جھوٹے جگ کی جھوٹی پریت – محمد عامر حسینی
میں ہندی فکشن نگار یش پال( 1929ء ۔ 1978ء) کا ناول ’جھوٹا سچ‘ پڑھ رہا تھا۔ ایک ہزار 117صفحات کا یہ ناول کب میں نے ختم کیا مجھے پتا ہی نہ چلا۔
یش پال کا یہ ناول تقسیم ہند کے گرد گھومتا ہے اور اس ناول میں اس نے عورتوں کی آزادی، سرمایہ داری نطام، سوشلزم، انقلاب، گاندھی واد، کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ، اکالی دل، یونینسٹ پارٹی، اس زمانے کی پنجاب میں صحافت اور لاہور میں سرمایہ دار، درمیانی سرمایہ دار کلاس، نوکر پیشہ مڈل کلاس اور اس کے درمیان فرقہ وارانہ خلیج کے ساتھ ساتھ رومان کو ایسے ملا جلاکر پیش کیا ہے کہ بے اختیار پریم چند یاد آتے ہیں اور شاید اسی لیے یش پال کو پریم چند ثانی کہا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسے طوفان خیز دور کی کہانی ہے جب ہندوستان کا سماج دھیرے دھیرے ایک ایسے پاگل پن میں مبتلا ہوا کہ اس پاگل پن نے انسانوں سے ان کا انسان ہونا ہی چھین لیا تھا۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا جب ابھی بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی قربانی سے پنجاب کے اندر انسانی مساوات پہ قائم معاشرے کی گونج پیدا ہونا شروع ہوئی تھی۔آزاد ہند فوج کے سپاہیوں نے ہندوستان کو ایک سوشلسٹ سماج میں بدلنے کی راہ دکھائی تھی۔ 46ء میں ہی ممبئی کے ساحلوں میں جہازیوں کی بغاوت نے برٹش سامراج کے خلاف ہندوستان میں حقیقی انقلاب کو ایک ممکنہ حقیقی حل کے طور پہ سامنے لاکھڑا کیا تھا۔
پنجاب، بنگال، یو پی، سی پی، سندھ سمیت ہندوستان میں اکثر جگہوں پہ کسانوں میں جاگرتی کے آثار واضح تھے اور ہندوستان ایک سوشلسٹ سماج میں بدلا جاسکتا تھا۔
یش پال کا یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہمارے سماج کی فرسودہ ریتوں، روایتوں، پابندیوں اور جکڑ بندیوں کے خلاف ہورہے تھے اور وہ چھوت چھات، ذات پات، فرقہ پرستی، کمیونل ازم اور مذہبی بنیاد پرستی کو چیلنج کررہے تھے۔
ان میں ’بغاوت‘ کے آثار بہت واضح تھے۔
لاہور کے اندر ریلوے کے مزدروں کی ایک بہت بڑی طاقت موجود تھی۔ پنجاب یونیورسٹی، دیال سنگھ کالج، کنگ ایڈرورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد روشن خیالی، ترقی پسندی اور اشتراکی خیالات کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی جبکہ وکلا، شاعروں اور ادیبوں میں بھی اس فکر کے گہرے اثرات تھے۔
پنجاب کے پریس میں آہستہ آہستہ بائیں بازو کی فکر اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی۔
اس زمانے کی نوجوان نسل ایک نئے قسم کے سماج کے خواب دیکھ رہی تھی۔
یش پال کا یہ ناول ہمیں اس حقیقت سے بھی آشنا کراتا ہے کہ اس زمانے میں لاہور کی پیٹی بورژوازی کے پروفیشنل حلقوں کے اندر روشن خیالی اپنی جڑیں پوری طرح سے پھیلا چکی تھیں۔
شہر کا سماج تنوع و تکثریت سے بھرپور تھا اور یہ پنجاب کے اندر برطانوی سامراج کی اشیر باد سے پھیلائی جانے والی فرقہ پرستی، بنیاد پرستی اورکمیونل تناؤ بڑھانے والے اقدامات کئے جانے کے باوجود تھا اور ایک بہتر متبادل ابھر کر سامنے آرہا تھا۔
یش پال کنک، شیلو، زبیدہ، تارا اور کئی نسوانی کرداروں کے ذریعے سے ہمیں اس زمانے میں عورتوں کے اندر اپنی ذات کے اثبات، برابری اور اپنی جنس کو لے کر اس کے خلاف مردانہ بالادستی کے تعصبات کے خلاف جدوجہد اور ان کی ذہنی دنیا کی آشنا کراتا ہے۔
