ہم لونڈیاں نہیں ہیں – عاطف محمود

atif

“نکاح سترہ” کا نام آپ نے پہلے کبھی نہیں سنا ہو گا،یہ عرب دنیا میں رائج ہونے والی نکاح کی ایک نئی قسم ہے،اس سے قبل کئی عشروں سے “نکاح مسیار” کے نام سے  بھی شادی کا ایک سلسلہ عرب میں جاری ہے،مسیار کا لفظ” سیر” سے نکلا ہے جس کا مطلب “سفر کرنا  ہے ،بظاہر یہ لفظ “میسار” کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہوتی ہے جس کی اصل “یسر” ہے،یعنی”آسانی”،اس نکاح میں مرد عورت  شادی کی اکثر مروجہ رسموں سے آزاد ہو کر ،اور ایک دوسرے کے متعدد حقوق سے دستبردار ہو کر بڑی آسانی کے ساتھ یہ رشتہ قائم کر لیتے ہیں،عام طور پر وہ لڑکیاں اس طرح کی شادی پر آمادہ ہوتی ہیں جن کی شادی کی عمر ڈھلنا شروع ہو جائے اور اس وقت تک  مسیار کے نام سے قائم کیے گئے رشتے کو باقی رکھتی ہیں جب تک باقاعدہ شادی کا پیغام نہ آجائے۔

اس شادی کا شرعا ً کیا  حکم ہے؟ اس بارے میں عرب علماء کی تین آراء ہیں ،ایک مطلق جواز کی،دوسری مطلق حرمت کی اور تیسری  جواز مع الکراہہ(مکروہ) کی،معروف عرب سکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی  اور شیخ عبدالعزیز بن باز کی بھی یہی رائے ہے،پاکستانی علماء میں سے مفتی تقی عثمانی صاحب    کا رجحان بھی تیسری رائے یعنی کراہت کی طرف معلوم ہوتا ہے، حال ہی میں مفتی عبدالقوی صاحب نے بھی اپنے ایک ویڈیو بیان میں صراحتاً اسے جائز قرار دیا ہے ،چونکہ  کئی عشروں سے  عرب ممالک میں رائج یہ مسئلہ  اب پاکستان میں بھی پہنچ گیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کے حق اور مخالفت میں بحث بھی جاری ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ  مفتی اعظم پاکستان مفتی  تقی صاحب  کی رائے جو کہ ان کی تصنیف “فقہی مقالات” میں  مذکور ہے  کا  متن  یہاں  نقل کر دیا جائے۔

  “کچھ عرصہ کے لیے نکاح کرنا

سوال: جومسلمان طلباء وطالبات حصول تعلیم کے لیے مغربی ممالک میں آتے ہیں،وہ یہاں آکر شادی کر لیتے ہیں اور شادی کرتے وقت یہ نیت ہوتی ہے کہ جب تک ہمیں یہاں تعلیم حاصل کرنی ہے بس اس وقت تک نکاح کو برقرار رکھیں گے اور پھر جب حصول تعلیم کے بعد اپنے ملک اور اپنے وطن واپس جائیں گے تو اس نکاح کو ختم کر دیں گے ،اور مستقل یہاں رہنے  کی کوئی نیت نہیں ہوتی،البتہ یہ نکاح بھی عام نکاح کے طریقہ پراور انہیں الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ایسے نکاح کا شرعا ً کیا حکم ہے؟

الجواب : اگر انعقاد نکاح کی تمام شرائط موجود ہوں،اور عقد نکاح میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو جس سے وہ نکاح موقت(عارضی) سمجھا جائے،اس صورت میں وہ نکاح منعقد ہو جائے گا اور اس نکاح کے بعد تمتع جائز ہے اور نکاح کرنے والے مرد یا عورت کا یہ نیت کرنا کہ تعلیم کی مدت کے بعد ہم اس نکاح کو ختم کر دیں گے اس نیت سے نکاح کی صحت پر کوئی اثرواقع نہیں ہو گا، البتہ شریعت کے نزدیک  چونکہ ایک دائمی عقد ہے اس لیے زوجین سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ  اس عقد کو ہمیشہ باقی رکھیں اور شدید ضرورت کے علاوہ  کبھی اس کو ختم نہ کریں اور عقد کرتے وقت ہی زوجین کا جدائی اور فرقت کی نیت کرنا نکاح کے اس مقصد کے خلاف ہے،اس لیے ایسی نیت رکھنا  دیانۃ کراہت سے خالی نہیں،واللہ اعلم۔”

نئے ایڈیشن میں مفتی صاحب نے جو اضافہ کیا طوالت کی وجہ سے اس میں سے صرف موضوع سے متعلق حصہ  پیش کیا جا رہاہے۔

“اس سوال و جواب کے بارے میں بعض حضرات نے متوجہ کیا ہے کہ اس سے متعدد غلط فہمیاں ہو سکتی ہیں لہٰذا اس کی وضاحت ضروری ہے۔

 (نکاح متعہ اور نکاح مؤقت کی وضاحت کے بعد)تیسری صورت یہ ہے کہ مرد وعورت باقاعدہ دو گواہوں کے سامنے   ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کریں اور نکاح میں  اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوتا کہ یہ نکاح مخصوص مدت کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن فریقین میں سے کسی ایک یا دونوں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک مخصوص مدت گذرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ ہم  نکاح ختم کر دیں گے۔ فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق  اس طرح کیا ہوا نکاح درست ہو جاتا ہے اور مرد و عورت باقاعدہ میاں بیوی بن جاتے ہیں اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ دائمی اور ابدی طور پر  قائم ہو جاتا ہے۔اور ان پر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ارادے کے مطابق معین مدت پر طلاق ضرور دیں، بلکہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے طلاق کا اقدام نہ کریں۔اور چونکہ شریعت میں نکاح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ان کا یہ دلی ارادہ کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دے دیں گے شرعاً  ایک مکروہ ارادہ ہے لہٰذااس ارادے کے ساتھ نکاح کرنا بھی مکروہ ہے۔

