا خیال یہ تھا کہ جناح کی قیادت میں پاکستان ایک سیکولر ریاست بنے گا۔اور اس ریاست میں دلت ہندؤں کے مفادات اور حقوق کا کانگریس کی حکمرانی کے تحت بننے والے ہندوستان سے کہیں زیادہ تحفظ کیا جائے گا۔

جوگندر ناتھ منڈل نے بنگال سے دلت ہندؤ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبران بنگال اسمبلی کی مدد سے ڈاکٹر امبیدکر کو مرکزی قانون ساز اسمبلی کا رکن بنوادیا۔اور یہ اقدام کرتے ہوئے جوگندرناتھ منڈل کا خیال تھا کہ ڈاکٹر امبیدکر اس احسان کے جواب میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تقسیم ہندوستان اور پاکستان کی ریاست کے قیام کو تسلیم کرلیں گے اور ان کے ساتھ ہی نئی بننے والی ریاست کا حصّہ ہوں گے۔لیکن ڈاکٹر امبیدکر نے اس مثالیت پسندی کو رد کردیا۔ان کا خیال یہ تھا کہ پاکستان اول وآخر مسلم ریاست ہوگا اور اس کا فائدہ بھی مسلمانوں کو جو کہ اس ریاست میں ہوں گے کو ہی ہوگا ( اب یہ سوال اپنی جگہ پہ ہے اس کا کتنا فائدہ پاکستان کے محنت کش طبقات اور مختلف قومیتوں کو ہوسکا ) ۔

اختر بلوچ اور دیگر وہ لوگ جناح کے تصور ریاست کو ‘لبرل سیکولر ڈیموکریٹک تصور ریاست ‘ قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے جوگندرناتھ منڈل کو وزیر قانون بنائے جانے اور پاکستان کی پہلی مرکزی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کو اس کی دلیل بناتے ہیں جبکہ خود جوگندرناتھ منڈل کا بھی یہی خیال تھا تو ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل پاکستان ایک طرف تو شمال مغربی سرحدی صوبے میں ڈاکٹر خان کی وزرات برطرف کی تو دوسری طرف سندھ میں ایوب کھوڑو کی وزرات کو برطرف کردیا۔اور ایسے ہی انھوں نے ‘زبان ‘ کے سوال پہ بنگالیوں کو صاف صاف بتایا کہ صرف و صرف اردو ہی ریاست کی قومی زبان ہوگی۔

جناح نے پاکستان بننے کے بعد جو احکامات جاری کئے اور پاکستان میں موجود اکائیوں کی شناخت بارے جو رویہ اختیار کیا ، کیا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جناح کا تصور فیڈریشن تھا کیا۔کیا یہ ایک سخت مرکزیت پسند ریاست کا تصور نہیں تھا؟اس دوران قصّہ خوانی بازار سے لیکر بابڑہ چارسدہ تک جو ہوا کیا وہ ایک جدید لبرل سیکولر ڈیموکریٹ گورنر جنرل کی سربراہی میں پیش آنے کا جواز بنتا تھا؟جو کچھ 1948ء کو بلوچستان میں اور ریاست قلات کے ساتھ ہوا کیا اس کی کوئی توجیہ لبرل ڈیموکریسی کے تناظر میں بنتی ہے؟ پاکستان کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کا ایک لبرل سیکشن جناح کو جس سیکولر لبرل ڈیموکریٹک ریاست کا علمبردار بتاتا ہے اس میں صوبائی خودمختاری ، شہری آزادیوں اور قومی شناخت کے سوالات کا جواب بہت ہی منفی نظر آتا ہے۔11 اگست کے بعد بھی جناح نے اپنی وفات کے بعد بھی ‘اسلامی جمہوری ریاست ‘ اور ایسے ہی ‘اسلامی وفاقی پارلیمانی دستور ‘ جیسی اصطلاحات استعمال کیں جن سے 11 اگست کی تقریر بارے کنفوژن اور بڑھ جاتا ہے۔اور یہاں ہمیں امبیدکر یاد آتا ہے جس نے ‘جناح کو وکیل قرار دیا اور کہا کہ ان کو ہر کیس کو لڑنا ہے چاہے اس کی بنیاد سچ پہ ہو یا جھوٹ پہ ۔اور جس چیز سے بھی راستا نکلتا ہو نکالا جائے۔

اگر اسلام کی بنیاد پہ قوم کی تشکیل کا مقدمہ لڑنا ہو تو لڑا جائے اور یہ تک کہہ دیا جائے کہ ‘پاکستان تو اسی وقت بن گیا تھا جب 712ء میں محمد بن قاسم سندھ آیا /پاکستان اس وقت ہی بن گیا تھا جب یہاں پہلا شخص مسلمان ہوا۔دلت سوال کو جناح اور ان کے ساتھیوں نے پیش آمدہ صورت حال میں جوابی حملے کے طور اور ایک سیاسی ٹرک کے طور پہ استعمال کیا تھا۔آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکزی کابینہ کے مجوزہ نام جو 46ء میں وائسرائے کو بھجوائے تھے ان میں جوگندر ناتھ منڈل کا نام بھی کانگریس کے ابوالکلام آزاد کو کانگریس کا صدر اور دستور ساز اسمبلی کا رکن بنوانے کے جواب میں تھا۔

