امام علی نقی رضی اللہ عنہ : جس نے اپنی شخصیت پامال کردی اس کے شر سے بچو – عامر حسینی
کل ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں تذلیل پہ دل بہت دکھا ہوا تھا اور ایسے میں ریاست کے ایک ہرکارے نے مجھے فون پہ ڈرایا دھمکایا اور یہاں تک کہ بد زبانی تک کی اور جب اس سگ دنیا کو میرے ایک عزیز بزرگ نے جو عساکر پاکستان میں جرنیل شاہی خاندان سے ہیں عصبیت قبیل داری سے مغلوب ہوکر اسے سنائی تو وہ ایک دم سے بھیگی بلّی بن گیا۔میرے بزرگ نے مجھے فون کرکے کہا کہ اب خوش ہو؟ تو مجھے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی یاد آگئی کہ جب ان کو اپنے بھتیجے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابوجہل کی بدسلوکی کی خبر ملی تو وہ شکار کھیل کر واپس آئے تھے تو انھوں نے جاکر کمان ابوجہل کو ماری اور آکر اپنے عزیز بھتیجے کو کہا کہ اب آپ خوش ہیں تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چچا جان میں تو جب خوش ہوں گا جب آپ واصل باللہ ہوں گے۔
تو میں نے بھی بے اختیار کہا کہ ” بزرگ محترم! مجھے خوشی تب ملے گی جب عقوبت خانوں سے سب جبری گمشدہ اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے”۔یہ سنکر میرے بزرگ خاموش ہوگئے۔میں دکھی دل کے ساتھ ایک دوست کے ہاں چلاگیا۔یہ مرے دوست مجھ سے بہت آشنا ہیں۔انہوں نے میرے چہرے کا غبار دیکھا تو میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کہنے لگے! تمہیں پتا ہے کہ آج کس کا یوم شہادت ہے ؟
میں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں آرہا۔میرے دوست کے چہرے پہ تاسف ابھرآیا ۔کہنے لگے مکتب علی شناسی اور مکتب انسانیت کے پیروکاروں کی تکالیف پہ تمہارا رنجیدہ ہونا بجا لیکن اس مکتب کے رہبروں کی یاد دل سے فراموش نہیں ہونی چاہئیے۔کہنے لگے آج 3 رجب المرجب ہے ۔۔۔۔۔انہوں نے اتنا کہا تھا کہ مجھے علی بن محمد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد الباقر بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب رضوان اللہ اجمعین یاد آگئے اور یقین کیجئے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔میری یہ کیفیت دیکھ کر میرے دوست بھی رونے لگے۔امام محمد تقی اور امی سمانہ کی آپ اولاد تھے اور میرے دوست کہہ رہے تھے ” تمہیں یاد ہے نا! علی نقی چھے سال کے ہوں گے جب امام محمد تقی زیقعد کے مہینے میں عراق گئے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوگئی تھی اور یہ یتیمی و ناداری میں بی بی سمانہ کی آغوش میں پلے تھے”۔
میں نے نم آنکھوں سے یہ سب سنا تھا اور میرے آنکھوں کے سامنے گزرے واقعات کی ایک فلم چلنے لگی تھی۔
آپ نے جب ہوش سنبھالا تو معتصم باللہ کی حکومت تھی اور پھر واثق باللہ کی حکومت آئی اور یہ دونوں ادوار آپ کے لئے نسبتا سکون کے ادوار تھے۔
اور پھر ان کی زندگی میں عباسیوں کا شیطان بادشاہ متوکل برسراقتدار آیا تھا اور اس نے سامرہ میں آپ کو بلایا تھا۔بظاہر اس نے یہ کہا تھا کہ آپ کو اپنے پاس کچھ عرصہ مہمان ٹھہراکر وہ برکت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ہوا کیا تھا۔ابن جوزی نے اپنی تاریخ میں ہمارے لئے اس ساری روداد کو محفوظ کرلیا ہے۔آپ جیسے ہی سامرہ میں داخل ہوئے تو متوکل نے آپ کو شہر سے دور ایک کھنڈر سرائے میں ٹھہرایا جسے خاف الصعالیک اور اس کے لفظی معنی بھیک مانگنے والوں کی سرائے ہے۔