مذکورہ صورت میں نکاح کے صحت کی تصریح تمام فقہاء حنفیہ نے فرمائی ہے۔”

اب آتے ہیں  عرب بہار کے دوران رائج ہونے والی نکاح کی جدید قسم “نکاح سترہ” اور اس کی قباحتوں کی طرف،

“سترہ” کے معنی ڈھال، پناہ اور تحفظ کے ہیں، اور  اس کا اطلاق  شامی مہاجرین عورتوں اور بچیوں کو تحفظ اور پناہ فراہم کرنے کے نام سے کی جانے والی شادی پر ہوتا ہے۔

شام اور شامی باشندے اس وقت جس کرب سے گذر رہے ہیں اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے،ایک طرف شام میں رہ جانے والوں کو  آگ اور بارود  کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف امن و سکون  کی تلاش میں اپنے برادر ملکوں کی طرف پناہ کی غرض سے ہجرت کر کے جانے والے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں،ان کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی ٹھکانہ ہے نہ ہی بھوک و پیاس مٹانے کے لیے آب و دانہ،ان کے چہروں پر چھائی ہوئی تھکاوٹ اور آنکھوں سے بہنے والے آنسو  وہ کچھ بیان کر رہے ہیں جن کو الفاظ  بیان کرنے سے عاجز ہیں،معاشی تنگدستی نے  شامی مہاجرین کو عجب کرب میں مبتلا کیا ہوا ہے اور اس پر دوآتشہ یہ کہ ہوس کے بچاری ان کی اس ابتر حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ماؤں ،بہنوں اور بچیوں سے  شادیاں رچا رہے ہیں،ستم بالائے ستم یہ ہے  کہ بجائے اپنے اس کیے پر  خفت  اورشرمندگی کے   مروت و شرافت سے عاری اس عمل کو مہاجرین کی پناہ و امداد کا نام دے رہے ہیں۔بھوک اور تنگدستی کا ستایا ہوا  اور جنسی درندوں سے سہما ہوا باپ  کس دل سے اپنی بیٹی کی آبرو کو متعدد و مختلف درندوں  کی ہوس کی بھینٹ چڑھنے کی بجائے نکاح سترہ کے نام پر دو سو ڈالر کے عوض ایک ہی ہوس کے پجاری کے سپرد کر دینے میں عافیت سمجھتا ہے یہ  وہی  سمجھ سکتے ہیں جن کے سینے میں دل ہے۔

اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق نکاح سترہ کی بھینٹ چڑھنے  والوں میں اکثریت میٹرک اور ایف اے کی نوعمر طالبات کی ہے۔لبنان،ترکی،سعودیہ،اردن  و مصر میں  یہ نکاح اتنی کثرت سے رواج پا چکا ہے کہ مصر میں شامی مہاجرین  کے امور کے شعبہ کو اپنے دفتر کے باہر یہ اعلان لکھ کر لگانا پڑا کہ” شامی خواتین پناہ گزین ہیں نہ کہ لونڈیاں”۔

خود شامی خواتین و طالبات  نے  بھی سوشل میڈیا پر  اسی عنوان سے مہم چلا رکھی ہے کہ “ہم لونڈیاں نہیں،پناہ گزین ہیں”۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سے ہمدردی کے نام پر شادی کے خواہشمند ہمارے  شامی مردوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟یہ شادی ہمارے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ جسموں کی تجارت  ہے،آپ  سوڈانی اور صومالی خواتین  سے نکاح ستر کیوں نہیں کرتے؟  اگر آپ کو ہمارا اتنا ہی احساس ہے توہمیں  ہمارے والدین کے ساتھ  رہتے ہوئے   تعلیم حاصل کرنے اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ شامی خواتین کی آبروریزی کے واقعات بھی کثرت سے پیش آرہے ہیں،اردن میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے  منظور ہونے والے قانون سے بھی ان  واقعات میں اضافہ ہی ہوا ہے،قانون میں یہ طے کیا گیا ہے کہ جونوجوان  جس لڑکی سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا اسی سے اس کی شادی کروا دی جائے گی،جس کی وجہ سے شامی حسن پر فریفتہ نوجوان جان بوجھ کر اس قانون کو پامال کر رہے ہیں ،قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خواتین کا کہنا تھا کہ اس قانون کی وجہ سے ہمیں دہرے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے کہ ایک دفعہ زبردستی کرنے والے کے لیے  ہماری زندگی ہمیشہ کے لیے جہنم بنا دی جاتی ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی  ان کے اہل خانہ کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی  پندرہ ،سولہ سالہ بچیوں کے لیے نکاح سترہ کو قبول کر لیں،ایک 14 سالہ بچی کے والد حسن نے روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ حالات  نے مجھے اس اقدام پر مجبور کیا،اگر ہم شام میں ہوتے تو میں اتنی کم عمری میں کبھی بھی اپنی بیٹی کی شادی نہ کرتا۔

 شامی خواتین اس وقت درندوں کے نرغے میں ہیں، سرحد کے اندر اگر خونخوار درندےہیں تو سرحد  پار جنسی درندے۔

اللہ  شامی پناہ گزینوں کو  “ستر” کے نام پر پناہ  دینے والوں سے  اپنی پناہ میں رکھے۔

Source:

http://tajziat.com/view.php?id=93

Comments

comments