وہ ایسے مرد نوجوانوں سے بھی آشنا کراتا ہے جنھوں نے اس پاگل پن اور جنون میں اپنی انسانیت کو باقی رکھا۔
وہ ہمیں سرمایہ داروں، نوکر شاہی اور سیاست دانوں کی دنیا کے کئی کرداروں سے متعارف کراتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ سرمایہ دار اور پرانی برٹش سامراج کی بنائی ہوئی نوکر شاہی کیسے اس ’پاگل پن، جنون، تقسیم، مار دھاڑ، مجبوریوں اور بے کسی‘ میں اپنے لیے موقعے کی تلاش کررہی تھی۔
کیسے اس دوران عورتوں نے بے بہا ظلم سہے اور ایسی تباہی مچی کہ اس سے آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔
یش پال کمیونسٹوں کی قیادت کی غلطیوں کو بھی فکشن میں سامنے لے کر آتا ہے، خود احتسابی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہندوستانی سماج میں انقلاب کا سورج طلوع نہ ہوسکا تو اس میں خود کمیونسٹوں کی اپنی کس قدر غلطیاں تھیں۔
اس نے بہرحال اس ناول میں ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ کیسے اس سماج کے روشن خیال، روادار، امن پسند، مساوات انسانی کے علمبردار اور طبقاتی اونچ نیچ سے پاک سماج کی تشکیل کے خواب دیکھنے والے، فرقہ پرستوں، موقعہ پرست سرمایہ دار سیاست دانوں، سامراجی مشینری اور اس مشینری کی ہلہ شیری پاکر عفریت بن جانے والے سیاسی ملّا، پنڈت، سکھ رہنماؤں سے شکست کھا گئے اور وہ غدر مچا کہ الامان الحفیظ۔
سیکولر، روشن خیال اور سیکولر ہندوستانی قوم پرستی کی داعی کانگریس کیسے اشتراکیوں پہ ٹوٹ پڑی اور جب تک ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کوئلے کی کان میں جاکر کوئلہ نہ ہوئی اسے کام نہ کرنے دیا گیا اور پاکستان کی تو بات ہی کیا کریں؟
پاکستانی ریاست پہلے دن فرقہ پرستی پہ استوار ہوئی اور اس نے سیکولر ازم، سماجی انصاف، عورتوں کی برابری اور ورکنگ کلاس کی نجات کے سب تصورات کو ملّا، ملٹری اور سویلین نوکر شاہی اور برطانوی و امریکی سامراجی بلاک کی مدد سے کفر، گمراہی قرار دے ڈالا۔
اس ملک کی پیٹی بورژوازی انتہائی قدامت پرست ثابت ہوئی لیکن وہ عورتوں کی رسیا، شراب نوش اور ڈانس پارٹیوں کا انعقاد کرتی ہے اور حج و عمرے بھی خشوع و خضوع سے کرتی ہے۔
اسلام کے سب سے بڑے ٹھیکے دار یہی ہیں اور اینٹی انڈیا لہر کے نام پہ ان کے ہاں وطن پرستی رجعت سے بھری پڑی ہے۔
اس ملک کے محنت کشوں، کسانوں، مذہبی اقلیتوں اور چھوٹی اقوام کو مار پڑرہی ہے، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے اور ان کو چیلنج کرنے والوں کے لیے بلاسفیمی ایکٹ ہے۔
اس ایکٹ کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے مذہبی جنونی، جہادی اور کفر ساز مشینوں سے لیس تنظیمیں اور جتھے ہیں جو دکھاوے کے لیے اگر کالعدم قرار بھی دے دیے جائیں تو کالعدم نہیں ہوتے۔
چاروں طرف یا تو بڑے سرمایہ داروں کی سیاست کا راج ہے یا پھر درمیانے سرمایہ داروں کی سیاست ہے اور اس ملک کے محنت کشوں، کسانوں، شہری و دیہی غریبوں کی سیاست کا دور دور تک پتا نہیں۔
ایسی تاریک صورت حال میں اگر کوئی مظلوم، لوٹے کھسوٹے جانے والوں، قتلام کا نشانہ بننے والوں کے حق میں آواز اٹھائے اور مظلوموں کی ڈھارس بننے کی کوشش کرے اور ظالموں کی تکنیک کو بے نقاب کرے تو اس کو یونیورسٹی کے ہاسٹل کے سامنے ننگا کرکے ماردیا جاتا ہے۔
الزام حسب سابق بلاسفیمی ہوتا ہے۔ اس کے ورثا انصاف ڈھونڈتے پھرتے ہیں جس نے نہ ملنا ہوتا ہے نہ ملتا ہے۔
ادھر ہندوستان میں ’گئو رکھشا‘ والوں کے ہاتھ جو مسلمان آئے اسے بلوائی انصاف سے سرفراز کرتے ہیں۔
