امام باقر : یہ سند پڑھوں مجنون پہ تو جنوں اس کا اتر جائے – عامرحسینی

Imam_al_Baqir_by_rizviGrafiks

آج امام محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کا یوم ولادت ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ اس حوالے سے اپنے جذبات و خیالات میں کیسے شئیر کروں ، چاہتا تھا کہ ان کے حوالے سے جو پڑھ رکھا ہے اور جو سن رکھا ہے اسے ایسے حلقے میں شئیر کروں جس حلقے میں کہی گئی بات کی قدر ہو ، الفاظ کی حرمت اور تقدیس کو پیش نظر بھی رکھا جائے ،

میں خود کو مکتب علی کے ایک طالب علم کے طور پر دیکھتا ہوں اور جب کبھی تحریک کے اس پانچویں امام کی جانب نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ مری علی شناسی میں امام باقر کی بقرۃ العلم و اشقاق علم کا بڑا کردار بنتا ہے ، میں اپنی یادداشت کے ذحیرے میں نظر دوڑانے لگا تو فلیش بیک میں ایک کتاب خانے کا منظر ابھرا جہاں پہ سیدہ ہما علی زیدی تشریف فرما تھیں ، رجب کا چاند نظر آگیا تھا اور مجھے نارتھ ناظم آباد کے ایف بلاک سے بلایا گیا تھا ، کتب خانے میں مغربی سمت ایک بڑا جھروکہ تھا جس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے ، میں ایک کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا ، سیدہ ہما علی اٹھی اور مرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لیکر اس جھروکے کے سامنے کھڑی ہوگئیں ، سامنے دور مغربی افق پہ ہلال چمک رہا تھا ، اس کی اور اشارہ کرکے کہنے لگی کہ رجب کا یہ چاند اول باقر العلم کی روشنی کی گواہی دیتا ہے ،

میں نے دیکھا کہ ہما علی کے چہرے پہ یہ سب کہتے ہوئے خود ایک روشنی سی پھیل گئی تھی ، اس کی آنکھوں نے مسکرانا شروع کردیا تھا ، تھوڑی دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد میں اور ہما علی واپس کتب خانے کی نشستوں پہ براجمان ہوگئے اور ہما علی نے اپنے سامنے رکھی کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھائی ، کتاب کا نام اب مجھے مستحضر نہیں ہے لیکن گفتگو یاد ہے کہنے لگی کہ رجب کا چاند نظر آیا تو علم کی میراث پانے والے گھرانے میں بھی ایک چاند چمکا ، مدینہ میں بنو ہاشم کے محلے میں علی بن حسین بن علی اور فاطمہ بنت حسن کے گھر ایک ایسے لڑکے کی ولادت ہوئی جس کے بارے میں ایک دیومالائی کہاوت مدینہ کی گلیوں ،کوچوں میں تواتر سے سنائی جاتی تھی کہ جابر بن عبداللہ کو شہر العلم نے کہا تھا کہ تم نے زندہ رہنا ہے یہاں تک کہ جس کو عابدوں کا چراغ کہا جائے گا اس کے گھر ایک مرا ہم نام جنم لے گا اور وہ باقر العلم ہوگا اسے ملو تو مرا سلام دے دے دینا ، یہ متھ ، یہ اسطور پہلے سے موجود تھی اور کسی نے کیا خوب کہا کہ وہ بحر من الفضائل ہونے والا ہے تو اس پر کسی اور دانا نے کہا کہ کیوں بھول جاتے ہو کہ وہ جو آیا ہے نا شعلۃ من النور ہے ،

اس پر ایک اور شاعر کو وجد آیا تو اس نے کہا کہ ” غصن من شجرۃ النبوۃ ” کا مصداق ہے آنے والا ، کسی نے اسے کوکب کہا تو کسی نے مکارم الاخلاق کا عکاس کہا ، میں تھوڑا سا حیرانی سے یہ سب سن رہا تھا اور سوچ میں پڑا ہوا تھا کہ اس قدر استعاروں سے بھری گفتگو جس شخصیت کے بارے میں کی جارہی ہے کیا وہ اپنے زمانے کی کسی سلطنت یا ریاست کی طاقتور اسٹبلشمنٹ کا آدمی تھا جس کے درباریوں نے اس کے گرد یہ ناموری کا ہالہ بنا ہو ، سیدہ ہما علی جیسے مرے دماغ کو پڑھنے میں لگی ہوئی تھی کہنے لگی

