تھر میں قحط کی خبر: پاکستان میں میڈیا کے ساتھ ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا فراڈ – عثمان غازی

 683014-Tharmove-1394825560-110-640x480

تھر میں قحط کی خبر پاکستان میں میڈیا کے ساتھ اب تک ہونے والا شاید اب تک کا سب سے بڑا فراڈ ہے-قحط اس کیفیت کا نام ہے، جس میں خشک سالی یا خانہ جنگی کی وجہ سے غذائی قلت پیدا ہوجائے اور کراچی سے ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع تھر میں یہ صورت حال تیکنکی طور پر ممکن نہیں، غذائی ترسیل بہت آسان ہے جبکہ آراوز پلانٹ نے پانی کی کمی کا مسئلہ تقریباً حل کردیا ہے، شاہراہوں کی تعمیر سے نقل وحمل کی بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے

 
تھر میں ہر 10برس کے دوران تقریباً تین برسوں کے لیے خشک سالی آتی ہے، بلاشبہ اس قدرتی خشک سالی کی وجہ سے مسائل بھی ہیں مگر یہ قحط نہیں ہے, اس خشک سالی کوقحط سے تعبیر کرنے میں کس کا فائدہ ہے؟ کرپٹ بیوروکریسی مقامی صحافیوں سے مل کر تھر میں قحط کی جعلی خبریں چلاتی ہے، ان خبروں سے حکومت اور این جی اوز بلیک میل ہوتی ہیں، تھر میں امدادپہنچتی ہے اور یہ سب بندربانٹ کی نذرہوجاتی ہے

 
پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا مقامی صحافیوں پر بھروسہ کرتا ہے، تھر کے بارے میں مسلسل منفی کوریج نے شہروں سے جانے والے صحافیوں کو بھی اس حدتک خراب کردیا ہے کہ وہ دوسرے کسی زاویئے سے سوچنے کو تیار نہیں ہیں شنید ہے کہ اس سارے عمل میں انگلیوں پر گنے جانےوالے مخصوص افراد کا فائدہ ہورہا ہے، تھر کی منفی خبریں دینے والے دوطرح کے مقامی صحافی ہیں پہلے وہ جن کو براہ راست فائدہ ملتا ہے اور دوسرے وہ جو مین اسٹریم میڈیا میں بریکنگ نیوز کا ڈبہ چل جانے کی خواہش میں ان خبروں کو بغیر کسی تصدیق کے فائل کرتے ہیں، بظاہر یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے

 
تھر میں ایسا عجیب وغریب قحط ہے کہ جس میں سوائے نومولود وں کے کوئی نہیں مرتا، انسان اور جانور سب محفوظ ہیں، مرنے والے بچوں کا کوئی ریکارڈ نہیں، آئی سی یو کی ایک مخصوص فوٹیج کے ذریعے بچوں کی موت ظاہر کی جاتی ہے جبکہ مرنے والے بچوں کے والدین کے تاثرات لینے کی کبھی کسی نے زحمت نہیں کی، تھر میں موروں کی ہلاکت بھی ایک مخصوص بیماری سے ہوئی، جسے قحط کا نام دیدیا گیا، یہ طرز عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔۔ اس سارے تناظر میں یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ صحرا ہے، یہاں شہروں جیسی سہولیات ہونا فطری طور پر ناممکن ہے  صحرامیں قحط ہو یا نہ ہو، شہروں میں خیال اور سوال کا قحط ضرورہے، تھر کے معاملے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے

 

نوٹ: تھر کے سارے صحافی کرپٹ نہیں ہیں، جو صحافی دوست میرے مؤقف کو درست نہیں سمجھتے, بجائے یہ کہ مجھ پر کسی قسم کی الزام تراشی کریں, ہم مل کر تھر میں قحط کو تلاش کرلیتے ہیں, غیرجانبدار آبزرور بھی ساتھ لے آئیں گے, مقامی صحافی اپنی مرضی سے “قحط زدہ” علاقوں کا وزٹ کرائیں, اگر قحط ثابت ہوگیا تو میں معافی مانگ لوں گا

Comments

comments