باراک اوبامہ کی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں بارے سچی باتیں – عامر حسینی
“مرے بچپن کے دن جہاں گزرے وہ انڈونیشیا ہے ایک متحمل مزاج ، تنوع و تکثیر کو پسند کرنے والا سنّی اسلام کی اکثریت والا ملک تھا ان دنوں ، لیکن اب وہاں عدم برداشت ، خارج کردینے ، تکفیریت کا رجحان غالب ہے اور اس کی وجہ 90ء میں ہونے والی سعودی فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی ادارے ، وہابی استاد اور امام ہیں جنھوں نے اس ملک کے معاشرے کو بدل ڈالا “
امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کے کہے ہوئے الفاظ کا یہ مفہوم تقریبا ایسے ہی بنتا ہے اور کیا یہ مسلم معاشروں کی اکثریت بارے درست بات نہیں ہے کہ ان معاشروں کو انتہا پسندی ، تشدد ، عدم برداشت کی طرف ” وہاب آئزیشن ” کے پروسس نے دھکیلا اور مین سٹریم صوفی سنّی اسلام متشدد وہابیت میں بدل گیا
امریکی جریدے دی انٹلاٹک میں جیفری گولڈبرگ کا امریکی صدر سے کیا گیا ایک طویل ترین انٹرویو عالمی صحافتی حلقوں میں گرما گرم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے یہ انٹرویو ” اوبامہ ڈاکٹرائن ” کے عنوان سے شایع ہوا ہے – مڈل ایسٹ امور کے ماہر پیٹرک کوک برن نے اپنے حال ہی میں شایع ہونے والے آرٹیکل میں اس انٹرویو کے کئی ایک مندرجات پہ شاندار تجزیہ کیا ہے
یہ انٹرویو ہمیں بتاتا ہے کہ کیسے امریکی صدر باراک حسین اوبامہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے منہ پھیر لیا
پیٹرک کوک برن کہتا ہے کہ تجزیہ نگاروں کی اکثریت نے اوبامہ کے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں ( یہ وہ اتحادی ہیں جن کے ساتھ مل کر امریکہ ایک عرصہ سے ” فرقہ پرستانہ نفرت ” کو بھڑکانے کا کام کررہا تھا اور یہ علاقائی اتحادی اپنی طرف سے امریکہ کو علاقائی بالادستی کے لئے اپنی طرف سے جنگ کے میدان سجانے کے متمنی تھے )پر کئے جانے والے انتہائی ترش اور کڑوی تنقید کو مس کردیا – جیفری گولڈبرگ کے ساتھ انٹرویو کے ایک طویل سلسلے میں باراک حسین اوبامہ نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ آج کیوں امریکی اسٹبلشمنٹ کی مڈل ایسٹ میں جو پالیسی رہی اسے جاری رکھنا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے اور اوبامہ امریکی اسٹبلشمنٹ کی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی آٹومیٹک مدد کے خیالات کو حقیر سمجھتا ہے
پیٹر کوک برن کا خیال ہے کہ ” اوبامہ کے دلائل بہت اہم ہیں کیونکہ وہ کافی بڑے دائرے میں آنے والے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں ، بہت ہی احتیاط سے ان کو بنا گیا ہے اور یہ امریکی پالیسی میں متروک ہوجانے والی چیزوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں ” امریکی پالیسی کے ان پہلا اہم تبدیلی واقع ہونے کا موڑ اس وقت آیا جب امریکی صدر نے شام میں بشار الاسد کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال کرنے سے انکار کرڈالا اور یہ 30 اگست 2013ء تھا
شام پہ فضائی حملہ امریکہ کی شام میں ” حکومت بدلو ” پالیسی کا ایک حصّہ تھا اور اسے اوبامہ کی کابینہ اور امریکی خارجہ پالیسی کے ماہرین کی تجویز بھی کہا جاسکتا ہے