صرف یہ کہنا کہ جوگندرناتھ منڈل کا پاکستان چھوڑ جانا اور پھر واپس ہندوستان چلے جانا نوکر شاہی کے سبب ہوا تھا حقائق سے منہ پھیرنے کے مترادف ہے۔جب وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1949ء میں قرارداد مقاصد لانے کا فیصلہ کیا تو جوگندر ناتھ منڈل نے اس کی شدید محالفت کی اور یہ بات بھی مدنظر رہے کہ لیاقت علی خان اور ان کے ساتھی جوگندرناتھ منڈل کو حسین شہید سہروردی کے قریب خیال کرتے تھے اور وہ مشرقی بنگال سے منتحب ہندؤ اراکین اسمبلی پہ بھی قطعی اعتماد نہیں کرتے تھے۔اس لئے یہ کہنا کہ چوہدری محمد علی نے اپنے طور پہ ہی جوگندرناتھ منڈل کے خلاف کاروائیاں شروع کردی تھیں اور یہ صرف نوکر شاہی کی سازش تھی غلط ہے۔1949ء میں قراردادمقاصد منظور کی گئی اور پھر 1950ء میں ہی مشرقی پاکستان/بنگال میں ہندؤ دلت کا بڑے پیمانے پہ قتل عام ہوا۔لیاقت علی خان اس وقت زندہ تھے اور بہت طاقتور وزیراعظم کے طور پہ موجود تھے اور اپوزیشن کو سرے سے برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔

پبلک سیفٹی آرڈیننس سے لیکر اس کے ایکٹ میں بدل جانے تک حکمران مسلم لیگ کے اپنے اندر لیاقت علی خان کے حریف سمجھے جانے والے سیاست دانوں کو سیاست نہیں کرنے دی جارہی تھی۔جبکہ کمیونسٹ ، کانگریسی ، خدائی خدمتگاروں کے لئے بھی سیاست شجر ممنوعہ بن چکی تھی۔حسین شہید سہروردی کو پاکستان آنے نہیں دیا جارہا تھا۔ایسے میں جوگندرناتھ منڈل کو صاف صاف اندازہ ہوگیا کہ ان کے لئے اب پاکستان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اور انہوں نے جان بچانا ہی ٹھیک سمجھا۔جوگندر ناتھ منڈل واپس ہندوستان گئے اور انھوں نے کلکتہ میں اپنی سیاست کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں جوگندرناتھ منڈل کو صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ خود ہندؤ دلت حلقے اور مغربی بنگال کی کمیونسٹ پارٹی نے ‘جوگندر ناتھ’ کو جوگندر علی ملّا کا لقب دے ڈالا اور بنگال کے پریس میں اسے پاکستانی ایجنٹ کہا جارہا تھا۔اور جب اس نے 1967ء میں برسات سے الیکشن لڑا تو بری طرح سے شکست کھاگئے۔

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا ۔ کافر یہ کہے ہے مسلمان ہے تو

یہاں اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان نامی ریاست بارے جو تصورات جناح نے آگے بڑھائے اور اسے جوگندر ناتھ منڈل نے جس انداز میں دیکھا اس کی تعبیر کیا نکلی اور اسے ہی نیشنل انڈین کانگریس اور خاص طور پہ گاندھی جس سیکولر ہندوستانی قوم کا نقشہ کھینچتے تھے اس کی کیا تعبیر نکل کر سامنے آئی۔کیا بنگال ، پنجاب ، بلوچستان ، سندھ ، شمال مغربی سرحد کے مسلمان ، ہندؤ ، کرسچن غریب کسانوں اور شہری غریبوں کو وہ آزادی میسر آئی جس کے چھن جانے کا خدشہ کانگریس کی حکمرانی کی صورت بار بار دوھرایا جارہا تھا اور ایسے ہی کیا ہندوستان کے دلت ، مہار، غریب کسان ، محنت کشوں کو سیکولر نیشنلسٹ ہندوستان میں حقیقی آزادی مل سکی؟ادھر ہندوستان میں ارون دھتی رائے سمیت بہت سارے لوگ ہیں جو اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں جناح کو لبرل سیکولر آئکون بناکر پیش کرنے والی لبرل اشرافیہ اب بھی دیانت داری سے کام نہیں لے رہی وہ تاریخ کو بھی مرضی کا رنگ روپ دیتی ہے۔

ایک خیال یہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتوں کے حقوق کی ویسے ہی چمپئن بن رہی تھی جیسے آج کل بی جے پی بہار سمیت ديگر ریاستوں میں دلت ہندؤں کے ووٹ لینے کے لئے امبیدکر کی تصویر کے پیچھے چھپتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کے اندر بعض نمائشی عہدے مسلمان اور دلت کے کچھ لوگوں کو دے ڈالتی ہے۔نرنیدر مودی صوفی سنّی علماء کی کانفرنس میں جاتے ہیں اور یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ تو انتہا پسند اور دہشت گرد مسلمانوں کے خلاف ہیں جبکہ اس آڑ میں وہ اپنا ‘اسلامو فوبک ‘ تعصب چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ایسی ہی سیاست ہے جیسے جمعیت علمائے اسلام خواتین کی مخصوص نشست پہ ایک کرسچن عورت کو لیکر آتے ہیں اور اپنی کانفرنس میں کچھ ہندؤ اور کرسچن مذہبی ملاؤں کی رونمائی کرکے کرتی ہے یا سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کے لدھیانوی کو سفیر امن اور اشرفی کو ماڈریٹ ملّا کا خطاب نواز شریف کے حامی لبرل سیکشن دیتا ہے۔

Comments

comments