جو مین سٹریم میڈیا بلوچ نسل کشی پہ سچ بیان کرنے سے معذور ہو وہ کیسے بنگالیوں کے بارے میں سچ لکھ سکے گا
مجھے کوئی بکواس نہیں کرنی ہے 16 دسمبر 1971ء کے دن کو لیکر بلکہ اپنے پڑھنے والوں کو وہ کچھ بتانے کی کوشش کرنا ہے جو گزشتہ 44 سالوں میں نہ تو ہمیں استادوں نے بتایا ،نہ ہی ہمیں مین سٹریم میڈیا نے بتانے کی کوشش کی اور نہ ہی ہم نے خود سے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔اگر کبھی سچ سامنے آیا بھی تو ہم نے اپنی یاد داشت سے اسے کھرچ کر پھینک دیا۔
سرمیلا بوس کی کتاب آکسفورڈ سے چھپی تو اس میں ایک بڑے کینویس پہ پھیلی تصویر سے ہم نے مطلب کے امیجز برآمد کئے اور مین سٹریم میڈیا میں رپورٹ کرڈالے۔اثر ریسورس سنٹر نے ایک تقریب کرکے تھوڑا سچ بولنے کی کوشش کی تو ہم نے اس کو رپورٹ ہی نہیں کیا۔جس نے بنگلہ دیش والوں سے معافی مانگنے کی کوشش کی اسے فوری غدار کہہ ڈالا گیا۔اس سے تاریخ کا کچھ نہیں بگڑا مگر ہماری حیوانیت ، بے ضمیری کا سب کو پتا چل گیا۔
جو کالم آپ پڑھنے جارہے ہیں وہ یاسمین صاعقہ کی ریسرچ ہے اور یہ بھی پاکستانی آکسفورڈ پریس سے اس لئے شایع ہوگئی کہ اس میں بھی بڑے کینویس میں چند تصویریں ہمیں معذرت خواہی کا موقعہ فراہم کرنے کے کام آسکتی ہیں لیکن صاعقہ کا یہ مقصد تو ہرگز نہیں تھا۔
میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ 16 دسمبر 1971ء پہ جو کالم میں نے لکھا پاکستان کا کوئی بڑے سے بڑا اردو اخبار اسے شایع نہیں کرسکتا اور یاسمین صاعقہ کی کتاب سے اقتباسات بھی ری پروڈیوس نہیں کرسکتا حالانکہ کتاب پاکستان میں آکسفورڈ پریس سے چھپی ہے۔
بھلا جو مین سٹریم میڈیا بلوچ نسل کشی پہ سچ بیان کرنے سے معذور ہو وہ کیسے بنگالیوں کے بارے میں سچ لکھ سکے گا۔مجھے افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ پنجاب کی نئی نسل کے پاس یاد رکھنے کو 71ء کی یادوں کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے ورنہ وہ بلوچستان کی ترقی کے پروپیگںڈے کی کہانی کبھی نہ خریدتی اور آج پاکستانی حکمران طبقے کی کہانیوں پہ یقین نہ کرتی اور ان کو شبیر بلوچ کی بیوی زرینہ بلوچ کی اپیل نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوجاتی یا قلندرانی خاندان کی عورت کی ویڈیو کلپ ان کو سڑکوں پہ آنے پہ مجبور کرڈالتی
ہمارا مین سٹریم میڈیا بنگالیوں کے ساتھ ہورہے انیائے کے وقت بھی جھوٹ ہی بول رہا تھا اور آج بلوچوں کے ساتھ ہورہے انیائے کے وقت بھی جھوٹ ہی بول رہا ہے۔اس زمانے میں بھی پنجاب کی بھاری اکثریت بنگالیوں کو سبق سکھانے پر راضی تھی اور آج بلوچوں کو سبق سکھانے پہ راضی ہے۔یہ اس وقت بنگالیوں کو ہندوستانی ایجنٹ کہتے تھے اور آج بلوچوں کو ہندوستانی ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے۔اردو اخبارات کے آج شایع ہونے والے خصوصی ایڈیشن “سقوظ ڈھاکہ ” کی دھائی دے رہے ہوں گے، اور ان کو ڈھاکہ ڈوبتا دکھائی دے رہا ہوگا۔ اور اغیار کی سازشوں کا رونا رویا جارہا ہوگا۔پنجابی صدق دل سے اس کہانی پہ ایمان لے آئیں گے اور جی بھرکے ہندؤں کو گالیاں دی جائیں گی ، اندرا گاندھی کو صلواتیں سنائی جائیں گی۔لیکن سچ کیا ہے اس بارے کوئی اخبار اپنے قاری کو نہیں بتائے گا۔
کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ پالاش بری ڈھاکہ میں رہنے والا کوی (شاعر) جسیم الدین نے یہ نظم کیوں لکھی تھی
یہ آخری کویتا ہےجو میں لکھتا ہوں ترے نام
ترا بدنصیب باپ جسے زندگی دان کرنا ہی پڑے گی
ترے نام آخری کویتا لکھنے بیٹھا ہے
خوشی کا پھول جس کی خوشبو کو سونگھنے سے پہلے ہی مرجھاجانا ہے
اس کا گھر جسے تمہاری پناہ گاہ بننا تھا جلادیا جانا ہے
جسے تمہارا ہونا تھا اسے اجنبیوں کی یلغار کا سامنا ہونا ہے
جس کا عقبی صحن اس کی باؤنڈری ہے
جہاں اس نے پناہ تلاش کرنی ہے
سپاہی سارے کونے حصار میں لے چکے
تمہارا جسم دھان کی ڈنڈی کی طرح چاک و چوبند ومعطر ہے
ایسا جمال مری پیاری بیٹی تمہارا دشمن ہے
سپاہی تمہارے تعاقب میں ہیں اور ان کی بندوقوں میں لگی سنگینیں ان کی خواہشوں کو آشکار کرتی ہیں
پیاری بیٹی،میں تمہیں کہاں چھپا پاؤں گا
کہاں سے لاؤں درخت کی وہ چھاؤں جو تمہیں سکون بخشے
ہمارے ہر طرف خشک ریت ہے
جہاں شیر بھی آدمی کو مارتا ہچکچاتا ہے
یہ آدمی نہیں ہچکچاتے
یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کو گھنے جنگلوں میں گھیر لاتے ہیں
لیکن یہاں بھی اگر ممکن ہوتا
تو میں اک کویتا لکھتا
کیا مین سات سمندروں سے لاسکتا ہوں وہ سلامتی
جو تمہیں آزاد کرے گی
اور تمہارے پیروں کو قزاقوں کی سرخی سے رنگ دے گی
نہ آنسو ، نہ آہیں اور نہ ہی الوداعی گیت ہیں یہاں
اپنے بیٹے کے جسم کو تھامے باپ کی لاش پڑی ہے
وہ ایک دوسرے کو پرسہ نہیں دیں گے
مردہ نوبیاتا دلہن کے پہلو میں پڑی ہوگی دلہا کی لاش
شبد محبت کے ان کہے رہ جائیں گے
مرگئی ہوئی ماں اور اس کے بچے کی لاش
بارش میں پڑی خراب ہوتی ہوگی
محبت مرچکی ،رحم ختم ہوچکا
صرف دھرتی ماں کی چیخیں ہیں
اور ہوا سبک خرام ، سبک خرام چلتی جاتی ہے