سعودی عرب ، ترکی اور خلیج عرب کی بادشاہتیں پریقین تھیں کہ ان کی آرزو بر آنے والی ہے اور امریکہ ان کے لئے بشار الاسد کا تختہ الٹنے جارہا ہے –ان کا یہ ماننا تھا کہ ایسا کرنا بہت ہی آسان ہوگا –لیکن یہ تب ہی ہوگا جب امریکہ پوری طاقت سے شام میں مداخلت کرے اور اس طرح سے اگر کوئی طاقت کا خلاء پیدا بھی ہوجاتا تو اسے مذھبی بنیاد پرست ہی پورا کرتے جیسے کہ انہوں نے عراق ، افغانستان اور لبیا میں کیا تھا – جیفری گولڈبرگ کی رائے میں اوبامہ نے شام پہ بمباری نہ کرکے اس چیز سے ناطہ توڑ لیا جسے وہ تحقیر سے ” واشنگٹن پلے بک ” کہتا ہے – یہ اس کی آزادی کا دن تھا
نائن الیون کے بعد سے جب بھی کوئی آل سعود کو سلفی جہاد ازم ( تکفیری فاشزم ) کو جنم دینے کا الزام دیتا تو امریکہ اس سے انتہائی ناخوش ، متنفر نظر آنے لگتا تھا ، حالانکہ اس تکفیری فاشزم / سلفی جہاد ازم کا جوہر جابرانہ سماجی اخلاقیات اور عورتوں کو لونڈی کے درجہ دینے کے علاوہ صوفی سنّی ، شیعہ اور اسلام کے دوسرے مسالک سے فرقہ وارانہ نفرت رکھنا ہے
صدر اوبامہ القاعدہ و داعش وغیرہ کے جنم ، ان کی اصل وغیرہ کے بارے میں بخوبی علم رکھتا ہے ، اسی لئے دوران انٹرویو اس نے بتایا کہ انڈونیشیا جہاں اس کے بچپن کا بیشتر حصّہ گزرا کیسے عدم برداشت اور تکفیر پرست ملک میں بدل گیا –جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہوا تو اوبامہ کا جواب تھا
سعودی اور دوسرے گلف عربوں نے اس ملک میں پیسہ بھیجا ، امام اور استاد بھیجے – 1990ء میں سعودیوں نے وہابی اسکولوں ، مدارس کو سپورٹ کیا جو کہ آل سعود کی حمایت یافتہ وہابیت کا درس دیتے تھے اور یہی ” سنّی اسلام ” سے ” وہابیت ” کی جانب شفٹ ہے جو مین سٹریم اسلام پہ اثر انداز ہورہی (جوکہ سنّی اسلام ہے ) اور ایک ارب چھے کروڑ مسلمانوں میں سے اکثریت ” سنّی اسلام ” کی پیروکار ہے جسے وہابیت کی طرف موڑنے کی کوشش سعودی پیسے سے بننے والے وہابی ادارے کررہے ہیں
تیل کی دولت سے مالا مال عرب ریاستیں کئی طریقوں سے اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کے لئے اپنا اثر پھیلاتی ہیں ، ان میں سے ایک طریقہ ” تبدیلی مذھب / مسلک بھی ہے جس میں سیدھے سبھاؤ اثر رکھنے والے افراد اور اداروں کو خریدنا بھی ہے اور یہاں تک کہ انتہائی بااثر امریکی اکیڈمکس جن کی واشنگٹن میں انتہائی مثبت شہرت تھی وہ بھی بے شرمی سے گلف ریاستوں سے سبسڈیز لیتے رہے بالکل ویسے ہی جیسے عراق ، شام ، لبنان ، پاکستان ، افغانستان ، یمن وغیرہ کے غارت گر لٹیرے ، وار لارڈ ، ملّا ان سے پیسے لیکر اپنی وفاداریاں پیچتے رہے ہیں
مسٹر گولڈ برگ جن کی اوبامہ اور ان کے سٹاف تک ایک لمبے عرصے تک غیر معمولی رسائی رہی ہے انہوں نے رپورٹ کیا