کوئی قتل ہوتا ہے، کوئی تشدد سہتا ہے اور جو ہندو، سکھ دانشور اس پہ آواز اٹھائے وہ ’بھارت ماتا‘ کا غدار ٹھہرتا ہے۔
وہاں مسلمانوں کو پاکستان بھاگ جانے کو کہا جاتا ہے اور یہاں شیعوں کو کہا جاتا ہے کہ ’ایران بھاگ جاؤ‘ اور احمدی اور کرسچین کو کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل بھاگ جائیں یا امریکا۔ اب احمدی اور کرسچین کچھ بھی کہیں اور دھرتی جائے ہونے کی لاکھ دہائی دیں مگر ان کو امریکا اور اسرائیل سے جوڑ دیا تو جوڑ دیا۔
یہ کیسا سماج ہے جس میں بلوچ، سندھی، پشتون، شیعہ، کرسچین، احمدی، ہندؤ، سرائیکی سب مشکوک ہیں اور جو ان کے مصیبتوں پہ آواز اٹھائے، دردمندی ظاہر کرے، ان کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کرے اور انسانیت پسندی‘ کی اقدار کی چرچا کرے وہ بھی دشمن شمار ہوتا ہے، اسے بھی مشکوک اور ایجنٹ ٹھہرادیا جاتا ہے۔
اس ملک کے فرقہ پرست سیاستدان، کارپوریٹ سرمایہ دار، ملّا، فوجی جرنیل، جج، بیوروکریٹ اور تعصب کی گندگی میں لتھڑی ٹریڈر کلاس اور رجعت پرستی میں پل بڑھ کر جوان ہونے والی پیٹی بورژوازی کی ایک بھاری جنونی پرت ہی ’صاف ستھری‘ ہے اور اسے ہی حق ہے بولنے کا۔
ہمارے پاس کوئی گاندھی نہیں ہے جو ان مظلوموں کے لیے ’مرن برت‘ رکھ لے اور اگر کوئی ایسا کر بھی لے تو کیا اسے گاندھی جتنا ادب اور احترام بھی مل پائے گا؟ مجھے اس میں بہت زیادہ شک ہے۔ تاہم اس کے گاندھی جیسے انجام پر یقین ہے۔
یش پال ناول میں دکھاتا ہے کہ کیسے گاندھی مرن برت رکھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ فاقہ کشی اس وقت تک جاری رہے گی جب ہندوستان میں مسلمانوں پہ حملے، ان کے خلاف لوٹ مار، قتل و غارت گری اور ان کی عصمت دری بند نہیں ہوگی۔
گاندھی کہتا ہے کہ وہ لاہور جاکر فاقہ کشی شروع کرسکتا ہے اور پاکستان کے مسلمانوں سے خود درخواست کرے گا کہ وہ ہندوؤں اور سکھوں پہ حملے بند کردیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اس وقت کی قیادت پہ گاندھی کی یہ اخلاقی فتح تھی کیونکہ ہندوستان سے سب ہی بڑے مسلم لیڈر، ملّا (مسلم لیگی اور کئی ایک کانگریسی اور جماعت اسلامی کے بانی مودودی بھی ) بھاگ لیے تھے۔
شبیر عثمانی، مفتی شفیع، عبدالحامد بدایونی، علمائے لدھیانہ، علمائے جالندھر ( قاری حنیف جالندھری کے والد خیر محمد جالندھری ) اور ان سب نے پاکستان آکر دین کی ’ٹھیکے داری‘ سنبھال لی تھی۔
حسینیت کے علمبردار ترابی، عابدی، حجۃ الاسلام بھی فرار ہولیے تھے۔
حسین شہید سہروردی واحد رہنما تھے جو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں روئے، چیخے چلائے اور کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں پہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے پنجاب اور مشرقی بنگال میں لوٹ مار بند کی جائے، کاٹ ڈالنے، عصمت دری کے واقعات روکے جائیں اور ہندوستان سے مسلم لیڈروں کی آمد کو روکا جائے۔
کسی نے حسین شہید سہروردی کی بات نہیں سنی تو انہوں نے بھی پروا نہیں کی اور وہ ہندوستان میں گاندھی کے پاس جا پہنچے اور ان کو لے کر بنگال، آسام گئے۔
وہاں دونوں کو جان کا خطرہ تھا لیکن انہوں نے اس ’پاگل پن‘ پہ روک لگائی۔
اس کا صلہ حسین شہید سہروردی کو ’ہندوستانی ایجنٹ‘ کے الزام کی صورت میں ملا۔ ان کے پاکستان واپسی کے راستے بند کردیے گئے اور وہ باقی بنگالیوں کی طرح ہمیشہ کے لئے مشکوک ٹھہرگئے۔
