لیکن یہ سب تو ہونا ہی ہے – امجد عبّاس
جب سبھی مسلمان مسالک، مذہبی جماعتیں، گروہ خود کو ہی اہلِ حق اور دوسرے کو کافر/مرتد/مشرک یا مبتدع، ضال و مضل، گم راہ اور فاسق قرار دیں گے، دیگر مسلمان فرقوں، مسالک کے لوگوں کے ساتھ میل جول کو منافیِ حمیتِ دینی جانیں گے، جو نا مانے اُسے بھی کافر/مرتد/مبتدع/فاسق قرار دیں گے تو یہ سب تو ہوگا ہی۔
یہ شادی کارڈ انڈیا کے علاقے گوا کا ہے، اِس پر نوٹ کی صورت میں لکھا ہے کہ اِس شادی میں کسی بھی بد عقیدہ “دیوبندی”، “وہابی”، جماعتِ اسلامی”، “تبلیغی”، “اہلِ حدیث”، “صلحِ کل” اور “شیعہ” وغیرہ کی دعوت نہیں ہے۔ اگر اِن گروہوں کے لوگوں کو کارڈ غلطی سے مل بھی جائے تو وہ شرکت نہ کریں اور جسے یہ بات بُری لگے وہ خود بھی شریک نہ ہو۔ (اِنا للہ و اِنا اِلیہ راجعون)
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے پاکستان کی ایک بڑی دینی درس گاہ کی فتاویٰ والی ویب سائٹ دیکھی، جس میں لکھا ہوا تھا کہ مخالف فرقوں کے لوگوں کے ساتھ میل جول، اٹھنا، بیٹھنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی آدمی مخالف فرقوں کے لوگوں سے میل جول محبت کی بنا پر کرتا ہے تو یہ “کفر/خروج” از دین ہے ورنہ فسق ضرور ہے۔
ایسے بے شمار فتاویٰ تاحال صادر ہو رہے ہیں کہ اگر اُنھیں منظرِ عام پر لایا جائے تو انسان مذہب سے ہی متنفر ہو جائے۔
اِس شادی والے گھرانے نے ایسے ہی ایک فتویٰ کو یہاں درج کر دیا ہے، اِس صاحب نے وہ بات کارڈ پر لکھ دی ہے جو ابھی تک زینتِ کتبِ فتاویٰ تھی۔ یہ مسلمان ہرگز لائقِ ملامت نہیں، اس نے تو اپنی “دینی حمیت” کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ اِس کی ساری ذمہ داری ایسے مراکزِ فتاویٰ پر ہے جو ابھی تک سماجی مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ) کی عہدِ جاہلیت کی مشرکانہ پالیسی کا احیاء کیے ہوئے ہیں۔
جہاں تک میرے علم میں ہے مقابل کی بات نہ سننا، اُس کا سماجی بائیکاٹ کرنا، اِس کی محافل میں نہ جانا یہ اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں، یہ تو عہدِ جاہلیت کے مشرکین کا وطیرہ تھا۔
میں اپنی معلومات کی حد تک ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اِسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں پایا جاتا۔
جب تک مفتیان کرام اسلامی احکامات کی رُوح کو نہیں سمجھتے، فرقہ واریت کا شکار رہتے ہیں، مقاصدِ شریعت سے غافل رہتے ہیں، تب تک جنگ ہنسائی کا سامان برآمد ہوتا رہے گا۔
(نوٹ: یہ کارڈ سیدی حضرت بدر کاظمی دیوبندی کی والِ مبارک سے اخذ کیا ہے، جزاہ اللہ)