دوسروں کو اپنی تحقیق پیش کرنے کا حق دیجیے – امجد عباس
مختلف تاریخی، فقہی اور عقائدی و کلامی مسائل میں اہلِ علم کا اختلاف موجود ہے۔ کئی مسائل میں یہ اختلاف کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے، یہ کوئی نئی یا اچنبے کی بات نہیں ہے۔ ایسا اختلاف صحابہ کرام کے دور میں بھی موجود تھا، بلکہ عہدِ رسالت میں بھی صحابہ کرام کی آراء مختلف ہو جاتی تھیں، دونوں طرف جلیل القدر صحابہ کرام ہوتے، اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِس اختلاف کو ختم فرما دیتے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد یہ اختلافات بڑھنے لگے، اِن اختلافات کی بنا پر کسی صاحبِ علم نے دوسرے صاحبِ علم کی تذلیل و توہین نہ کی، یہ رویہ خالص مسلکی علماء کا ہے، جن کا کام ہی ہر حال میں ہار نہ ماننا ہے۔
میں چند ایک مثالیں ذکر کرتا ہوں، بعد از وفاتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسئلہِ خلافت پیش آیا، اِس میں صحابہ کرام دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے، دونوں اپنے اپنے دلائل دیتے، لیکن کسی فریق نے دوسرے کی ملامت و تفسیق و تکفیر نہ کی، حضرت ابوبکر کے عہد میں کئی ایک مسائل پر اختلاف پیش آیا، صحابہ کرام سے آراء لی گئیں، ایک قول اختیار کیا گیا لیکن مخالفین کی توہین نہ کی گئی، یہی صورتحال حضرت عمر کے عہد مین تھی، وہ اختلاف کی صورت میں سبھی صحابہ کرام سے آراء لیتے، لیکن کوئی ایک رائے اختیار کر لیتے، لیکن دوسرے فریق کی توہین و تفسیق اور تکفیر سے اجتباب برتا۔
حضرت علیؑ نے بھی اپنے دور میں مکمل مذہبی و فکری آزادی دیئے رکھی، خوارج کے خلاف بھی صرف اُن کے قتال کی وجہ سے جنگ کی۔
اختلافی مسائل میں فریقین کے پاس دلائل ہوا کرتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ایک فریق کی دلیل دوسرے کے نزدیک حجت نہیں ہوتی، ابھی حالیہ دنوں حضرت علیؑ کے مولودِ کعبہ ہونے کی بحث گرم ہے۔ دونوں طرف دلیلیں ہیں، کچھ علماء نے حضرت علیؑ کے مولودِ کعبہ ہونے کو تاریخی طور پر متواتر لکھا ہے، کئی ایک نے پُرزور تردید کی ہے، کچھ نے حضرت حکیم بن حزام کو مولودِ کعبہ قرار دیا ہے، میری نظر میں تینوں گروہوں کے علماء نے اپنے اپنے دلائل کی روشنی میں نظریات بنائے ہیں، ہمیں کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا نا ہی کسی کو اِس بنا پر “دشمنِ علیؑ” قرار دینے کی ضرورت ہے۔
یہ اختلافی مسئلہ ہے، ایک صاحبِ علم کسی قول کو اپنے علم و اُسلوب کی روشنی میں اپناتا ہے تو اُس کی رائے کو آپ تسلیم نہ کیجیے احترام ضرور کیجیے۔ ہمیں اِن مسائل میں کلی تردید کے رویے سے اجتناب کرنا ہے، ہمارے فقہی و عقائدی اختلافی امور میں بھی دونوں طرف صاحبانِ علم، دلائل کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، ایسے میں آپ کو حق حاصل ہے کہ کسی ایک نظریے کو اختیار کیجیے، کسی ایک قول کو اپنائیے، لیکن مخالفین کو سب و شتم کا نشانہ نہ بنائیے، اُن کی توہین و تذلیل نہ کیجیے، اُن کے اُسلوب کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، علماء و اہلِ علم کا اُسلوب مختلف ہوا کرتا ہے، کچھ حضرات ہر روایت کو قبلِ قبول جانتے ہیں تو کچھ صرف صحیح السند روایات کو، کچھ صرف قرآن مجید کو حتمی دلیل جانتے ہیں تو کچھ عقلی دلائل سے بھی استفادہ کرتے ہیں، سب سے اہم بات محقق یا عالم کا ذاتی رجحان بھی ہے، یہ بھی کافی حد تک اُس کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے۔
جو معاملات قرآن مجید میں تفصیل سے بیان نہیں ہوئے، اُن میں صاحبانِ علم کو اپنے دلائل اور اُسلوب کی بنا پر اختلاف کا حق دیجیے، کسی کی نیت پر شک درست عمل نہیں ہے۔
اُن کے اختلاف کی وجہ سمجھیے، اختلافی امور کی بنا پر کسی کو فاسق و کافر قرار دینا انتہائی بڑی جسارت ہے، ہاں آپ اُنھیں غلط جانیے، اُن کی رائے کو مت مانیے، کُھل کر اختلاف کیجیے، کہیے کہ میرے نزدیک اِن کے دلائل کی کوئی وقعت نہیں ہے،اُن کی غلطی کی نشاندہی کیجیے، یہ آپ کا بھی حق ہے،اِس پر صاحبانِ علم کو بھی حوصلے سے کام لینا ہوگا، لیکن تفسیق و تکفیر آپ کا ہرگز حق نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کفر و اسلام، جنت و دوزخ کا فیصلہ اُس نے کرنا ہے، اُس کا کام