عقیلہ بنی ہاشم زینب بنت علی : أنتِ بحمد الله عالِمةٌ غيرُ مُعلَّمة، فَهِمةٌ غيرُ مُفهَّمة – مستجاب حیدر
کوفہ میں اسیران کربلاء پا با زنجیر پیش کئے گئے اور سر حسین علیہ السلام ایک طشتری میں پیش کیا گیا تھا اور ایسے میں کوفہ کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد نے اہل بیت کی طرف نظر کرکے کہا کہ “دیکھا کیسے اللہ نے تمہیں زلیل کیا ” تو اس موقعہ پہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے ایک ایسا خطبہ دیا کہ پورے دربار پہ سناٹا چھا گیا، اور اہل کوفہ نے اپنے کانوں مين انگلیاں دے لیں اور ان کی آہ و بکا تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور اہل بیت کے دشمن ، ظلم و ستم کے علمبرداروں کی زبانیں گنگ ہوگئیں تو امام زین العابدین حضرت علی بن حسین سلام اللہ علیہ نے فرمایا
أنتِ بحمد الله عالِمةٌ غيرُ مُعلَّمة، فَهِمةٌ غيرُ مُفهَّمة
اللہ کا شکر آپ کسی کے سکھائے بنا عالمہ ہیں اور کسی کے سمجھائے بغیر مالکہ فہم و فراست ہو
تنقیح المقال میں شیخ المقانی نے ایک حدیث پیش کرنے سے پہلے کہا
زينب، وما زينب! وما أدراك ما زينب! هي عقيلة بني هاشم، وقد حازت من الصفات الحميدة ما لم يَحُزْها بعد أُمّها أحدحتّى حقّ أن يُقال: هي الصدّيقة الصغرى، هي في الحجاب والعفاف فريدة، لم يَرَ شخصَها أحدٌ من الرجال في زمان أبيها وأخوَيها إلى يوم الطفّ، وهي في الصبر والثبات وقوّة الإيمان والتقوى وحيدة، وهي في الفصاحة والبلاغة كأنّها تُفرِغ عن لسان أمير المؤمنين (عليه السّلام) كما لا يَخفى على مَن أنعم النظر في خُطبتها. ولو قلنا بعصمتها لم يكن لأحد أن يُنكر ـ إن كان عارفاً بأحوالها في الطفّ وما بعده. كيف ولولا ذلك لما حمّلها الحسين (عليه السّلام) مقداراً من ثقل الإمامة أيّام مرض السجّاد (عليه السّلام)، وما أوصى إليها بجملة من وصاياه، ولَما أنابَها السجّادُ (عليه السّلام) نيابةً خاصّة في بيان الأحكام وجملة أخرى من آثار الولاية
زینب ، وہ زینب کیا ہے؟ تم کیا جانو زینب کیا ہے ؟ وہ عقیلہ بنی ہاشم ہے ، ان کو ان صفات حمیدہ سے نوازا گیا جو ان کے بعد کسی ایک ماں کو میسر نہ آئیں۔ اور یہاں تک کہ حق بات ان کے بارے میں کی گئی: وہ صدیقہ صغری ہیں۔وہ محجوب اور عفیفہ واحد ہیں۔ان کے بابا اور بھائیوں کے زمانے میں کسی نے ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ یوم عاشور اور پھر اس کے بعد مصیبت عظیم آئی۔اور انہوں نے اس زمانے میں صبر و ثابت قدمی اور منفرد تقوی کا مظاہرہ کیا۔ان کی فصاحت و بلاغت ایسی تھی جیسے لسان امیر المومنین علیہ السلام سے جاری ہوتی تھی۔اور جس نے بھی ان کے خطبات پر نظر ڈالنے کی نعمت پائی ہو اس سے یہ نکتہ مخفی نہیں رہے گا۔اور اگر ہم ان کی عصمت کی گواہی دیں تو کوئی اس سے انکار نہیں کرے گا۔اور جیسے کربلاء اور اس کے بعد ان کے جو حالات تھے ان سے یہ بات اور روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے۔اور کیسے نہ ہوتی جب انہوں نے امام حسین سلام اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اور ایام مرض امام سجاد ثقل امامت کو اٹھائے رکھا۔اور یہ ان وصایا سے بھی ظاہر ہے جو امام حسین علیہ السلام نے کئے۔اور ایسے ہی آپ نے احکام کے بیان اور دیگر آثار ولایت امام سجاد کی طرف کئے ان سے بھی آپ کی ولایت ظاہر ہوتی ہے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا امام سجاد کی سب سے بڑی ڈھارس بنی اور یقینی بات ہے کہ یہ فریضہ اللہ تعالی نے ہی آپ کے سپرد کیا تھا تاکہ امام سجاد اپنے لوگوں کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہوں۔بحار الانوار اور دیگر کئی کتب میں ایسی روایت ملتی ہیں۔
أنّها شاهدت حزنَ الإمام زين العابدين (عليه السّلام) الشديد على أبيه الحسين (عليه السّلام)، فقالت له: ما لي أراك تجود بنفسك يا بقيّةَ جدّي وأبي وإخوتي؟
آپ نے امام زین العابدین کا اپنے والد امام حسین علیہ السلام کا حزن شدید دیکھا تو آپ نے نے ان سے فرمایا
اے میرے جد،میرے باپ اور میرے باپ کی نشانی میں نہیں چاہتی کہ آپ اپنی جان گنوالو (اس حزن و بکاء میں،مت کرو ) ۔اس پہ امام سجاد نے بہت ہی تڑپادینے والا سوال کیا
وكيف لا أجزَع وأهلَع وقد أرى سيّدي وأخوتي وعُمومتي ووُلد عمّي مُصرَّعين بدمائهم، مُرمَّلين بالعراء مُسلَّبين، لا يُكفَّنون ولا يُوارَون، ولا يُعرّج عليهم أحد ولا يَقرَبُهم بشرٌ، كأنّهم أهلُ بيتٍ من الدَّيلم والخَزَر
میں کیوں نہ آہ و فغان کروں جبکہ میں نے اپنے سیدی ، اپنے بھائی ،اپنے چچا، اپنے چچا ذاد کو خاک و خون میں غلطان دیکھا کہ ان کو مسلوب کردیا گیا اور ان کو نہ کفن دے سکا نہ ان کو دفن کرپایا جبکہ ان کے مرتبے تک نہ تو کوئی پہنچ سکتا تھا اور نہ ان کی طرح کوئی مقرب بشر ہوسکتا تھا کویا وہ دیلم و حزر کے اہل بیت ہوں
جب حضرت زینب سلام علیھا نے یہ سنا تو آپ نے اس موقعہ پہ جو ارشاد فرمایا وہ بھی سننے سے تعلق رکھتا تھا
آپ نے جو دیکھا اس پہ مت اپنے آپ کو ہلکان کریں (اف ! یہ استقامت اور صبر ۔۔۔۔ واللہ یہ عقیلہ بنی ہاشم کا جگرہ تھا)اللہ کی قسم بے شک عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس نے آپ کے جد ، والد اور چچا کے لئے عہد لیا،اور بے شک اللہ نے اس امت کے لوگوں سے میثاق لیا کہ وہ اس امت کے فراعنہ کو نہیں پہنچانتے جبکہ وہ اہل سماوات میں معروف تھے۔اور وہ سب ان اعضاء متفرقۃ پہ جمع ہوں گے اور ان کو کاٹیں گے اور اجسام کی بے حرمتی کریں گے اور ان پہ اپنے جھنڈےگاڑیں گے اور ديگر امور جو پہلے ہی بیان کردئے گئے تھے اور پھر ایسے ہی ہوا جیسے امر بیان کیا گیا تھا تو آپ بھی اپنے آپ کو ہلکان مت کرو اور اس کی رضا پہ راضی رہو
ایک روایت میں یہ بھی آیا کہ آپ نے امام سجاد کو بتایا
میرے بیٹے سجاد ! مجھے ام ایمن نے تفصیل کے ساتھ ان سارے واقعات بارے مطلع کیا تھا اور اس کا پہلا ثبوت اس وقت ملا جب ابن ملجم نے آپ پہ تلوار سے حملہ کیا اور آپ کو گھر لایا گیا اور آپ پہ موت کے آثار تھے تو میں نے بابا (علی بن ابی طالب ) کو بتایا کہ مجھے ام ایمن نے اس بارے میں ایسے ایسے بتایا تو میرے بابا نے اس وقت مجھے بتا دیا تھا کہ یہ سب باتیں ظہور میں آئیں گی اور مجھے کہا کہ زینب ! اس وقت تم نے صبر عظیم کا مظاہرہ کرنا ہے۔آپ نے مجھے کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس شہر کے ذلیل ترین لوگ تم پہ چڑھ دوڑیں گے میری آل اولاد کو قتل کریں گے۔اس دن تمہارا مددگار ڈھونڈے کو نہیں ملے گا، تمہار محب و شیعہ تم سے دور کردئے جائیں گے۔اور اس دن شیاطین کے سردار ابلیس کی قیادت میں بنی آدم کی اکثریت کے جہنم کی راہ ہموار ہونے پہ جشن منعقد ہوگا۔ اور کیا ایسے نہیں ہوا۔میرے بابا ( علی ابن طالب ) نے مجھے نصحیت کی تھی ۔۔۔۔صبر ،صبر ، صبر
حضرت زینب سلام اللہ علیھا پہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گہرے اثرات تھے۔ آپ سے ایک روایت ملتی ہے کہ