خود گاندھی کے ساتھ کیا ہوا؟ ’گاندھی جی ۔ مردہ باد‘ اور ’گاندھی ۔ پاکستان بھاگ جاؤُ‘ کے نعرے لگے اورگاندھی کو بم سے مارنے کی کوشش کی گئی۔
آخر کار ایک ہندو فاشسٹ رام ناتھ گوڈسے نے ان کو گولی مار دی اور گاندھی ’ہائے رام‘ کہتے ہوئے امر ہوگئے۔
ان کا جرم کیا تھا؟ وہ ہندو تھے مگر مسلمانوں سے ہوئے ہتھیا چار برداشت نہ کرسکے اور پٹیل کو کہا کہ پاکستان کے پیسے ان کو دے ورنہ وہ جان دے دیں گے۔
اس دور میں کانگریس ہی کو کیا ہندوستان کی اکثریت کو لگتا تھا کہ گاندھی پاگل ہوگئے ہیں، سٹھیا گئے ہیں اور حقیقت میں گاندھی کے قتل ہوجانے پہ سب نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
یہاں ’جناح‘ بھی اپنی تمام تر کمیونل سیاست اور پاکستان کو بنانے کے لیے ہر ایک حربے، سیاسی چال اور نئی نویلی قوم کا فادر کہلانے کے باوجود بھی سپیس نہ پاسکے۔
جب انہوں نے اپنی مثالیت پسند فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وہ معروف تقریر کی جس میں ’کمیونل پاگل پن‘ کے جن کو واپس بوتل میں بند کرنے کے لیے پاکستانی ہونے کے مفہوم کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو اس تقریر کو ریڈیو پاکستان میں نشر نہ ہونے دیا گیا۔
اس تقریر کا ٹیپ تک باقی نہیں رہنے دیا اور تو اور خود جناح کو مسٹر سے مولانا میں بدلنے کا پروجیکٹ شروع کردیا گیا جو آج تک ختم ہونے میں نہیں آیا ہے۔
جناح کی منتخب کردہ کابینہ میں شامل شیعہ، احمدی، کرسچین، شیڈول کاسٹ، ہندو سب کو نہ صرف نشان عبرت بنا دیا گیا بلکہ ان کی مذہبی شناختیں ہی گالی بنادی گئیں اور پھر بات ان کی نسل کشی تک آن پہنچی ہے۔
آج جناح کی اپنی مذہبی شناخت بھی ایک ’گالی‘ ہے۔
ویسے اگر میں یہ سوال اٹھاندوں کہ اس ملک کا بانی محمد علی جناح جب مرے تو ان کی ’دو، دو‘ نماز جنازہ الگ الگ طریقوں سے کیوں ادا کی گئیں؟
جناح کا گھر میں ہونے والا جنازہ جس امام نے پڑھایا تھا اگر اسی کو باہر کھڑا کرلیا جاتا تو جناح کی تقریر کا اسی وقت انتم سنسکار ہوجاتا ہے اور پتا چل جاتا ہے۔
جوش ملیح آبادی نے کہا تھا
’ہاشم رضا میں شمر پورا گھسا ہوا‘۔
یہ تقسیم جب ہوئی تو ادھر ’شمر‘ گھسا تو ادھر ’راکھشش‘ گھس گیا تھا۔
یہاں کون ہے جو اس پاگل پن کو روکنے کے لیے اپنے آپ کو مرنے کے لیے پیش کرے گا ۔۔۔۔۔
سلمان تاثیر نے کیا تو تھا، مشعال کو گھسیٹ لیا گیا تھا اور شہباز بھٹی بھی ایسے ہی گیا۔
سورگباشی یش پال کی ہمت انھوں نے مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے مذہبی قید خانوں کے مناظر ہمیں دکھائے اور غیرجانبداری سے اتنا بڑا ناول لکھ ڈالا جس کو ٹالسٹائی کے ’وار اینڈ پیس‘ کے برابر کہا جاتا ہے۔
اردو پڑھنے والوں پہ منیرہ سورتی کا احسان ہے کہ انھوں نے اس ناول کو ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا اور اجمل کمال کا شکریہ اس قدر ضخیم ناول کو شائع کردیا جو اردو ادب کے قاری پہ ایک احسان سے کم نہیں ہے۔
اس ناول کی ایک کردار ’تارا‘ فسادات میں جب ایک جماعت اسلامی کے رکن اور سابق سرکاری ملازم حافظ جی کے گھر پہنچتی ہے تو وہاں جو صورت حال پیدا ہوتی ہے اس بارے یش پال نے کمال کی منظر نگاری کی ہے۔ مسلم سماج و معاشرت کی منافقت کا پردہ بھی ویسے ہی چاک ہوتا ہے جیسے انھوں نے سکھ اور ہندو معاشرت کا کیا ہے۔
میں امید کرتا ہوں نوجوان نسل اس ناول کو نصاب کی طرح پڑھے گی اور فکشن میں تاریخ کا آئینہ دیکھے گی۔
Source:
http://nuktanazar.sujag.org/jhoota-such-yashpal