پانامہ پیپرز جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم رپورٹ : نواز شریف کے وزیراعظم رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ گیا – عامر حسینی

نواز شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سامنے آگئی ہے جس میں صاف لکھا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف اور ان کے بیٹے حسین نواز و حسن نواز کے جتنے اثاثے ہیں وہ ظاہر کردہ زریعہ آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔میاں نواز شریف ایک آف شور کمپنی کے چئیرمین ہیں جس کا تذکرہ انہوں نے کسی جگہ نہیں کیا جبکہ ان کے بنیادی گواہ طارق شفیع کی گواہی کو یو اے ای کی وزرات انصاف نے ہی جھوٹا قرار دے دیا ہے۔اس تحقیقاتی رپورٹ کے بعد نواز شریف کے وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔اور ان کو مستعفی ہوجانا چاہئیے۔لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے چند دن پہلے اور اس کے فوری بعد جیسے مسلم لیگ نواز کے وزراء نے جارحانہ پریس کانفرنس کی اور اس رپورٹ کو ‘ردی ‘ قرار دیکر مسترد کیا اور ‘جنگ ‘ کو اس کے انجام تک پہنچانے کی بات کی اس سے صاف نظر آتا ہے کہ حکمران جماعت کے قائد اور وزیر اعظم کے منصب پہ فائز میاں محمد نواز شریف سیاسی دانش و بصیرت سے ہی عاری نہیں بلکہ وہ اپنے ‘مافیا طرز کے سیاسی کاروبار’ کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

پاکستانی لبرل صحافتی حلقے کا ایک بڑا حصّہ میاں محمد نواز شریف کے خاندان کی مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے مطالبے کے شروع دن سے سازشی مفروضے گھڑنے میں لگا ہوا تھا۔یہ سازشی منصوبے اس وقت بھی گھڑے گئے تھے جب نواز شریف خاندان کے القاعدہ، تحریک طالبان، سپاہ صحابہ پاکستان جیسی دہشت گرد اور جہادی تنظیموں سے تعلقات اور سعودی عرب کے وائسرائے بننے پہ زبردست عوامی تنقید سامنے آرہی تھی اور پاکستان عوامی تحریک کی میاں نواز شریف کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لئے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور آج تک اس پہ خود پنجاب حکومت کے بنے یک رکنی عدالتی کمیشن کی رپورٹ پبلک نہ ہوسکی ہے۔پاکستانی لبرل صحافی اور سول سوسائٹی کی اشرافیہ کا ایک معتدبہ حصّہ جنرل ضیاء الحق کی حقیقی باقیات، سعودی عرب کے ٹٹو بدعنوان میاں محمد نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف ‘نئی امید ‘ تک قرار دیتا ہے۔

نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف ‘امید’ سمجھنے والے یہ اشراف لبرل اس بات سے بخوبی باخبر ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پہ سب سے برا دن 5 جولائی 1977ء کو آیا تھا جب ایک فوجی شب خون کے زریعے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔یہ شب خون متعصب،برائے فروخت عدلیہ، جماعت اسلامی سمیت مذہبی جماعتوں کی تحریک پی این اے جسے فوج اور سی آئی اے کی حمایت تھی کی مدد اور حمایت سے مارا گیا تھا۔کسی کو ذوالفقار علی بھٹو سے نفرت ہوسکتی ہے لیکن ان حقائق کا انکار اس کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا۔

شب خون مارے جانے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سے لیکر گیارہ سالوں تک جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں جمہوریت کی بنیادیں تک ہلانے کے لئے جس نرسری کا اہتمام کیا اس نرسری کا سب سے لاڈلہ اور سب سے زیادہ نوازشات کا حقدار میاں محمد نواز شریف تھا۔اور گیارہ سالہ بدترین آمریت کے دور میں جسے فوج اور امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی نواز شریف کو ہی جمہوری قوتوں کے خلاف آگے لانے کی کوشش ہوتی رہی۔

بڑی مشکل سے پاکستان پیپلزپارٹی نے 1988ء کے انتخابات جیتے لیکن اس کو پنجاب میں اقتدار لینے سے محروم کردیا گیا اور میاں محمد نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی باقیات پہ مشتمل ججز، جرنیلوں اور سول افسر شاہی اور سعودی نواز دہشت گردوں اور خود سعودی عرب کے سہارے حقیقی جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ جاری رکھا اور شخصی اقتدار کی بنیادیں ڈالنا شروع کردیں۔پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری طور پہ منتخب حکومتوں کو گرانے اور پورے سسٹم کو ہائی جیک کرنے کے لئے نواز شریف نے وہابی سلفی دیوبندی دہشت گرد نیٹ ورک جیسے اسامہ بن لادن، آئی ایس آئی کے دیوبندی تکفیری جرنیل جیسے حمید گل وغیرہ کے زریعے سے وہ کھیل جاری رکھا جسے جنرل ضیاء نے شروع کیا تھا۔

سیف الرحمان کی سربراہی میں قائم احتساب بیورو نے تاریخ کے بدترین سیاسی انتقام کا سلسلہ شروع کیا گیا جبکہ اس دوران میاں محمد نواز شریف نے پاکستانی مین سٹریم میڈیا کے اندر بھی لوگوں کی بولیاں لگانا شروع کیں اور بڑے بڑے نامور اخبار نویس ،کالم نگار، تجزیہ کار اور ٹبیل سٹوریز گھڑنے کے ماہر خرید لئے گئے اور کئی اخباری مالکان بھی خریدے گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا۔ایک طرف کینگرو کورٹس اور حکومتی احتساب ادارے تھے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی کے خلاف ہائر کیا گیا میڈیا تھا دونوں جانب سے بدترین ٹرائل کیا گیا۔

بھٹو خاندان کو ملیامیٹ کردیا گیا لیکن نواز شریف کا خاندان نہ صرف سیاسی طور پہ طاقتور ہوا بلکہ اس کی ناجائز اور مشکوک زرایع سے حاصل کردہ دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

میاں محمد نواز شریف شخصی بادشاہت اور اختیارات کو اپنی زات میں مرکوز کرنے کی پالیسی پہ گامزن تھے۔انھوں نے ضیاء الحق کی جگائی ہوئی مذہبی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں پہ مشتمل عفریت کو گود لے لیا تھا اور ضیاء الحقی ذہنیت رکھنے والے اکثر فوجی افسروں، سول افسروں اور ججوں کو مٹھی میں کیا ہوا تھا اور اختیارات کو اپنی زات میں مرکوز رکھنے کی اس جنگ میں نواز شریف کے اپنے کئی ایک مربیوں سے بھی جھگڑے ہوئے اور اسی کا شاخسانہ 1999ء میں ان کے اپنے بنائے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے مارشل لاء لگانے کی صورت نکلا۔اس دوران نواز شریف بزدل ثابت ہوئے، انہوں نے سعودی عرب کی مدد سے مشرف سے ڈیل کی اور اپنے اصلی آ‍قاؤں یعنی آل سعود کی گود میں جابیٹھے۔

دوہزار آٹھ میں جب بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسا عظیم نقصان اٹھاکر جمہوریت بحال ہوئی تو میاں نواز شریف نے پی پی پی کے شریک چئیرمین کی جانب سے مثالیت پسندی کے نتیجے میں دی گئی پنجاب کی حکومت کے بل بوتے پہ ایک بار پھر پی سی او ججز ، نام نہاد آزاد عدلیہ سے گٹھ جوڑ کرلیا۔اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملکر میموگیٹ جیسی سازشیں کیں اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی میں اہم کردار ادا کیا۔اسی زمانے میں میاں نواز شریف نے طاقتور مین سٹریم میڈیا میں کئی ایک بڑے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے بڑے ناموں کو ہائر کونا شروع کردیا اور ان کے اشارے پہ ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی گئی۔اور 2013ء کا الیکشن میاں نواز شریف نے پی سی او ججز، بدعنوان آراوز، طالبان اور خرید کردہ میڈیا کے سہارے جیت لیا اور واضح اکثریت حاصل کرلی لیکن جعلی جمہوریت پسند اور اسٹبلشمنٹ مخالف نواز شریف نہ تو جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھے کے تحت مقدمہ چلاسکے اور نہ ہی ان کو سزا دلاسکے۔