میں اپنی والدہ (فاطمہ زھرہ ) کو دیکھتی کہ وہ رات کو قیام کرتی تھیں اور ان کا پہلا سجدہ ہی اتنا طویل ہوتا کہ صبح صادق ہوجاتی اور آپ رات کے مختصر ہونے کا شکوہ بارگاہ الہی میں کیا کرتی تھیں۔اور میں نے بھی اسے معمول بنالیا
اسی لئے امام سجاد نے بتایا
إنّ عمّته زينب ما تَرَكت نوافلها الليليّة مع تلك المصائب والمحن النازلة بها في طريقهم إلى الشام
بے شک میری پھوپھی زینب نے ان مصائب و تکالیف میں بھی رات کو نوافل ترک نہ کئے۔وہ مصائب و تکالیف شام میں نازل ہوئے
آپ کو پتا ہے کہ ریحانۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کربلاء میں میدان شہادت کی جانب جاتے ہوئے اپنی بہن زینب سلام اللہ علیھا نے کیا کہا تھا ؟
يا أُختاه، لا تنسيني في نافلة الليل
اے بہن نوافل لیل میں مجھے مت بھلادینا (ہائے ،ہائے )
امام سجاد نے ایک اور گواہی دی ہے اور ہمیں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی شخصیت بارے جاننے کا موقعہ دیا
إنّ عمّتي زينب كانت تؤدّي صلواتها من قيام ( الفرائض والنوافل) عند سير القوم بنا من الكوفة إلى الشام، وفي بعض المنازل كانت تصلّي من جلوس، فسألتها عن سبب ذلك، فقالت: أصلّي من جلوس لشدّة الجوع والضعف منذ ثلاث ليال؛ لأنّها كانت تُقسّم ما يُصيبها من الطعام على الأطفال
بے شک میری پھوپھی زینب کوفہ سے شام تک کے سفر میں فرائض و نوافل کھڑے ہوکر ادا کرتی تھیں۔اور بعض پڑاؤ ایسے آئے جہاں آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں بیٹھ کر اس لئے نماز پڑھ رہی ہوں کہ بھوک کی شدت ہے اور تین راتوں سے ضعف و کمزوری ہوگئی ہے۔کیونکہ ان کو جو بھی کھانے کو ملتا وہ آپ بچوں میں تقسیم کردیتی تھیں
امام ہادی ابوالحسن العسکری کی بہن حضرت حکیمہ بنت محمد بن علی الرضا نے فرمایا
أنّه كانت لزينب (عليها السلام) نيابة خاصّة عن الحسين (عليه السّلام)، وكان الناس يرجعون إليها في الحلال والحرام، حتّى برئ زينُ العابدين (عليه السّلام) من مرضه
بے شک وہ زینب کے لئے امام حسین کی جانب سے نیابت خاصہ حاصل ہوئی تھی اور لوگ حلال و حرام بارے جاننے کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے اور یہ نیابت آپ کے پاس اس وقت تک رہی جب تک زین العابدین بیماری سے صحت یاب نہ ہوگئے
آپ سے امام سجاد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے آخری وقت بارے پوچھا تو آپ نے فرمایا
جب بابا علی ابن ابی طالب کا آخری وقت تھا تو آپ نے میرے بھائی امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے غسل دیکر کفن پہنانے کے بعد میرے اوپر وہی چادر ڈالنا جو چادر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا پہ ڈالی گئی تھی۔
آپ زینب سلام اللہ علیھا نے جب محمد اور عون کو مقتل کی طرف بھیجا تھا تو آپ نے وقت رخصتی نہ ہی ان کی شہادت پہ ایک بھی آنسو آنکھ سے بہنے نہ دیا تھا
امّا دفاعها عن أخيها وإمامها الحسين الشهيد (عليه السّلام)، فقد رافقته إلى كربلاء، ووقفت إلى جانبه خلال تلك الشدائد التي يَشيبُ لها الوِلدان، وقدّمت ابنَيها (عوناً ومحمّداً) شهيدَين في طفّ كربلاء، ولم يُنقَل عنها (عليها السلام) أنّها نَدبت ابنَيها بكلمةٍ ولا ذَرَفت لفقدهما دمعة، فقد كان همّها الشاغل مواساة أخيها الحسين (عليه السّلام) بكلّ وجودها
