ننھے بچے کو بنارس والا پان کھلانا پڑے گا – عدنان خان کاکڑ

adnan-khan-kakar-mukalima-3

طویل عرصہ گزرا کہ گوروں کے ایک کالج میں پڑھنا پڑا۔ مہارت تو آئی ٹی میں حاصل کرنی تھی، لیکن وہ گورے تو ہمیں ہرفن مولا بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ سو ہمیں فن تحریر کے رموز سے بھی آگاہ کرنے لگے، منشیانہ کھاتہ گیری، یعنی اکاؤنٹنگ میں بھی طاق کر دیا، اکنامکس کے بارے میں بھی حکم لگایا کہ کچھ پڑھ لو۔ ایک اچھے طالب علم کی طرح بیشتر اسباق ہم امتحان دیتے ہی بھول گئے لیکن دو تین مضامین ایسے تھے جو واقعی زندگی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوئے۔

ایک تو تھا ’مسیحی مذہبیات کی تاریخ‘، جو کہ ہم نے خود شوق سے لیا تھا کہ جانیں تو سہی کہ یورپ میں یہ سب کچھ کیا ہوتا رہا ہے۔ اس میں مسیحیت کی ابتدائی صدیوں میں مذہبی اختلافات، ان پر مار کٹائی، ایک دوسرے کی تکفیر اور اپنی تفہیم کو ہی الہامی منشا سمجھنے پر اصرار، بادشاہوں کی طرف سے اپنے اقتدار کی خاطر مذہب کے استعمال، اور کئی درجن انجیلوں میں سے چار کے متعلق الہامی قرار دیے جانے کے انسانی فیصلوں وغیرہ کے بارے میں آگاہی ہوئی اور مختلف علما کے دلائل اور نظریات کے علاوہ ان کے مخالفین سے روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں بھی علم ہوا۔

دوسرے دو مضامین جو دلچسپی کا باعث بنے، وہ سوشیالوجی اور سائیکالوجی کے کالج لیول کے تعارفی مضامین تھے۔ پتہ نہیں کتنا عرصہ گزر گیا ہے، لیکن نفسیات کا ایک سبق ابھی تک یاد ہے جو کہ بچے کی ابتدائی ذہنی نشوونما کے بارے میں تھا۔ ہمیں پیاژے نامی نفسیات دان کی بچپنیں کی تھیوریوں میں کافی دلچسپی تھی۔ گو کہ ان میں اب کافی اصلاح ہو چکی ہے لیکن پھر بھی بنیاد اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اور نسیم حجازی کی کتب تھامے دنیا بھر کو اپنے ظلماتی گھوڑے سے فتح کر دینے کی متمنی دگلے والی جوشیلی پلٹن کو دیکھ دیکھ کر ہمیں یہ تھیوری یاد آتی رہتی ہے۔

پیاژے نے بچوں کی ذہنی نشو و نما کے بارے میں مختلف ادوار کا ذکر کیا ہے۔ ہماری دلچسپی اس دور میں ہے جو کہ دو سے سات سال کی عمر کا ہوتا ہے۔

اس دور میں بچہ منطقی انداز میں سوچنے سے قاصر ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ خیالات کو مجتمع یا الگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ اس عمر میں بچے کی ذہنی صلاحیت کے بعض اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

بچہ کسی بھی معاملے کا ایک وقت میں صرف ایک پہلو دیکھ سکتا ہے اور ایک سے زیادہ پہلووں کے بارے میں بیک وقت سوچنے میں وہ دقت محسوس کرتا ہے۔ اس سٹیج کے شروع میں بچہ دوسرے بچوں سے مل کر نہیں کھیل سکتا ہے۔ وہ کمرے میں موجود دوسرے بچوں سے بے نیاز ہو کر تنہا اپنے کھیل میں مگن رہتا ہے۔ بچہ تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔ وہ خود کو تصور میں وہ دیکھتا ہے جو کہ وہ حقیقت میں نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً وہ سپر مین، بیٹ مین، فوجی، ڈاکٹر وغیرہ کچھ بھی بن کر اپنی تصوراتی دنیا میں کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس دنیا میں وہ دوسروں کے خیالی کردار بھی تراش لیتا ہے جن سے اس کا سپر مین دوستی یا دنگا فساد وغیرہ کرتا ہے۔

لیکن میری نظر میں بچپنے کی اس سٹیج کا اہم ترین پہلو بچے کی خود بینی کی عادت ہوتی ہے۔ بچہ صرف اپنے نقطہ نظر سے ہی ہر چیز کے بارے میں سوچتا ہے اور وہ کسی دوسرے شخص کے نقطہ نظر سے معاملات کو دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ پیاژے کے مطابق، خود بینی کی ہی صلاحیت رکھنے والا یہ بچہ یہ تصور کر لیتا ہے کہ دوسرے افراد بھی اسی کے انداز میں چیزوں کو دیکھ اور سن اور محسوس کر رہے ہیں۔

