اورلینڈو فائرنگ واقعہ پر میزبان کی جانب سے ہم جنس پرست فوبیا کو نظر انداز کرنے پر ایونز جانز کا سکائی نیوز انٹرویو سے واک آوٹ – عامر حسینی
Owen Jones walks out of Sky News interview after presenters ‘downplay’ homophobia of Orlando shooting
The journalist insisted the host and co-panelist were trying to ‘deflect’ attention from the fact that Omar Mateen deliberately attacked gay people.
ایونز جانز سکائی نیوز انٹرویو سے واک آوٹ کرگئے جب پروگرام کے میزبانوں نے اورلینڈو فائرنگ کے واقعے میں ‘ہم جنس پرست فوبیا ‘ کو نظر انداز کرنا چاہا
ایونز جانز صحافی کا کہنا تها کہ میزبان اور ان کے ساته شریک پینل دونوں اس حقیقت سے منہ
موڑنے کی کوشش کررہے تهے کہ ‘عمر متین ‘ نے سوچ سمجه کر ہم جنس پرست لوگوں پہ حملہ کیا
اورلینڈو فلوریڈا امریکہ میں ‘ہم جنس پرست کلب ‘ پر فائرنگ کے واقعے کے بعد ایک مرتبہ پهر کچه حقیقتوں کو چهپانے کی کوشش ہورہی ہے جس میں ایک حقیقت یہ بهی ہے کہ یہ حملہ ایک افغان نژاد مسلم دیوبندی نوجوان عمر متین نے کیا جو کہ امریکہ کے اندر ہم جنس پرستی کے جواز اور ہم جنس پرستوں کی باہمی شادی کے قانون کو متعارف کرائے جانے اور ان کے وہاں تفریحی کلب کے موجود ہونے پہ ڈسٹرب تها اور اس کا یہ حملہ سوچا ، سمجها اور شعوری تها کہ اس کے نزدیک ہم جنس پرستوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے اس نے فائرنگ کرکے 50 کے قریب ہم جنس پرستوں کی جان لے لی
امریکہ سمیت پورے مغرب میں اورلینڈو فائرنگ کے واقعے کے بعد ایک مرتبہ پهر یہ بحث چهڑ گئی ہے کہ ” کیا مسلمان مغربی معاشروں میں ‘تکثیریت پسندی ‘ کے اصول کے ساته رہ سکتے ہیں ؟ یعنی کیا وہ مغربی معاشرے میں ہندو ، سکه ، یہودی ، مسیحی ، بدهسٹ ، ملحد ، ہم جنس پرست مرد و عورت ، پارسی اور یہاں تک کہ خود مسلم کمیونٹی کی مختلف مذهبی شناختوں کے ساته رہ سکتے ہیں ؟
مغرب کے اندر ایک طاقتور دائیں بازو کا رحجان تو یہ نظریہ رکهتا ہے کہ ‘اسلام ‘ کا کوئی بهی ماننے والا ہو ،وہ ‘تکثیریت ‘ پسند ہو ہی نہیں سکتا اور وہ ان سب کو مغربی معاشروں سے نکال باہر کرنے کی بات کرتے ہیں ، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک طاقتور آواز ہے اس گروہ کی
مغرب میں دائیں بازو اور بائیں بازو دونوں کے اندر ایک اور طاقتور دانشورانہ رجحان وہ ہے جو اول الذکر نظریہ کو اسلامو فوبک کہتا ہے اور اس سے ہٹ کر اس کا کہنا ہے کہ جو مسلمان یورپ اور یورپ سے باہر تکثیریت مخالف ہیں اور وہ اسلام کے قدامت پرستانہ ، بنیاد پرستانہ اور یک نوعی قسم کے بیانیہ کا نفاز چاہتے ہیں وہ ‘سیاسی اسلام پسند ‘ ہیں یا ‘پولیٹکل اسلام ‘ کے ماننے والے ہیں اور وہ اسے ‘اسلام ازم ‘ بهی کہتے ہیں جسے وہ ‘اسلام ‘ سے الگ ایک شئے خیال کرتے ہیں اور اسے وہ اخوان ازم ، قطب ازم ، خمینی ازم ، مودودی ازم ، وهابی ازم جیسے نام بهی دیتے ہیں