آپ نے اپنے بھائی اور اپنے امام حسین علیہ السلام کا دفاع کیا اور ان کے ساتھ کربلاء میں رفاقت اختیار کی اور ان کی جانب ہی اپنی توجہ رکھی یہاں تک کہ آپ کے دو بیٹے قربان کرڈالے،اپنے دونوں بیٹوں عون و محمد کو کربلاء میں شہید کروایا اور ان سے ایسا کوئی قول نقل نہیں کہ انھوں نے بیٹوں کی شہادت پہ کوئی کلمہ غم زبان سے نکالا ار اور نہ ہی انہوں نے ان دونوں کی شہادت پہ آنسو بہائے بلکہ وہ اپنے بھائی حسین علیہ السلام کی اپنے پورے وجود کے ساتھ مدد کی ان کی مدد کی۔ (واہ )
اور پتا ہے کہ اتنی حوصلہ مند خاتون کا حوصلہ کہاں ٹوٹا ٹوٹا نظر آیا ، کیا کیفیت ان پہ طاری ہوئی ، شب عاشور تھی اور حضرت زینب اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے خیمے میں داخل ہوئیں تو دیکھا کہ آپ تلوار صقیل کررہی تھیں اور یہ عالم دیکھا تو آپ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا
يا دهرُ أُفٍّ لك من خليلِ
اف ( آنسو )
اور جب آپ نے دیکھ لیا کہ آپ کے بھائی کے مقتول ہونے کا وقت آگیا اور ان کی شہادت کا منظر بھانپا تو یہ اشعار آپ کی زبان پہ جاری ہوگئے
ليتَ الموتَ أعدَمني الحياة! اليومَ ماتت فاطمةُ أمّي وعليٌّ أبي وحسن أخي، يا خليفةَ الماضي وثُمالَ الباقي
کاش موت آج مجھے حیات سے معدوم کردیتی ،آج میرے لئے میری ماں فاطمہ ، میرے بابا علی ، میرے بھائی حسن کی موت ہوئی ہے اے خلیفۃ الماضی و ثمال الباقی
اور ایسے ہی آپ کا صبر اس وقت جواب دیتا نظر آیا جب حضرت علی اکبر کو یزیدی فوج نے گھیرے میں لے لیا اور ایک شخص نے نیزہ مارا آپ گھوڑے سے گر گئے، ایک ظالم نے آپ کا سر قلم کردیا تو ایسے میں آپ امام حسین اس طرف یہ کہتے ہوئے جانے لگے
اللہ کی مار ان پہ جنھوں نے تمہیں قتل کیا ، یہ کتنے جری ہوگئے کہ اللہ ، اس کے رسول کی پرواہ تک نہیں کی اور یہاں تک کہ حرمت رسول کا پاس نہ کیا،تمہار بعد اب دنیا اندھیر ہے
قَتَل اللهُ قوماً قتلوك، ما أجرأهُم على الرحمان وعلى رسوله وعلى انتهاكِ حُرمةِ الرسول، على الدنيا بَعدَك العَفا
تو سامنے خیمے سے آہ و بکاء کے ساتھ ایک خاتون نکل کر آئیں
يا حبيباه! يا ثمرةَ فؤاداه! يا نورَ عيناه
ہائےمیرا حبیب ، ہائے میرے دل کا ثمر ، ہائے میرے آنکھوں کی روشنی
(کلیجہ پھٹ کر ہاتھ آتا ہے، کیا کروں کوئی اور لکھ بھی تو نہیں رہا )
هي زينب بنت عليّ (عليه السّلام). فجاءت وانكبّت عليه، فجاء الحسين (عليه السّلام) فأخذ بيدها ورَدَّها إلى الفِسطاط
وہ زینب بنت علی تھیں ، وہ آئیں اور آپ پہ رونے لگیں تو امام حسین علیہ السلام آئے ، آپ نے ان کا ہاتھ تھاما اور ان کو لیکر خیمے کی جانب پلٹ گئے
جب حضرت زینب سلام علیھا نے امام حسین کا مثلہ کیا گیا لاشہ دیکھا تو آپ باہر نکلیں اور آپ یہ کہہ رہی تھیں
کاش آج آسمان زمن پہ گرپڑتا ، اور پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص سے مخاطب ہوئیں جو کہ حسین کے قریب تھا کہ ابو عبداللہ الحسین کو قتل کیا جارہا ہے اور تو کھڑا دیکھ رہا ہے ؟ تو عمر ان کا سامنا نہ کرسکا اور چہرہ پھیر لیا
فواللهِ إنّه لكذلك إذ خرجت زينبُ ابنةُ فاطمة أختُه… وهي تقول: لَيتَ السماء تَطابقتْ على الأرض! ثمّ خاطبت عمر بن سعد وقد دنا من الحسين، فقالت: يا عمر بن سعد! أيُقتَلُ أبو عبد الله وأنت تَنظر إليه ؟ فصرف عمر بن سعد وجهَه عنہا
باقر مجلسی نے روایت کیا کہ جب امام حسین گھوڑے سے گرے اور ان کی روح قفس عنصری سے جدا ہوگئی تو حضرت زینب بنت فاطمہ یہ کہتے خیمے سے نکلیں ” ہائے میرے بھائی ، ہائے میرے سید ، ہائے اہل بیت ، کاش آسمان زمین پہ گرپڑتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے
خرجت زينب من الفسطاط وهي تنادي: وا أخاه وا سيّداه وا أهلَ بيتاه! لَيت السماء أطبقت على الأرض، وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل
ایک راوی نے لکھا ہے جب خیموں کو آگ لگ گئی ، اور اہل بیت اطہار کی باقیات باہر نکلی تو اس وقت حضرت زینب نے نے روتے ہوئے جو الفاظ کہے ان کو میں بھول نہیں سکتا کہ وہ جناب حسین علیہ السلام پہ رو رہی تھیں اور کس محزون قلب کے ساتھ وہ کہہ رہی تھیں
فواللهِ لا أنسى زينبَ بنت عليّ (عليه السّلام) وهي تندبُ الحسينَ وتنادي بصوتٍ حزين وقلبٍ كئيب
آپ زینب سلام اللہ علیھا کہہ رہی تھیں
یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کاش آسمان گرپڑے، حسین شہید ہوگئے، ان کی لاش کی بے حرمتی کی گئی اور آپ کی بیٹوں کی چادروں کو لوٹ لیا گیا ، ہماری فریاد اللہ سے ہی ہے
آپ نے امام حسین علیہ السلام کی لاش کے پاس کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رخ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں مخاطب کیا
وا محمداه بناتك سبايا و ذريتك مقتلة تسفي عليهم ريح الصبا، و هذا الحسين محزوز الرأس من القفا مسلوب العمامة و الردا، بابي من اضحي عسكره في يوم الاثنين نهبا، بابي من فسطاطه مقطع العري، بابي من لا غائب فيرتجي و لا جريح فيداوي بابي من نفسي له الفدا، بابي المهموم حتي قضي، بابي العطشان حتي مضي، بابي من شيبته تقطر بالدماء، بابي من جده محمد المصطفي، بابي من جده رسول اله السماء، بابي من هو سبط نبي الهدي، بابي محمد المصطفي، بابي خديجة الكبري بابي علي المرتضي، بابي فاطمة الزهراء سيدة النساء، بابي من ردت له الشمس حتي صلي
اے محمد یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں. یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی سپاہ کو سوموار کے دن غارت کی گئیں، میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خدا(ص) ہے اور وہ پیامبر ہدایت(ص)، اور خدیجۃالکبری(س) اور علی مرتضی(ع)، فاطمۃالزہرا(س)، سیدة نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتی کہ اس نے نماز ادا کی
جوخطبہ یزید اور اس کے حامیوں کے سامنے آپ نے دیا اس کا متن و ترجمہ یہاں درج کررہا ہوں اور اسی پہ اس مقالے کا اختتام کررہا ہوں
الْحَمْدُللهِِ رَبِّ الْعالَمینَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ اجْمَعینَ، صَدَقَ اللهُ کَذلِکَ یَقُولُ: (ثُمَّ کَانَ عَاقِبَهَ الَّذِینَ اَسَاءُوا السُّواَى اَنْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ وَکَانُوا بِهَا یَسْتَهْزِیُون).(3)
اَظَنَنْتَ یا یَزِیدُ حَیْثُ اَخَذْتَ عَلَیْنا اَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَاَصْبَحْنا نُساقُ کَما تسُاقُ الاُسارى اَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَبِکَ عَلَیْهِ کَرامَهً وَاَنَّ ذلِکَ لِعِظَمِ خَطَرِکَ عِنْدَهُ، فَشَمَخْتَ بِاَنْفِکَ، وَنَظَرْتَ فِی عِطْفِکَ جَذْلانَ مَسْرُوراً حِینَ رَاَیْتَ الدُّنْیا لَکَ مُسْتَوْثِقَهٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَهٌ وَحِینَ صَفا لَکَ مُلْکُنا وَسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، اَنَسِیتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَیْرٌ لاَِّنْفُسِهِمْ اِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا اِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ).(4)
