پیرس سے آگ برسلز جا پہنچی : ” دہشت گرد ” کون ہیں ؟ – علی تاج
القاعدہ ، داعش النصرہ ، بوکو حرام ، الشباب ہو یا لشکر جھنگوی – آل سعود ہو یا سپاہ صحابہ طالبان – یہ تمام ایک ہی نفرت انگیز نظریاتی اساس سے تعلق رکھنے والے مختلف چہرے ہیں جو مختلف ناموں اور مختلف لبادوں کے ساتھ دنیا بھر میں تکفیری دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں –
جدید تاریخ میں تکفیریوں کا پہلا گروہ حجاز کے صحرائی قذاق آل سعود تھے جن کی تکفیری دہشت گردی کی سرکوبی کے لئے عثمانیوں نے محمد علی پاشا نامی جرنیل روانہ کیا تھا – آل سعود مکہ مدینہ کے ساتھ ساتھ عراق میں اسلامی مقدسات اور مزارات پر حملوں میں ملوث تھے اور ہزاروں مسلمانوں کے قاتل بھی تھے –
وہابی تب سے تشدد میں ملوث ہیں جب عثمانیوں کی جانب سے مصر کے حکمران محمد علی پاشا کو عثمانیوں نے یہ ہدایت جاری کی کہ وہ وہابی دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے لشکر روانہ کرے – اس ہدایت کے بعد محمد علی پاشا نے اپنے دو بیٹوں توسن پاشا اور ابراہیم پاشا کی کمان میں دو الگ الگ لشکر روانہ کیے – پاشا کی فوج سے شکست کے بعد آل سعود کو سلطنت برطانیہ کی جانب سے جدہ میں تحفظ دیا گیا – جو پاشا کی فوج کے ہاتھ لگے کچھ کو گرفتار جب کہ باقی کو استنبول روانہ کر دیا جہاں قتل و غارت گری کے جرم میں انھیں سزاے موت سنا دی گیی –
اس عبرت ناک شکست کے باوجود وہابیوں نے کچھ ہی عرصے میں دوبارہ قبائلی جنگجوؤں کی مدد سے طاقت پکڑ لی اور ریاض کو اپنا مرکز بنا کر برطانوی حمایت سے اپنا زیر اثر علاقہ پھیلانا شروع کر دیا –
برطانوی جنہوں نے وہابی تحریک کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا تھا انہوں نے نا صرف ان کی حمایت کی بلکہ انکو مسلح کرنا بھی شروع کر دیا – اپنی درشت اور فتنہ پرور روش کی بنیاد پر وہابیوں نے کچھ ہی عرصے میں حجاز پر قبضہ کرتے ہوے عثمانیوں کی حکومت الٹ دی اور اپنی حکومت قائم کر لی – یہ اپنے زمانے کی پہلی دولت اسلامیہ المعروف داعش تھی –
حجاز ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے مذہبی وابستگی کا مرکز اور مقدس مقام ہے – حجاز پر آل سعود کے قبضے کے خلاف مسلمانوں میں بلا تفریق فرقہ و مسلک شدید مظاہرے ہوے – شیعہ اور سنی دونوں نے حجاز پر وہابی قبضے کی پر زور الفاظ میں مذمت کی –
آل سعود برطانوی حکومت سے تیل کے بدلے مراعات اور حمایت حاصل کرتے رہے اور اسی تیل سے کمائی دولت کو دنیا بھر میں وہابی نظریات کے پرچار کے لئے استعمال کرتے رہے – مسلمانوں میں اپنی تشدد پسند اقلیت کی حثیت دیکھ کر آل سعود نے خود کو سلف الاصالیحین کے کا جانشین کہنا شروع کر دیا – کچھ ہی عرصے میں تیل کی دولت کے بل بوتے پر آل سعود نے بر صغیر میں دیوبندیوں سے گٹھ جوڑ کر لیا –
سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کی زیر سرپرستی آل سعود کی مذہبی اور معاشی حمایت کے نتیجے میں پاکستان میں ہزاروں دیوبندی مدرسے قائم کیے گیے جن کا کام افغان جنگ کے لئے تربیت یافتہ جہادی فراہم کرنا تھا – کانگریس کا ممبر چارلی ولسن اس پورے کھیل کا سرخیل تصور کیا جاتا ہے –
یہی فارمولا مکمل طور پر شام میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے – جہاں پہ فساد میں ملوث تکفیری اب مغربی شہروں پر بھی حملہ آور ہیں – پہلے پیرس اور اب برسلز انہی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے –
چارلی ولسن جن کو مجاہدین کہتے تھے آج انہی کے نظریاتی وارث مغربی ممالک پر حملہ آور ہیں اور بے گناہوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں -پیرس حملوں کی ساری منصوبہ بندی برسلز میں ہوئی تھی اور اس کے بعد اب برسلز بھی تکفیری دہشت گردوں کے نشانے پر ہے –
پیٹرک کاکبرن اس حوالے سے حقائق پر مبنی بات کرتے ہیں اور نومبر میں ہی اس خطرے کی نشاندہی کر چکے ہیں –
پیٹرک کاکبرن کے مطابق شام اور لیبیا میں کھیلا جانے والا کھیل جلد ہی مغربی حکومتوں کے گلے پڑنے والا ہے – خاص طور پر فرانس اور برطانوی حکومت جو اس کھیل میں بری طرح ملوث ہیں انہوں نے تکفیری وہابی اور دیوبندی دہشت گردوں کے لئے مغرب کے دروازے کھول دیے ہیں – اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار ان حکومتوں کی جانب سے آل سعود کی حکومت کی اندھا دھند حمایت نے ادا کیا ہے –
اس حملے کے بعد بھی مغربی میڈیا اصل ذمہ داروں کو بچانے اور مغربی حکومتوں کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے میں کامیابی سے مصروف ہے جب کہ دوسری جانب وہابی دیوبندی تکفیری عفریت اپنی تمام تر خون آشامی کے ساتھ مغرب پر نازل ہو چکا ہے