آپ یہاں ٹھہرے اور بہت مشکلات آپ پہ آئیں۔تین دن یہاں آپ کو ٹھہرایا گیا اور اس کے بعد آپ کو حاجب عراقی کی حراست میں دے دیا گیا۔یہ شخص آپ کے حسن سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے آپ پہ تمام سختی ختم کردی اور آپ سے محبت کرنے والوں میں شامل ہوگیا اس کی حبر متوکل کو ملی تو اس نے حاجب عراقی کو ہٹاکر ایک شقی القلب سعید کو متعین کیا جس نے آپ پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔اور آپ کو وقت بے وقت تنگ کیا جاتا۔ایک بار جب متوکل سخت نشے میں تھا تو اس نے امام علی نقی کو بلایا اور ان کی سخت تذلیل کی اور ان سے اشعار سنانے کو کہا۔آپ اس سے سخت دکھی تو ہوئے لیکن آپ کی غیرت نے جوش مارا اور انتہائی پراثر اشعار کہے :
باتو على قلل الأجبال تحرسهم
غلب الرجال فما أغنتهم القلل
انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں
لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا
و استنزلوا بعد عز عن معاقلھم
فاودعوا حفرا یا بئس ما نزلوا
ناداهم صارخ من بعد دفنهم
أین الأساور و التّیجان و الحلل
عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیا
انہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں
أین الوجوه التى كانت منعمّة
من دونها تضرب الاستار و الكلل
فاءصفح القبر عنهم حین سائلهم
تلك الوجوه علیها الدّود تنتقل
گویا بلند فریاد آئی اور ان سے کہا
کہاں گئے تاج و تخت و زینتیں؟
کیا ہوا ان چہروں سے جو ناز و نعمت میں ڈوبے ہوئے تھے؟
کہ ان کے سامنے پردے لٹکے ہوئے، پرندوں کے بلند پَر جو ان کے تاج پر لگائے جاتے تھے؟
متوکل کو اس کے اپنے ایک غلام نے قتل کردیا اور پھر معتز باللہ کی حکومت آئی اور اس نے آپ کو زہر دلوایا اور اسی میں آپ کی شہادت ہوئی۔آپ کے بیٹے امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
میں برکت کے لئے امام نقی کے کچھ اقوال یہاں درج کرنا چاہتا ہوں:
لسَّهَرُ أُلَذُّ الْمَنامِ، وَ الْجُوعُ يَزيدُ فى طيبِ الطَّعامِ
شب بیداری نیند کو لذیز بناتی ہے اور بھوک کھانے کو مزید مرغوب کرتی ہے
لا تَطْلُبِ الصَّفا مِمَّنْ كَدِرْتَ عَلَيْهِ، وَلاَ النُّصْحَ مِمَّنْ صَرَفْتَ سُوءَ ظَنِّكَ إلَيْهِ، فَإنَّما قَلْبُ غَيْرِكَ كَقَلْبِكَ لَهُ
جس سے كینہ ركھتے ہو اس سے محبت كی تلاش میں نہ رہو اور جس سے بد گمان ہو اس سے خیر خواہی كی امید نہ ركھو، کیونكہ دوسرے كا دل بھی تمہارے دل كے مانند ہے
الْهَزْلُ فكاهَةُ السُّفَهاءِ، وَ صَناعَةُ الْجُهّالِ
دوسروں کا مذاق اڑانا بے وقوفوں كا شیوہ اور جاہلوں كا پیشہ ہے
الْحَسَدُ ماحِقُ الْحَسَناتِ، وَالزَّهْوُ جالِبُ الْمَقْتِ، وَالْعُجْبُ صارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ داع إلَى الْغَمْطِ وَالْجَهْلِ، وَالبُخْلُ أذَمُّ الاْخْلاقِ، وَالطَّمَعُ سَجيَّةٌ سَيِّئَةٌ
حسد نیكیوں كو تباہ كرنے والا ہے، غرور، دشمنی لانے والا ہے، خودبینی، تحصیل علم سے مانع اور پستی و نادانی كی طرف كھینچنے والی ہے اور كنجوسی بڑا مذموم اخلاق ہے، اور لالچ بڑی بری صفت ہے
من هانت علیه نفسه فلا تاٴمن شره
جس نے اپنی شخصیت کو پامال کر دیا اسکے شر سے بچو
من جمع لک و ده و رایه فاجمع له طاعتک
جو بھی تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اسکی اطاعت کرو