کچه دوستوں کا خیال یہ ہے کہ ‘پولیٹکل اسلام یا اسلام ازم ‘ بہت ہی عمومی اصطلاح ہے ان کی نظر میں سان برڈینو ، پیرس ، فلوریڈا ، برسلز سمیت یورپ اور امریکہ میں جتنے بهی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ان میں ملوث دہشت گرد سلفی وهابی یا دیوبندی وهابی مسلک سے تعلق رکهتے تهے اور ان کی سوچ ‘سلفی دیوبندی تکفیر ازم ‘ سے ملتی تهی اور ان کا آئیڈیل داعش یا طالبان کی امارت تهی اور اسی لیے ان کے خیال میں اسے فقط ‘اسلام پسند یا سیاسی اسلام پسند دہشت گردی یا انتہاپسندی ‘کہنا ٹهیک نہیں ہے کیونکہ ان کے خیال میں اسلام کے دیگر مکاتب فکر جیسے صوفی سنی ، شیعہ ، اسماعیلی اور پاکستان میں غیر مسلم قرار دیا جانے والا فرقہ احمدی اگرچہ کسی نہ کسی شکل کا ‘سیاسی اسلام ‘ رکهتے ہیں لیکن وہ امریکہ یا یورپ میں دہشت گردی یا دہشت گردی کی جانب لیجانے والا نظریہ نہیں رکهتے اور نہ ہی ان میں دہشت گردی کا کوئی مرتکب ہوا ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ‘مسئلہ پولیٹکل اسلام نہیں بلکہ دیوبندی اور سلفی ازم ہے ‘ یہ نکتہ نظر اپنے اندر کافی جهول رکهتا ہے کیونکہ سلفی اوردیوبندی اسلام کو ماننے والوں کی اکثریت بهی ‘دہشت گردی ‘ پہ یقین نہیں رکهتی لیکن ان کے اندر ایک منظم ، مربوط اور انتہائی طاقتور ‘تکفیری ، جہادی ، عسکریت پسند ، متشدد اور جنونی کیمپ ‘ موجود ہے جو باقاعدہ انسٹی ٹیوشنلائز ہے اور اسی سے دہشے گرد برآمد ہورہے ہیں
ایونز جانز نے سکائی نیوز ٹی وی کے پروگرام کا بائیکاٹ کرکے ‘ہم جنس پرستوں کی مظلومیت اور ان کو خاص طور پہ نشانہ بنائے جانے کی حقیقت ‘ کو اجاگر کیا ہے اور یہ ایک طرح سے ویسا ہی ایک موقف ہے جو پاکستان کے اندر مرے سمیت کئی اور دوستوں اور گروپوں نے اختیار کیا ہے کہ ایک تو ہم نے مین سٹریم میڈیا کی اول اس روش پہ تنقید شروع کی تهی جو پہلے ‘شیعہ ٹارگٹ کلنگ ‘ کو شیعہ شاخت زکر نہ کرکے اسے چهپاتا تها اور پهر اس نے ‘صوفی سنی ٹارگٹ کلنگ ‘ کو ان کی شناخت کو چهپاکر ‘غیر اہم ‘ کردیتا تها اور ایسا کرنے سے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتا تها کہ پاکستان میں شیعہ ، صوفی سنی ، احمدی ، مسیحی ، سیکولر لبرل دانشور و سیاست دان سب کے سب ‘تکفیری دیوبندی دہشت گردی ‘ کا شکار ہیں جن کو مین سٹریم میڈیا کبهی اسلامسٹ ، کبهی اسلامی انتہا پسند اور کبهی ‘سنی شدت پسند یا سنی دہشت گرد ‘ لکهتا ہے اور اس نے یہ روش ابتخ ترک نہیں کی ہے اور اس ‘گول مول ‘ روش کو پاکستان سول سوسائٹی کی غالب اکثریت نے بهی اختیار کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف ابتک ابہام ، الجهاو اور معذرت خواہی کا راستہ کهلا ہوا ہے
دہشت گردی کے باب میں اپالوجی یامعذدت خواہی کا وہ طریقہ جس میں ایک طرف تو دہشت گردی کا ہدف بننے والے فرد یا گروہ کی شناخت پہ پردہ ڈالا جائے اور دوسری طرف دہشت گرد کی آئیڈیالوجی ، اس کی مذهبی شناخت کو یا تو ظاہر ہی نہ کیا جائے یا اس کو انتہائی کم اہمیت کا معاملہ قرار دیا جائے براہ راست دہشت گردوں اور ان کے پالنہاروں کو فائدہ پہنچاتا ہے
Link: