دو بنگالی جو پاکستان پر اپنا سب کچھ قربان کر گئے – عدنان خان کاکڑ
آئیے آج ان دو بنگالیوں کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کر دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی جنگ چھڑی تو یہ پاکستان کے ساتھ ہی رہے اور انہوں نے اپنی جنم بھومی میں غدار کہلانا پسند کیا مگر پاکستان کا ساتھ نہ چھوڑا۔
محمود علی یکم ستمبر 1919 کو سلہٹ کے علاقے سونم گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں نمایاں وکیل، مصنف اور سیاستدان پیدا ہوئے۔ محمود علی آسام مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے صدر تھے۔ سنہ 1944 میں وہ آسام مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر مقرر کیے گئے اور سنہ 1946 میں محض چھبیس برس کی عمر میں آسام کی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ریڈ کلف مشن کے تحت حد بندی ہوئی تو یہ فیصلہ ہوا کہ بنگال میں سلہٹ کے ضلع میں اور شمال مغربی علاقے میں سرحد کے صوبے میں پاکستان میں شمولیت کے سوال پر ریفرینڈم ہو گا۔ محمود علی کی کوشش سے سلہٹ کے عوام نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ دیا۔
محمود علی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اردو کے علاوہ بنگالی کو بھی قومی زبان تسلیم کرانے کی مہم چلائی جو کہ 1956 کے دستور کی صورت میں کامیاب ہوئی۔ محمود علی 1952 میں مسلم لیگ سے مایوس ہو کر الگ ہو گئے اور انہوں نے پاکستان کی پہلی سیکولر پارٹی بنائی۔ گناتنتری دل میں غیر مسلموں کو بھی برابری کا حق حاصل تھا اور یہ سیکولر آئین کی حامی تھی۔ اس پارٹی کے منشور میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، جوٹ کی تجارت کی نیشنلائزیشن، خواتین اور اقلیتوں کے لیے برابری کے حقوق، اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزا سسٹم ختم کرنے کے اہداف شامل تھے۔
سنہ 1971 میں محمود علی اقوام متحدہ میں پاکستان کے وفد کے سربراہ تھے۔ جب بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا گیا، تو وہ ہاتھ میں ایک سوٹ کیس تھامے، اور جیب میں محض تین سو ڈالر رکھے مغربی پاکستان آئے جبکہ ان کا سارا خاندان بنگلہ دیش میں تھا۔ اس وقت سارے بنگالی پاکستان سے نکل کر بنگلہ دیش جانا چاہتے تھے، مگر محمود علی اپنے خاندان کو بنگلہ دیش سے پاکستان لانا چاہتے تھے۔ آمد و رفت کے سارے راستے بند تھے۔ انہوں نے اس وقت انڈونیشیا کے نائب وزیراعظم سے رابطہ کیا جو کہ اقوام متحدہ میں قیام کے دوران ان کے دوست بنے تھے۔ نائب وزیراعظم کے ذریعے انڈونیشیا کے بلینک پاسپورٹ بنگلہ دیش پہنچائے گئے، اور ان پر محمود علی کے اہل خانہ کی تصاویر چسپاں کر کے ان کو نیپال اور پھر تھائی لینڈ کے ذریعے پاکستان لایا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے سربراہ بنے تو پاکستان سے بے مثال وفاداری دکھانے کے عیوض محمود علی کو امریکہ یا برطانیہ میں سفارت کی پیش کش کی جو محمود علی نے ٹھکرا دی۔ اس کے بعد بھٹو نے پہلے محمود علی کو اپنا مشیر مقرر کیا، اور بعد میں تین قلمدان دے کر وزارت کے منصب پر فائز کر دیا۔ بھٹو کے جانے کے بعد یہ قلمدان تو نہیں رہے، لیکن محمود علی اپنی وفات تک پاکستان کے ایسے بے محکمہ وزیر رہے جسے کابینہ کے اجلاسوں میں نہیں بلایا جاتا تھا۔
محمود علی بنگلہ دیش بننے کا ذمہ دار ایوب خان کو ٹھہراتے تھے اور ملک کے سبھی سربراہوں میں وہ سب سے زیادہ نا پسند بھی ایوب خان کو ہی کرتے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کو چھ نکات نواب کالاباغ نے دیے تھے تاکہ قوم کو تقسیم کر کے ایوب خان کے خلاف مہم کا زور توڑا جا سکے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ریلوے کے اسی ڈبے میں سفر کرتے رہے جو ایوب خان کے زیر استعمال رہا تھا۔ اس ڈبہ نمبر بیالیس کے حوالے سے وہ بتاتے تھے کہ یہ ریلوے کا آرام دہ ترین سیلون تھا جو کہ ایوب خان کے جانے کے بعد مستقل طور پر انہیں الاٹ کیا گیا۔ جب اسحٰق خان صدر بنے تو یہ پارلر ان سے چھین لیا گیا اور جب فاروق لغاری آئے تو انہوں نے پھر سے یہ سہولت لوٹا دی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ پارلر ریلوے کے وفاقی وزیر تک کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