عامی ! نتیجہ کسی اٹکل پچو قیاس سے نکالنے کی کوشش ترک کردو ، زرا یہ دیکھو کہ کونسے زمانے میں یہ محمد بن علی بن حسین امام الباقر سانس لیتا تھا ، چار سال تو اس باقر نے اپنے جد حسین بن علی کے ساتھ گزارے یعنی یزید کی حکمرانی کے انتہائی سخت اور بدترین دن ، 39 سال اپنے والد علی بن حسین کے ساتھ اور 18سال ان کے بعد بطور امام کے گزارے اور اپنی امامت کے دنوں میں اموی بادشاہوں ولید بن عبدالمالک ، سلیمان بن عبدالمالک ، عمر بن عبدالعزیز ، یزید بن عبدالمالک ، ہشام بن عبد المالک کی جابرانہ سخت گیر حکومتوں کا وقت دیکھا اور اس دوران انتہائی صبر ، حلم اور اسقامت کا مظاہرہ کیا

یہ وہ دور تھا جس میں صرف عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کچھ سکون میسر آیا ورنہ باقی ادوار میں انتہائی سخت معاندانہ فضاء تھی اور مساجد کے منابر سے ہر اذان اور خطبے سے پہلے آپ کے خاندان کے بزرگوں کی توھین کرنا لازم تھا اور کئی مرتبہ آپ کو دمشق دربار اموی میں طلب کیا گیا اور آپ سے توھین آمیز سلوک روا رکھا گیا ، مجھے یاد ہے کہ اس موقعہ پہ سیدہ ہما علی زیدی نے ایک عبارت پڑھی

و مما ليس فيه شك أن الأمويين كانوا يضيقون عليه العيش و عانى من ظلمهم منذ أن ولد و حتى استشهد بعد أن دسوا له السم. يستثنى من ذلك عهد عمر ابن عبد العزيزو الذي استمر فترة قصيرة ناهزت السنتين و النصف. و كان يسمع كيف يشتم جده الإمام علي (ع) على المنابر بأمر الأمويين و هو يصبر على مضض و لا يستطيع منع تلك الهمجية الأموية

اور اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اموی حکمرانوں نے ان کی زندگی ان پر تنگ کرکے رکھی ہوئی تھی اور اپنی ولادت کے وقت سے لیکر شہادت تک جب کہ ان کو زھر دیا گیا وہ امویوں کے ظلم کا سامنا کرتے رہے ، اس میں صرف عمر بن عبدالعزيز کے دور کو استثنی حاصل ہے جوکہ ڈھائی سال رہا ، بے شک وہ سنتے تھے کہ کیسے ان کے جد امجد جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم پہ امویوں کے حکم پر منابر مساجد سے شتم کیا جاتا اور وہ صریح زیادتی اور ظلم پہ صبر کرتے اور امویوں کی اس قبیح حرکت کو روکنے کی طاقت ان کے پاس نہ تھی

وہ دمشق گئے تو وہاں جناب علی المرتضی کا لقب ابو تراب کو لیکر امویوں کے حامیوں نے طنزا آپ کو بو تراب کی اولاد کہا تو بھی آپ نے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا اور ایک دندان شکن تقریر کی ، محمد بن علی امام الباقر اپنے زمانے کے حریت فکر سے سرشار اینٹی اسٹبلشمنٹ آزاد مفکر ، دانشور بنکر سامنے آئے تھے اور ان کو اپنے لئے کسی درباری قصیدہ خواں کی ضرورت نہیں پڑی ، مجھے یہآن محمد بن سعد زھری کا قول یاد آرہا ہے جن کی وفات کا زمانہ 230 ہجری بنتا ہے کا قول یاد آیا کہ انہوں نے لکھا کہ محمد بن علی الباقر طبقہ ثالثہ تابعین مدینہ میں شامل تھے اور عظیم عابد ، امام تھے ، عربی ادب کے بہت بڑے شناسا اور لکھاری ابوعثمان الجاحظ متوفی 250ھ نے لکھا

قال عن الإمام الباقر (عليه السلام) في «رسائله» عند ذكره الرد عمّا فخرت به بنو أميّة على بني هشم ما نصّه: «… وهو سيد فقهاء الحجاز، ومنه ومن ابنه جعفر تعلّم الناس الفقه، وهو الملقّب بالباقر، باقر العلم، لقّبه به رسول الله (صلى الله عليه وآله) ولم

یعنی جاحظ نے امام باقر کے بارے میں اپنے رسالے میں- جب انھوں نے ان باتوں کا رد کیا جن کا سہارا لیکر بنوامیہ کی بنو ہاشم پر برتری کا فخر جتایا جاتا ہے – زکر کیا تو کہا

وہ فقہائے حجاز کے سردار ہیں ان سے اور ان کے بیٹے جعفر سے لوگوں نے ” فقہ ” سیکھی اور ان کا لقب باقر پڑا باقر العلم یہ لقب ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دیا

میں نے جب سوچا کہ امام باقر پہ اپنے مضمون کو ختم کہاں کروں تو اچانک مرے سامنے امام احمد بن حنبل کا قول آگیا
علّق الإمام أحمد بن حنبل على سندٍ فيه الإمام علي الرضا عن أبيه موسى الكاظم عن أبيه جعفر الصادق عن أبيه محمد الباقر عن أبيه علي زين العابدين عن أبيه الحسين بن علي عن أبيه علي بن أبي طالب عن الرسول الأكرم صلوات الله عليهم أجمعين قائلاً: «لو قرأت هذا الإسناد على مجنون لبرئ من جنته