نواز شریف نے وزیراعظم بننے سے پہلے جنرل پاشا پہ پی ٹی آئی کو مضبوط کرنے کے الزامات لگائے اور پھر دھرنے کو بھی ان کا منصوبہ قرار دیا۔لیکن وہ ان الزامات کے عائد کرنے کے باوجود جنرل پاشا کا ٹرائل نہ کرسکے۔اور نہ ہی مبینہ سازشی فوجی افسران کواحتساب کے کہٹرے میں لاکر کھڑا کرسکے۔اب پہلی بار نواز شریف اور ان کا خاندان احتساب کے شکنجے میں آیا ہے تو ان کے ماضی کے ریکارڈ کو یکسر فراموش کرتے ہوئے ان کو ‘اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیرو’ بنانے کی کوشش عروج پہ ہے۔نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو ، مریم نواز کو بے نظیر بھٹو قرار دینے کی کوشش ہورہی ہے۔

نواز شریف کا احتساب ان کے کلائنٹس کو گوارا نہیں ہے۔نواز شریف کے پالے ہوئے نیٹ ورک میں دائیں بازو کے کارپوریٹ بزنس مین،غلیظ و بے ہودہ میڈیا سیکشن، مذہبی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا بڑا تاجر طبقہ اور اپر مڈل کلاس ٹائپ تنگ نظر طبقہ شامل ہے۔اس میں پاکستان کے بعض لبرل اشراف جوکہ این جی اوز کے فنڈز ہڑپ کرتے ہیں اور این جی او سیکٹر میں بیوروکریٹک مراعات پاتے ہیں اور پاکستان کے لبرل پریس میں بھی اہم عہدوں پہ براجمان ہیں شامل ہیں۔

اسٹبلشمنٹ میں اپنے حامیوں کی مدد سے نواز شریف نے 40 سال تک پنجاب میں اپنی بالادستی قائم رکھی ہے اور اسی وجہ اس کی بیوروکریسی کے اندر بہت گہری جڑیں ہیں،اگرچہ سپریم کورٹ میں کچھ لوگوں نے نواز شریف کے خلاف اٹھنے کی جرآت کی لیکن سپریم کورٹ میں بھی اس کے حامی موجود ہیں جبکہ نیب میں بھی اس کی جڑیں کافی اندر تک ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ جی آئی ٹی کی رپورٹ پہ سپریم کورٹ اور نیب نواز شریف کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

نواز شریف کی پاکستان کی ریاستی اداروں میں حمایت اور پاکستان کی لبرل سول سوسائٹی اور پریس میں حمایت کی وجہ نواز شریف کی جمہوریت پسندی یا اسٹبلشمنٹ سے لڑائی نہیں بلکہ اس کی وجہ ‘کلائنٹل پیٹرنیج ‘ ہے۔یہ بریف کیس ، چمک، خرید لینے ، نوازنے کی پالیسی ہے جس نے نواز شریف کا اتنا بڑا نیٹ ورک قائم کیا ہے۔

پاکستان میں جو لبرل نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں ان کی اکثریت نواز شریف کی جھوٹی پروجیکشن میں مصروف ہے۔یہ لوگ نواز شریف کی شخصی آمریت اور اس کے جوڈیشری،فوج،سول نوکر شاہی ، مذہبی پیشوائیت میں موجود بڑے نیٹ ورک کی حقیقت کو چھپاتے ہیں اور نواز شریف کے داعش سے الحاق رکھنے والے دہشت گرد گروپوں سے تعلقات پہ مکمل خاموش رہتے ہیں۔یہ دوسروں کا تعاقب کرتے ہیں۔ یہ پاکستانی جرنیلوں کی ‘طالع آزمائی ‘ کی چیخ و پکار کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بتانے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان خریدنے والے نواز شریف کو جرنیلوں جیسے ضیاء،چشتی،بیگ،کرامت، کیانی ، پاشا اور راحیل نے کیا فائدے پہنچائے۔

عاصمہ جہانگیر،سیرل المیڈا، نصرت جاوید،احمد نورانی اور اس جیسے کئی اور ‘خاکی لوںڈے’ اور ‘خطرناک چغد’ جیسے الفاظ استعمال کریں گے اور ہمیں یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ ‘نواز شریف ‘اپنے کئے کا خمیازہ نہیں بلکہ ‘جمہوریت پسندی اور سیاسی بلوغت ‘ کی سزا کاٹ رہا ہے۔لیکن ان کی زبان پہ ان مخصوص جرنیلوں، کرنیلوں کے نام کبھی نہیں آئیں گے جنھوں نے نواز شریف کو اس سٹیج تک پہنچایا۔یہ کبھی سعودی عرب کی پاکستان میں مداخلتوں کی کہانی بیان نہیں کریں گے اور نواز شریف پہ ان کی نوازشات کیوں ہیں،اس بارے زبان نہیں کھولیں گے۔ ‘اینٹی اسٹبلشمنٹ’ کا شور مچانے والے نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے اندر جڑوں پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

نواز شریف اور ان کے بچوں کا ان کے بے بہا اثاثوں اور نقصان میں جانے والی کمپنیوں کے درمیان پائی جانے والی عدم مساوات کی بنیاد پہ احتساب اور ناجائز زرایع سے بنائے جانے والی دولت پہ پوچھ گچھ پاکستان کی کاسمیٹک جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔

معاملات کو دیکھنے کے ابتک کے جو پیراڈائم ہیں ان کو پھر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور ان میں بدلاؤ بہت ضروری ہے،خاص طور پہ جبکہ غیرملکیوں سے نفرت دلانے والے گیم شو ہوسٹ نے ایک کرپٹ ، جنگی جنون پھیلانے والے ایک پراسرار سے نظام کو جسے غلام مالکوں نے ختم ہوجانے کے خوف سے بنایا تھا کو شکست دینے میں کامیابی امریکہ جیسے ملک میں حاصل کرلی ہو۔جہاں ایک سال گزرنے کے بعد بھی 17 میں سے چار خفیہ ایجنساں ابتک امریکی انتخابات کو مشکوک ٹھہرانے اور روسی ہیکرز کا کارنامہ بتلانے کی کوشش کررہی ہوں۔یا ایک دائیں بازو کی حکومت کو مبینہ دہشت گرد برسراقتدار لائے ہوں یا جب آپ کے پاس یا تو فار رائٹ غیرملکیوں سے نفرت کرنے والوں کا انتخاب ہو یا پھر موجودہ نیولبرل نو قدامت پرستوں کو منتخب کرنے کا اختیار رہ جائے تو پیراڈائم تبدیل کرنا وقت کا اہم تقاضا ہوتا ہے۔

تو اس لحاظ سے نواز شریف کو اگر سزا سنائی جاتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ مسلم لیگ نواز کے اندر اپنے اندر کے معاملات کا جائزہ لینے کی سوچ پیدا ہو اور وہ اپنے اندر سے فاشسٹ بدمعاشوں کو نکالنے کا سوچے جس کا امکان کم نظر آتا ہے کیونکہ نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں جے ٹی آئی رپورٹ کے خلاف سیاسی،عدالتی اور میڈیا کی سطح پہ جاری جنگ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے آنے سے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو یہ پیغام بھی ملا ہے کہ وہ اصلاح کریں اپنی اور کاغذی شیر جن کو فوجی جرنیل آگے لائے ہوں ان پہ تکیہ مت کریں۔

Comments

comments