سب تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کاینات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو براییوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دییے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرف
راز هوا اور ہم رسوا ہویے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گیے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لیے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لیے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔
اس کے بعد فرمایا
«اَ مِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِیرُکَ حَرایِرَکَ وَ اِمایَکَ، وَ سَوْقُکَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبایا، قَدْ هَتَکْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ اَبْدَیْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، یَسْتَشْرِفُهُنَّ اَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ یَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِیبُ وَ الْبَعِیدُ، وَ الدَّنِیُّ وَ الشَّرِیفُ، لَیْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِیُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِیٌّ، وَ کَیْفَ یُرْتَجى مُراقَبَهُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ اَکْبادَ الاَْزْکِیاءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ کَیْفَ یَسْتَبْطِاُ فِی بُغْضِنا اَهْلَ الْبَیْتِ مَنْ نَظَرَ اِلَیْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَیْرَ مُتَّاَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم:
لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً *** ثُمَّ قالُوا یا یَزیدُ لا تَشَلْ
مُنْتَحِیاً عَلى ثَنایا اَبِی عَبْدِاللهِ سَیِّدِ شَبابِ اَهْلِ الجَنَّهِ، تَنْکُتُها بِمِخْصَرَتِکَ، وَ کَیْفَ لا تَقُولُ ذلِکَ وَ قَدْ نَکَاْتَ الْقَرْحَهَ، وَ اسْتَاْصَلْتَ الشَّاْفَهَ بِاِراقَتِکَ دِماءَ ذُرّیَهِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِاَشْیاخِکَ، زَعَمْتَ اَنَّکَ تُنادِیهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِیکاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ اَنَّکَ شَلَلْتَ وَ بَکِمْتَ، وَ لَمْ تَکُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ
اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) (5) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آیے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کویی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کویی نہیں ہے ۔
اس شخص سے بھلایی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہویے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعاییں دیتے ہویے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بها کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کیے ہیں ۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہویے ہیں ۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجهتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔
اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا
!
«اَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ اَحْلِلْ غَضَبَکَ بِمَنْ سَفَکَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَیْتَ اِلاّ جِلْدَکَ، وَلا حَزَزْتَ اِلاّ لَحْمَکَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْکِ دِماءِ ذُرِّیَّتِهِ، وَ انْتَهَکْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِی عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَیْثُ یَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ یَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ یَاْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِى سَبِیلِ اللهِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ).(6) وَ حَسْبُکَ بِاللهِ حاکِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِیماً، وَ بِجَبْرَیِیلَ ظَهِیراً، وَ سَیَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَکَ وَ مَکَّنَکَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِینَ، بِیْسَ لِلظّالِمِینَ بَدَلاً، وَ اَیُّکُمْ شَرٌّ مَکاناً، وَ اَضْعَفُ جُنْداً
اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جایے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلایے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گیے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گیے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھایے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبراییلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لیے کافی ہے ۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جاییں گے جنہوں نے تیرے لیے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جایے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا
«وَ لَیِنْ جَرَّتْ عَلَیَّ الدَّواهِی مُخاطَبَتَکَ، اِنِّی لاََسْتَصْغِرُ قَدْرَکَ، وَ اَسْتَعْظِمُ تَقْرِیعَکَ، وَ اَسْتَکْثِرُ تَوْبِیخَکَ، لکِنَّ العُیُونَ عَبْرى، وَ الصُّدُورَ حَرّى، اَلا فَالْعَجَبُ کُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّیْطانِ الطُّلَقاءِ، فَهذِهِ الاَْیْدِی تَنْطِفُ مِنْ دِمایِنا، وَ الاَفْواهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنا، وَ تِلْکَ الجُثَثُ الطَّواهِرُ الزَّواکِی تَنْتابُها العَواسِلُ، وَ تُعَفِّرُها اُمَّهاتُ الْفَراعِلِ.
وَ لَیِنِ اتَّخَذْتَنا مَغْنَماً لَتَجِدَ بِنا وَ شِیکاً مَغْرَماً حِیْنَ لا تَجِدُ الاّ ما قَدَّمَتْ یَداکَ، وَ ما رَبُّکَ بِظَلاَّم لِلْعَبِیدِ، وَ اِلَى اللهِ الْمُشْتَکى، وَ عَلَیْهِ الْمُعَوَّلُ، فَکِدْ کَیْدَکَ، وَ اسْعَ سَعْیَکَ، وَ ناصِبْ جُهْدَکَ، فَوَاللهِ لا تَمْحُو ذِکْرَنا، وَ لا تُمِیتُ وَحْیَنا، وَ لا تُدْرِکُ اَمَدَنا، وَ لا تَرْحَضُ عَنْکَ عارَها، وَ هَلْ رَایُکَ اِلاّ فَنَدٌ، وَ اَیّامُکَ اِلاّ عَدَدٌ، وَ جَمْعُکَ اِلاّ بَدَدٌ؟ یَوْمَ یُنادِی الْمُنادِی: اَلا لَعْنَهُ اللهِ عَلَى الظّالِمِینَ
.
وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعالَمِینَ، اَلَّذِی خَتَمَ لاَِوَّلِنا بِالسَّعادَهِ وَ الْمَغْفِرَهِ، وَ لاِخِرِنا بِالشَّهادَهِ وَ الرَّحْمَهِ. وَ نَسْاَلُ اللهَ اَنْ یُکْمِلَ لَهُمُ الثَّوابَ، وَ یُوجِبَ لَهُمُ الْمَزیدَ، وَ یُحْسِنَ عَلَیْنَا الْخِلافَهَ، اِنَّهُ رَحیمٌ وَدُودٌ، وَ حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَکیلُ».
اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرایت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمایش سمجھتے ہویے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑییے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔
اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پایے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔
اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہییے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پایے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جاییں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے ۔
ہم خدایے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمایے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لیے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے” ۔
یہ خطبہ تاریخ اسلام کا بہت ہی فصیح اور طاقت ور خطبہ ہے ،گویا اس خطبہ میں علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی بلند و بالا روح اور بے نظیر شجاعت ، ان کی شیر دل بیٹی زینب کبری کی زبان پر جاری ہوگئی ہے جو اسی زبان و لہجہ اور اسی منطق میں تقریر کی ہے ۔