ایدھی صاحب ! لال سلام – عامر حسینی
آج آٹھ جولائی ہے اور عبدالستار ایدھی کی پہلی برسی ہے۔اور ملک میں ‘ایدھی بنو’ کے نام سے آج کے دن ایک کمپئن چل رہی ہے۔اس مہم کا مرکزی خیال کوئی ایک نیکی کرنا ہے۔اور جس نے بھی یہ خیال سوچا ہے اس نے عبدالستار ایدھی کی خدمات پہ ان کو بہترین خراج عقیدت پیش کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔ویسے آج کے دن ہم میں سے ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کو ڈونیشن دے کر ایدھی صاحب کو خوش کرسکتا ہے۔
ایدھی صاحب نے انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کا کام کراچی جیسے میٹروپولٹن میں مرجانے والوں کے لئے کفن دفن اور میت گاڑی کی فراہمی سے اپنا کام شروع کیا تھا اور پھر یتیم،بے سہارا، نوزائیدہ لاوارث بچوں،بے سہارا عورتیں،بوڑھوں کے لئے گوشہ ہائے عافیت بنانے شروع کئے۔قدرتی آفات،حادثات،ہنگاموں، دہشت گردی میں زخمی ہونے والوں کو ہسپتال پہنچانے اور مرجانے والوں کو سردخانوں میں رکھنا جیسے کام سرانجام دئے اور وہ اس شعبے میں رجحان ساز ثابت ہوئے۔
مجھے ایدھی صاحب بے غرضی،بے لوث خدمت انسانیت کی معراج پہ کھڑے نظرآتے ہیں۔انھوں نے ‘امداد اور خدمت ‘ کو کسی آئیڈیالوجی سے نہیں ‘لتھڑا ‘ اور لوگوں کے دکھوں،مصائب،مجبوریوں اور ان کی بے بسی دور کرنے کے نام پہ،ان کی مسیحائی کرنے کے نام پہ انہوں نے غریب بستیوں میں ‘جنونی ‘ پالنے کا کام نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ‘خدمت نیٹ ورک’ کے نام پہ انہوں نے جن کو ‘نوکری ‘دی ان کو اپنا غلام نہیں بنایا اور ان کے ذہنوں کو جنگجوئی کی طرف مائل نہیں کیا۔کسی اور ملک کی پراکسیز کے لئے پیدل سپاہی تیار نہیں کئے۔یا کسی کی سیاست چمکانے کے لئے انہوں نے اپنے نیٹ ورک کو استعمال نہیں کیا۔ان اس ملک کے اندر اور باہر جتنی عقیدت مند پیدا ہوئے اور جتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کی خدمت کو سراہا انھوں نے اس عقیدت اور سراہے جانے کی بنیاد پہ طاقت اور اقتدار کی طمع اور لالچ کو قریب آنے نہیں دیا۔
انہوں نے نجی شعبہ خدمت انسانیت کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنانے کے باوجود رياست کو اس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا سبق نہیں دیا۔نجی ملکیت ،نجکاری ، مارکیٹ ماڈل کی معشیت اور ریاست کے عوامی خدمات سے دستبردار ہونے کا پرچار نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان کے اندر کمزور ،پسے ہوئے طبقات کی سماجی تحریکوں کو پروجیکٹ میں بدلنے اور ان کو حقیقی سماجی تبدیلی سے دور جانے کا لیکچر نہیں دیا۔انہوں نے سامراجی اداروں سے فنڈنگ لیکر اور عالمی ڈونر این جی اوز سے فنڈنگ لیکر اس ملک میں کسی عالمی سامراجی قوت کا ایجنڈا نہیں اپنایا اور بائیں بازو کے کارکنوں کو موقعہ پرستی کی جانب راغب نہیں کیا۔بلکہ یہ ایدھی صاحب تھے جنھوں نے کئی بار کارل مارکس،لینن، چی گیویرا کی تعریف کی ۔ان کے بیٹے نے ایک بار کراچی بھر میں کارل مارکس کی تصویروں کے پوسٹرز چھپوائے اور ان کو تقسیم بھی کرایا۔کیونکہ ان کے بابا عبدالستار ایدھی کو کارل مارکس کی مجبور اور پسے ہوؤں افتادگان خاک سے محبت کی ادا بہت پسند تھی۔
ایدھی صاحب کو مڈل ایسٹ کے بادشاہتوں سے لتھڑے ممالک اور پاکستان کے ایک پڑوسی ملک سے مذہبی آئیڈیالوجیز سے بھرے امراء نے پیشکش کی کہ اگر وہ اپنے خدمت انسانیت کے اتنے وسیع نیٹ ورک کو ان کی خواہشوں کے مطابق بدل ڈالیں اور ‘بے غرضی’ ختم کردیں تو ان کو پیٹرو ڈالرز میں نہلادیا جائے گا لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔انھوں نے تھر اور چولستان کے ریگستانوں میں کمزور،غریب ہندؤں کی خدمت کرنے کے بدلے میں ان کی ‘مذہبی شناخت’ چھیننے کی کوشش نہیں کی۔ایسے ہی انہوں نے سرائیکی بیلٹ ،اندرون سندھ، دیہی خیبرپختون خوا،گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر، بلوجستان میں اپنے شعبہ خدمت خلق نیٹ ورک کو غریبوں کو ‘جہادی’ بنانے یا ان کو کسی ‘ولی نعمت مجتھد’ کی غلامی میں دینے کے لئے استعمال نہیں کیا۔
انہوں نے ظالم حکمران طبقات کی مظلوم اقوام سے ان کی شناخت چھین لینے اور ان کے وسائل لوٹ لینے کی پالسیوں کو مان لینے کو ‘ حب الوطنی ‘ قرار نہیں دیا۔اور یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے عبدالستار ایدھی کا۔ان کا ماڈل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ‘ مذہبی،فرقہ پرست، سرمایہ دار نواز سامراجیت ‘ جیسی آئیڈیالوجیز کا سہارا لئے بغیر بھی ‘خدمت انسانیت ‘ کی جاسکتی ہے اور اس کے کوئی سائیڈ ایفکیٹ بھی نہیں ہوتے اور خطے اور علاقوں میں فرقہ وارانہ یا نسلی منافرت پہ مبنی آگ بھی نہیں بھڑکتی۔اور اسی لئے مجھے عبدالستار ایدھی اپنے معاصر خدمت انسانی کے دعوے داروں میں سب سے بلند اور سب سے زیادہ مثالی انسان نظر آتے ہیں۔ان کی برسی پہ ان کو لال سلام۔