محمود علی نے سترہ نومبر 2006 کو وفات پائی۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین عرصے تک رہنے والے دو وزیروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے پاکستان سے ایسی محبت نبھائی کہ اس کی خاطر اپنی جنم بھومی کو بھی چھوڑ دیا اور جواب میں مختلف الخیال پاکستانی حکومتوں نے بھی ان کی پاکستان سے وفاداری کا احترام کیا۔
یہ تو تھی ایک ایسے بنگالی کی کہانی جس نے پاکستان کی محبت میں اپنی جنم بھومی کو چھوڑ دیا۔ اب یاد کرتے ہیں ایک ایسے بنگالی کو جو کہ غیر مسلم تھا لیکن اس نے پاکستان سے محبت میں اپنا تخت و تاج چھوڑ دیا۔ اس کا نام تھا راجہ تری دیو رائے۔
سنہ 1933 میں چٹاگانگ کی پہاڑیوں میں راج بری کے علاقے میں چکما قبائل میں ایک شہزادہ پیدا ہوا جو کہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔ بیس سال کی عمر میں 1953 میں وہ چکما راجہ کے تخت پر بیٹھا۔ 1970 کے الیکشن میں صرف دو شخص ایسے تھے جو عوامی لیگ کے سیلاب کے سامنے چٹان بن کر کھڑے رہے، صرف دو امیدوار عوامی لیگ کے خلاف کامیاب ہوئے، نور الامین اور چکما راجہ تری دیو رائے۔
اس شخص کی پاکستان سے محبت بے مثال تھی۔ جب 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بنا تو انہوں نے ترک وطن کیا اور چٹاگانگ میں اپنا راج پاٹ چھوڑ کر مغربی پاکستان آ گئے۔ ان کا سارا خاندان وہیں رہا لیکن بعد میں ان کے تین بیٹے پاکستان آ گئے جبکہ سب سے بڑے بیٹے دباشیش رائے کو ان کی جگہ چکما قبائل کا راجہ مقرر کر دیا گیا۔
یہاں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں صدر پاکستان بننے کی پیشکش کی۔ دستور پاکستان کے مطابق صرف ایک مسلمان ہی صدر پاکستان بن سکتا ہے۔ راجہ تری دیو نے بدھ مت کو چھوڑنا پسند نہیں کیا اور پیشکش ٹھکرا دی۔ پیپلز پارٹی کا رکن نہ ہونے کے باوجود بھٹو نے انہیں اپنی بارہ رکنی کابینہ میں وزیر اقلیتی امور و سیاحت مقرر کر دیا۔ راجہ تری دیو بھی محمود علی کی طرح تاحیات وفاقی وزیر رہے، گو کہ بھٹو کے بعد کے ادوار میں وہ بھی وزیر بے محکمہ تھے۔
جنرل ضیا کی حکومت آئی تو راجہ تری دیو کو پاکستان سے دور بھیجنا ہی مناسب سمجھا گیا اور ان کو 1981 میں ارجنٹائن، چلی، ایکواڈور اور یوروگوئے کا سفیر بنا کر بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے 1995 تک یہ فرائض سرانجام دیے۔ اس کے بعد ان کو سری لنکا میں سفیر مقرر کیا گیا جہاں سے وہ 1996 میں وطن واپس آئے۔ راجہ تری دیو 1996 سے لے کر اپنی وفات تک پاکستان بدھسٹ سوسائٹی کے صدر رہے۔
راجہ تری دیو رائے ایک مصنف بھی تھے۔ ان کی کتاب ’ساؤتھ امیرکن ڈائریز‘ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’دا ڈیپارٹڈ میلوڈی‘ لکھی جس میں چکما قبائل اور راجاؤں کا حال بھی بیان کیا گیا ہے۔ ان کی مختصر کہانیوں پر مبنی کتاب ’کولیکشن آف شارٹ سٹوریز‘ بھی مشہور ہے۔
پاکستان آنے کے بعد راجہ تری دیو رائے کبھی بھی واپس بنگلہ دیش نہیں گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بلاشبہ میں اپنے لوگوں، اپنے گھر، اپنی کمیونٹی سے جدائی کا درد محسوس کرتا ہوں، لیکن حالات اور تاریخ نے میری زندگی میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے‘۔ راجہ تری دیو کو چکما قبائل سے بہت محبت تھی، مگر انہوں نے 1971 کے بعد کبھی ان کے مسائل پر گفتگو نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکومت پاکستان کی بنگلہ دیش سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششوں کے مدنظر وہ اس کے لیے شرمندگی کا سبب پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
راجہ تری دیو رائے سفارت سے سبکدوشی کے بعد حکومت اور قوم کی طرف سے فراموش کر دیے گئے اور پاکستان کی محبت میں تخت و تاج چھوڑ دینے والے اس راجہ نے اسلام آباد کے ای الیون میں واقع چکما ہاؤس میں تنہائی کے دن گزارے اور سترہ ستمبر 2012 کو وفات پائی۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/15285/adnan-khan-kakar-110/