امام احمد بن حنبل نے ایک سند بیان کی جوکہ اس طرح سے تھی

عن الام علی رضا عن ابیہ موسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمد الباقر عن ابیہ علی زین العابدین عن ابیہ الحسین بن علی ابی طالب عن الرسول الاکرم

اور کہا کہ اگر میں یہ اسناد کسی مجنون ہوئے شخص پہ پڑھ دوں تو اس کو اپنے جنون سے مکتی مل جائے گی ، یہ قول پڑھتے ہی مجھے یہ جواب بھی مل گیا کہ جب سماجی عرب دنیا میں بہت ہی غیر متوازن پن تھا اور جنونیت و پاگل پن کی حد تک سچائی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جارہی تھی ایسے میں یہ نام تھے جن کا پڑھنا ہی جنون و پاگل سے چھٹکارے اور نجات کی علامت تھا ، ایسے ہی تو تھے امام الباقر جنھوں نے ظلم کے سامنے صبر اور شدید تنقید کے جواب میں حلم کا مظاہرہ اور علم کی دولت سے مزاحمت کا ایک نیا ماڈل تشکیل دیا

” انا اھل بیت امرنا ان نطعم الطعام و نودی فی الناس البائنة و نصلی اذا نام الناس “


ہم اہل بیت کے زمے یہ فرض لگایا گیا ہے کہ ہم لوگوں کو کهانا کهلائیں یعنی بهوک کا خاتمہ کریں اور ان کی نجات و بخشش کو عام کریں اور جب وہ سوجائیں تو حضور الی اللہ کی حالت اختیار کرلیں مطلب یہ ہوا کہ ایک تو لوگوں کو دنیا کے مصائب سے چهٹکارا دلائیں اور ان کی نجات دینوی و اخروی دونوں کا سامان کریں

مامن شئی احب الی اللہ من عمل یداوم علیہ وان قل


اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس میں دوام ہو چاہے قلیل ترین ہی کیوں نہ ہو

ان اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا


یقین لانے والوں میں کامل یقین اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچها ہو

ان لکل شئی قفلا و قفل الایمان الرفق


ہر شے کی ایک کنجی ہوا کرتی ہے اور اسرار یقین کی کنجی رفق یعنی نرمی ہے

صلة الارحام تحسن الخلق ، و تسمح الکف ، و تطیب النفس ، و تزید فی الرزق و تنسئی الاجل


صلہ رحمی مخلوق کو حسین کرتا ہے اور ہاتهوں کو کشادہ بناتا ہے ، نفس کو پاک کرتا ہے اور رزق میں اضافہ کرتا ہے اور عمر کو طویل کرتا ہے ، اس طول عمری سے مراد پائیدار خوشحال معاشرے کی ضمانت کا میسر آنا بهی ہے


بلکہ صلہ رحمی بارے امام باقر کا ہمیں یہ لطیف قول بهی ملتا ہے


اعجل الخیر ثوابا صلة الرحم


صلہ رحمی کرنے والا ابهی صلہ رحمی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور خیر کی اس تک رسائی و اجر پہلے پہنچنا شروع ہوجاتا ہے
امام باقر نے ایک مرتبہ بہت زبردست بات کی ، آپ نے فرمایا


: ” ثلاث قاصمات الظھر : رجل استکثر عملہ و نسئی ذنوبہ و اعجب براٴ یہ


تین جیسیں ایسی ہیں جو کمر توڑ ہوا کرتی ہیں یعنی کسی بهی شخص کی بربادی کے لیے کافی ہوا کرتی ہیں ایک وہ جو اپنے اعمال کو کثیر خیال کرنے لگے ، دوسرا وہ اپنی خطاوں کو بهول جائے اور تیسرا وہ استبداد رائے کرنے لگے


اور آخر میں اب ایک ایسا قول امام باقر سن لیں جو انتہائے عشق کا غماز تو ہے ہی ساته ساته الم و غم کی انتہا کا عکاس بهی ہے اور درد کے دوا ہوجانے تم مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہوگئی والی کیفیت کو بهی بیان کرنے والا ہے آپ فرماتے ہیں

ان اصحاب جدی الحسین لم یجد وا الم مس الحد ید


مرے جد امجد حسین علیہ السلام کے جو اصحاب تهے کربلاء میں انہوں نے نیزوں کی نوک پر بهی درد و الم محسوس نہیں کیا تها


یہ تهی امام باقر کی فکر اور ان کا وجدان ، آپ نے خوارج کے بارے میں کہآ تها کہ انہوں نے اپنے اوپر بهی زندگی کو مشکل کیا اور دوسروں کے لیے بهی ورنہ اتنی سختی دین میں تهی کہاں

Comments

comments