ٹیپو سلطان، شیر، گیدڑ اور ہم – عدنان خان کاکڑ

tipu-sultan-2

چار مئی 1799 کو ٹیپو سلطان کا یوم شہادت تھا جو کہ بھارت میں منایا گیا مگر پاکستان میں چپ چاپ گزر گیا۔ ہم ٹیپو کو اس کے ایک مبینہ قول کی وجہ سے جانتے ہیں اور یہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ ٹیپو ایک بہادر اور جذباتی حکمران تھا۔  لیکن کیا ٹیپو سلطان واقعی ایک جذباتی حکمران تھا؟ آئیے دیکھتے ہیں میسور کی تیسری جنگ کے آئینے میں۔

میجر ڈیروم اپنی کتاب ۔’1792 میں انڈیا میں مہم کی روداد‘ میں لکھتے ہیں کہ لارڈ کارنوالس اپنے عملے اور اہم افسران کے ہمراہ اپنے خیمے کے دروازے پر میسور کے شہزادوں سے ملا جب کہ وہ ہاتھیوں سے اتر رہے تھے۔ لارڈ کارنوالس انہیں گلے ملنے کے بعد اپنے ہاتھوں میں ان کے ہاتھ تھام کر وہ خیمے میں داخل ہوا۔ بڑا شہزادہ عبدالخالق تقریباً دس برس کا تھا، اور چھوٹے شہزادے معز الدین کی عمر آٹھ سال تھی۔ جب وہ لارڈ کارنوالس کے پہلوؤں میں بیٹھ گئے تو وکیل غلام علی نے لارڈ کارنوالس کو یوں مخاطب کیا ’یہ بچے، اس صبح میرے آقا سلطان کے بیٹے تھے، لیکن ان کے حالات اب تبدیل ہو چکے ہیں، اور اب انہیں آپ کو اپنے والد کی جگہ سمجھنا ہو گا‘۔

ٹیو سلطان تھریونکوڑے پر قبضہ کرنا چاہتا تھا جو کہ کمپنی کا باجگزار علاقہ تھا۔ سنہ 1789 میں موقعہ مناسب جان کر ٹیپو سلطان نے اس پر حملہ کر دیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اتحادیوں مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کے ساتھ مل کر سلطنت میسور کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اسے تاریخ میں میسور کی تیسری جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تقریباً ڈھائی سال تک یہ جنگ چلی اور لارڈ کارنوالس کی فوجوں نے ٹیپو کے پایہ تخت سرنگا پٹم کا محاصرہ کر لیا۔ اس موقعے پر انگریزوں نے صلح کی بات چیت شروع کی۔ صلح کے نتیجے میں ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو تین کروڑ روپے بطور تاوان ادا کیا اور آدھی سلطنت میسور کو فاتحین کے حوالے کر دیا گیا۔ معاہدے کے تحت ٹیپو کو کارگ کے راجہ کو آزادی بھی دینا پڑی اور معاہدے پر عمل درآمد کی گارنٹی کے لیے اپنے دو بیٹے بھی لارڈ کارنوالس کے حوالے کرنے پڑے۔ ٹیپو سلطان ان کو دو سال بعد واپس حاصل کر پایا۔

ٹیپو سلطان اور نپولین بوناپارٹ کے درمیان اتحاد کے خطرے کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے سنہ 1798 میں میسور کی چوتھی جنگ چھیڑ دی، جس کا اختتام چار مئی 1799 کو ٹیپو سلطان کی شہادت پر ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ سرنگا پٹم کی دیوار میں شگاف پڑ گیا اور ٹیپوسلطان خود اس طرف پہنچا تاکہ فوجوں کا حوصلہ بلند ہو، اور اسی جگہ ایک گولی لگنے سے ٹیپو کی شہادت ہوئی۔

ہم اپنی جذباتیت ظاہر کرنے کے لیے مبینہ طور پر میسور کی چوتھی جنگ کے موقعے پر کہا جانے والا ٹیپو سلطان کا ایک مبینہ قول خوب دہراتے ہیں کہ ’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘۔ لیکن ہم یہ کہتے ہوئے میسور کی تیسری جنگ اور سرنگا پٹم کے معاہدے کو بھول جاتے ہیں۔

ٹیپو ایک جذباتی حکمران نہیں تھا جو ہم اسے بنائے بیٹھے ہیں۔ اس نے انگریزوں سے لڑنے کے لیے ایک طرف تو فرانسیسیوں سے تعلقات بڑھائے، دوسری طرف اپنے ملک میں ہتھیار سازی کی صنعت کو خوب ترقی دی اور اس نے میدان جنگ میں پہلی مرتبہ لوہے کے خول والے راکٹوں کا استعمال کیا، اور تیسری طرف اپنے ملک میں تعلیم کو ترقی دینے پر توجہ دی۔ اور جب وہ کمزور پڑا تو اس نے اپنے بیٹوں تک کو دشمن کے حوالے کر دیا تاکہ اسے وقت ملے اوروہ دوبارہ تیاری کر کے دشمن کا سامنا کر سکے۔

ٹیپو سلطان بہادر اور بیدار مغز حکمران تھا، لیکن وہ ہرگز بھی ایک جذباتی حکمران نہیں تھا اور دل کی بجائے دماغ سے امور سلطنت چلاتا تھا، جبکہ ہم نے اس کے شیر گیدڑ والے قول سے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ دماغ کا استعمال کرنا منع ہے اور فیصلے کرنے کے لیے محض جذبات ہی کافی ہیں۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/14499/adnan-khan-kakar-103/

Comments

comments