پیاژے یہ نتائج نکالتا ہے کہ بچہ چیزوں کو محدود اور سطحی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر ایک ہی مقدار میں پانی ایک چوڑے اور لمبے گلاس میں ڈالا جائے تو اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ لمبے گلاس میں زیادہ پانی ہے۔ اسی طرح اس کی پلے ڈو کو اگر پتلا اور لمبا کر دیا جائے تو اس کے خیال میں اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ بچہ صرف ایک پہلو کو ہی دیکھتا ہے اور بقیہ خصوصیات کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ بچہ یہ سوچنے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ خصوصیت تبدیل کی جا سکتی ہے اور چوڑے گلاس والا پانی لمبے گلاس میں ڈال کر ‘زیادہ’ کیا جا سکتا ہے۔ یہی مثال باقی امور پر بھی صادق آتی ہے۔

اب بچپنے کی اس خود بینی کی محدودیت کو سمجھ کر ہم بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

اسی چھوٹے بچے کی مانند ہمارے پرجوش افراد دنیا کو صرف اپنے نقطہ نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے کے نقطہ نظر سے دنیا کو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو یہ صدمہ رہتا ہے کہ ان کے ساتھ شدید نا انصافی ہو رہی ہے، جبکہ یہی نا انصافی وہ دوسرے کے ساتھ کرتے ہوئے خود کو حق بجانب تصور کرتے ہیں۔ یہ افراد وہ ننھے بچے ہیں جو کہ کسی پڑوسی کی نئی نکور گاڑی پر اپنے کھرپے سے خوب خراشیں ڈال کر اس بات پر رونے لگ جاتے ہیں کہ ان کے کھرپے کی دھار خراب ہو گئی ہے۔

برما میں روہنگیا کے معاملے میں ہم نہایت غمگین ہیں کہ وہاں اکثریتی بدھ مت والے روہنگیا مسلمانوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں اور انہیں مار بھی رہے ہیں۔ لیکن ہمیں گوجرہ کا قتل عام یاد نہیں رہتا ہے۔ نہ ہی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یکم جنوری 1947 کو موجودہ پاکستانی علاقوں میں غیر مسلم اقلیتوں کا تناسب کیا تھا اور آج کیا رہ گیا ہے اور کس شرح سے کم ہو رہا ہے۔ بھلا کون اپنی خوشی سے اپنی پرکھوں کی سرزمین چھوڑتا ہے؟ دوسرے ملک میں آدمی دوسرے درجے کا شہری ہی بن کر رہتا ہے۔ لیکن ہماری یکطرفہ سوچ برما کو تو دیکھتی ہے لیکن اپنے وطن کو دیکھنے سے انکاری ہے۔

افغانستان میں امریکی حملے کے معاملے میں ہم یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ پہلے نائن الیون کی دہشت گردی ہوئی تھی اور اس کے جواب میں افغانستان پر امریکی حملہ ہوا تھا۔ ہمیں یہی یقین ہے کہ افغان آرام سے بیٹھے القائدہ والوں کو چائے پانی پلا رہے تھے کہ امریکیوں نے بلاوجہ حملہ کر دیا۔ عراق پر حملے کے بارے میں تو یہ دلیل دی جا سکتی ہے، مگر افغانستان؟ عراق سے تو امریکیوں کو تیل چاہیے تھا، مگر افغانستان سے وہ کیا لے کر جا رہے ہیں سوائے اپنی لاشوں اور ہزیمت کے؟

فرانس کے نقاب پر پابندی کے خلاف ہم شمشیر برہنہ ہیں۔ ہمارے خیال میں وہ حجاب پر پابندی ہے۔ ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ باہر سڑک پر صرف نقاب پر پابندی ہے، حجاب پر نہیں۔ حجاب، یہودیوں کی ٹوپی، سکھوں کی پگڑی، مسیحی ننوں کا حجاب، یا صلیب وغیرہ سب اسی قانون کی زد میں آتے ہیں جو کہ پبلک ریاستی مقامات (سکول، کالج، پارلیمان وغیرہ) پر سب مذاہب کی مذہبی علامات پر یکساں پابندی لگاتا ہے۔ ہمیں بس یہ یقین ہے کہ یہ پابندی فرانس کے ہر عوامی و نجی مقام پر صرف مسلم حجاب پر ہے اور مسلمان ہی اس کا نشانہ ہیں اور فرانس کے قوانین کے مطابق لگائی گئی اس ریاستی پابندی کو ہم ظلم قرار دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سعودی عرب اور ایران وغیرہ میں ہر مسلم و غیر مسلم خاتون پر یہ پابندی ہے کہ وہ لازمی حجاب لیں اور اس مقصد کے لیے خاص پولیس فورس بنائی گئی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی اس ریاستی پابندی کو ہم درست سمجھتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہر مسلم و غیر مسلم ملک کو ہمارے ہی احساسات اور قوانین پر چلنا چاہیے اور ان کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے لیے خود سے اپنے مذہبی یا سیاسی نظریے کے تحت قوانین بنا لیں۔

مذہبی معاملات میں ہمارا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے والے مولوی صاحب نے اسلام کی جو تشریح کی ہے، وہی اسلام کی واحد اور حتمی تشریح ہے جس کی حیثیت الہامی ہے۔ جبکہ دوسرے مسلک کے مولوی صاحب کی تفہیم لازماً غلط ہے۔ ہم خود کو ہی پکا مسلمان سمجھتے ہیں اور باقی سب کفار ہیں، یا کم از کم زندیق تو ہیں ہی۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں ہمیں یہ یقین تھا کہ وہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اب تو برسوں بیتے مگر ڈرون حملے نہیں ہوئے ہیں مگر دہشت گردی موجود ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ڈرون کی بجائے دہشت گردی کا باعث ہماری عدم برداشت اور اپنے موقف کو الہامی موقف قرار دینا ہو؟

سیاسیات میں بھی ہمارا یہی حال ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا تشریح کردہ اسلامی سیاسی نظام ہی درست ہے، جبکہ سیکولرازم وغیرہ کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے اور وہ دین سے انکار ہے۔ جبکہ ہم اسی سانس میں ترکی کے رجب طیب ایردوان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں جس نے مصر میں اخوان کی حکومت کے قائم ہوتے ہی عوامی خطاب میں اخوان کو مشورہ دیا تھا کہ سیکولرازم پر مبنی دستور بنایا جائے۔ یہی سیکولرازم ہمیں بھارت وغیرہ کے مسلمان علما کی جانب سے بھی درست نظر آتا ہے اور ان دونوں معاملات میں سیکولرازم کی اسلام میں گنجائش پیدا کر لی جاتی ہے۔ اگر یہ عقیدے کا معاملہ ہے تو کیا ملک تبدیل ہونے سے بھی اسلام کے بنیادی عقیدے تبدیل ہو جاتے ہیں؟

لیڈر بھِی صرف ہمارے والا ہی درست ہوتا ہے، اور دوسرے سارے لیڈر احمق، اخلاق باختہ، کرپٹ، بکے ہوئے، اور دشمنوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں جن کو صرف احمق ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا لیڈر تو ایسا ہوتا ہے کہ ارسطو اس سے عقل سیکھ سکتا ہے، اور کردار کا ایسا ہوتا ہے کہ دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں اور صرف اسی کے ووٹر نہایت دانشمند اور معاملہ فہم ہوتے ہیں۔

برما، اسرائیل، امریکہ، ایران، سعودی عرب وغیرہ میں جہاں بھی ہمیں ظلم ہوتا دکھائی دیتا ہے، ہم جذباتی ہو کر اپنے ملک میں جلاؤ گھیراؤ شروع کر دیتے ہیں اور اپنی املاک کو ہی تباہ کر کے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہم نے ان ظالموں کو خوب سبق سکھا دیا ہے۔ یہ ویسا ہی رویہ ہے جیسا کہ ایک ضدی بچہ فرش پر لیٹ کر خوب روتا پیٹتا ہے اور اپنا منہ سر نوچتا ہے اور صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جیسی اذیت اسے محسوس ہو رہی ہے، باقی دنیا بھی اسی شدید اذیت میں مبتلا ہو چکی ہے۔

بہرحال، ہم یا تو اپنے بچوں کو سکول کے لیول سے ہی مختلف نقطہ نظر سے سوچنے کی تعلیم دیں اور اختلاف کو سراہنا سکھائیں، یا پھر بس ایسے ہی چار پانچ سالہ خود بین بچے بنے ساری دنیا کو خود پر ظلم کرتے محسوس کرتے رہیں اور بڑے ہونے سے انکاری ہو کر خود اذیتی میں مبتلا رہیں۔ ہم یہ سوچنے کے لے تیار ہی نہیں ہیں کہ دوسروں کو کچھ دے اور ان سے کچھ لے کر ہی معاملات چلائے جاتے ہیں۔

یہ بند عقل کا جمود یا تو تعلیم سے کھلے گا، یا پھر ہماری قوم کو امیتابھ بچن سے وہ بنارس والا پان منگوانا پڑے گا جس سے بند عقل کا تالا کھلتا ہے۔ جب تک یہ تعلیم یا پان دستیاب نہیں ہوتے ہیں، ہمیں دگلے والی پلٹن کی خود کو ہی نقصان پہنچانے والی یلغار ہی دیکھنی ہو گی۔ یہ ننھے بچے فرش پر لیٹے روتے پیٹتے رہیں گے اور اپنا منہ سر نوچ نوچ کر یہ سمجھیں گے کہ جیسی اذیت انہیں پہنچ رہی ہے، باقی دنیا بھی ویسی ہی شدید اذیت میں مبتلا ہے۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/13029/adnan-khan-kakar-87/

Comments

comments