وائٹ ہاؤس کے اندر یہ احساسات بڑے پیمانے پہ پائے جاتے ہیں کہ واشنگٹن میں کئی نمایاں اور بہت ہی ممتاز تھنک ٹینک ایسے ہیں جو اپنے عرب اور اسرائیل نواز فنڈ دینے والوں کے مفادات کی نگرانی کرنے میں مصروف ہیں – میں نے ایک ایسے ہی انتظامی اہلکار کو کہتے سنے کہ میساچیوسسٹ ایونیو ایسے ہی تھنک ٹینک کے موجود ہونے کی جگہ ہے جسے وہ عربوں کے زریعے مقبوضہ ہونے والا علاقہ قرار دیتا ہے –ٹیلی ویژن اور اخبارات خوشی خوشی ایسے خودساختہ ماہرین کا حوالہ دیتے ہیں جن کا تعلق ایسے ہی بکے ہوئے تھنک ٹینکس سے ہوتا ہے گویا وہ ان کو غیر جانبدار اور کسی الزام سے مبرا معروضیت کے حامل دانشور یا تجزیہ نگار بناکر پیش کرتے ہیں -یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم نے شام ، عراق ، یمن لبنان وغیرہ پر سعودی نواز اینکر ، تجزیہ نگاروں ، کالم نگاروں ، تبصرہ نگاروں اور اکیڈمکس ، مولویوں کی ایک لاٹ کی لاٹ کو پاکستانی ٹی وی چینلز پہ ” انتہائی قابل قدر ، معزز ، غیر جانبدار ، لبرل ، پروگریسو ، اعتدال پسند ” بناکر دکھائے جانے کا سلسلہ دیکھا اور یہ عمل ابتک جاری و ساری ہے – ایک طرف مڈل ایسٹ ساگا کو سعودی-ایران بائنری میں بانٹ کر دیکھنے والے انتہائی لبرل- سیکولر نظر آنے والے نجم سیٹھی ، اعجاز حیدر ، بینا سرور ، المانہ فصیح ، رضا رومی ، یاسر لطیف ہمدانی وغیرہ تھے تو دوسری طرف طاہر اشرفی ، لدھیانوی ، مفتی نعیم وغیرہ تھے جبکہ حامد میر ، ڈاکٹر شاہد مسعود ، اوریا جان مقبول اور دیگر ایک طرف تھے اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے
یہ جاننا بھی اہم ہے کہ امریکی الیکشن کے بعد کیا نئے صدر امریکی فارن پالیسی کو متوازن رکھنے اور امریکی ملٹری پاور اور اس کے سیاسی مسلز کو استعمال کرنے کے متمنی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں پہ کلّی انحصار نہ کرنے کی روش جاری رکھیں گے ؟
ماضی میں امریکی صدور نے اس روش کے افغانستان ، عراق ، لبیا اور شام میں تباہ کن نتائج و عواقب سے صرف نظر کرلی تھی-مسٹر گولڈ برگ کہتے ہیں کہ صدر اوبامہ نے سختی اور ترشی سے یہ سوال کیا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ امریکہ کے وہابی عرب اتحادیوں کا امریکہ کے خلاف دھشت گردی کو ہوا دینے میں بہت بڑا کردار رہا ہے –وہ واضح طور پہ اس بات پہ ناراض دکھائی دیتے ہیں کہ فارن پالیسی آرتھوڈوکسی ان کو سعودی عرب کے ساتھ ایک ” اتحادی ” کے طور پہ سلوک کرنے پہ مجبور کرتی ہے
امریکی خارجہ پالیسی میں اب جس روش کو ترک کرنے کے آثار نظر آرہے ہیں ، اس بارے میں حیرانی صرف اس بات پہ ہے کہ ان کو تو بہت پہلے ترک کردیا جانا چاہئیے تھا ، ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ نائن الیون کے چند دنوں بعد یہ معلوم ہوچکا تھا کہ 19 میں سے 15 ہائی جیکرز سعودی عرب کے شہری تھے اور اسامہ بن لادن اور وہ چندہ کار بھی جنھوں نے اس کے لئے پیسہ فراہم کیا تھا سعودی تھے –پھر امریکہ نے سعودی عرب ، ترکی اور گلف بادشاہتوں کے ساتھ ایسے سلوک کیا جیسے وہ بہت بڑی پاورز ہوں جبکہ سارے شواہد یہ بتارہے تھے کہ ان کی اصلی طاقت اور وفاداری مغرب سے بہت محدود قسم کی ہے
اگرچہ یہ بات بہت واضح تھی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ لڑائی میں فتح اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے اندر ایسی لابی موجود ہیں جو ان کو سپورٹ فراہم کررہی ہیں لیکن امریکیوں نے اس ایشو پہ پاکستان سے کبھی زیادہ محاز آرائی نہ کی –گولڈبرگ کے مطابق اوبامہ نے زاتی طور پہ یہ سوال کیا کہ پاکستان کو کیوں ہر قیمت پہ پاکستان کا اتحادی خیال کیا جائے جبکہ وہ تباہ کن حد تک غیر فعال ملک بن چکا ہے ؟ ترکی کے حوالے سے امریکی صدر ترکی صدر بارے کچھ امیدیں رکھتے تھے لیکن اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ رجب طیب اردوگان ایک مطلق العنان حاکم بن چکا ہے جس کی پالیسیاں ناکامی کا شکار ہیں
اوبامہ کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وہ ناکامیوں اور غلطیوں سے سیکھتا ہے – لیکن کیا یہ بات ہم پاکستانی سیاسی و عسکری اسٹبلشمنٹ بارے کہہ سکتے ہیں ؟ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے باب میں الٹی کہانی ہے ، ایک طرف تو ضرب عضب ہورہا ہے ، انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پہ آپریشن کئے جارہے ہیں دوسری طرف تکفیری انتہا پسند تنظیموں کو فری ہینڈ مل رہا ہے ، یمن پہ درست پالیسی اپنانے کے بعد اچانک پھر سے سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی گئی ،
پاکستان میں سعودی عرب کو پاکستانی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی چھٹی ملی ہوئی ہے ، اسے پاکستان میں سنّی آبادی کو وہابی بنانے کی آزادی حاصل ہے اور سعودی عرب کی جانب سے سلفی اور دیوبندی نیٹ ورکس پہ سرمایہ کاری بنا کسی روک ٹوک کے جاری و ساری ہے –اچھے طالبان ، اچھے جیش والے ، اچھے دعوہ والے اس طرح کی تقسیم کرکے ” جہادی ، عسکری پراکسیز ” کو ابھی تک باقی رکھا گیا ہے اور پڑوس میں تزویراتی گہرائی ڈھونڈنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے –کیا اوبامہ سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ، جرمنی ، فرانس اور دیگر یوروپی حکومتیں بھی کچھ سکھیں گی جو ابتک لیبیاء میں قذافی کو نیٹو کے زریعے ہٹانے کے اقدام کو درست خیال کرتی ہیں اور ابھی تک انہوں نے اپنے ملکوں میں سعودی عرب ، اس کے عرب اتحادیوں کی جانب سے ‘ وہابیت پھیلاؤ ‘ ایجنڈے کے لئے ہونے والی فنڈنگ کو روکنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی اور یوروپ کو سعودی عرب سے ایکسپورٹ ہونے والی وہابیت کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا سے آنے والی وہابیب کی اتحادی ” نیو دیوبندی ازم ” سے بھی سخت خطرات لاحق ہیں لیکن ابھی تک کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا
اس میں حیرانی کی بات نہیں ہے کہ صدر اوبامہ کیمرون برطانوی وزیراعظم ، اور فرانسیسی سابق صدر نکولس سرکوزی کی جانب انتہائی حقارت آمیز اور توہین آمیز رویہ رکھتے ہیں جوکہ لیبیا کے خلاف فضائی حملے پہ سب سے زیادہ زور دینے والے نیٹو اتحادی تھے
نومبر 2016ء میں امریکی صدارتی الیکشن کے بعد یہ واضح ہوجائے گا کہ اوبامہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں بارے جو حقیقت پسندی پہ مبنی موقف اپنایا اور اس کے امریکی فارن پالیسی اسٹبلشمنٹ بارے جو شکوک و شبہات ہیں وہ نئی امریکی انتظامیہ سے کس قدر شئیر کئے جائیں گے –آثار اگرچہ اچھے نہیں ہیں کیونکہ ہلیری کلنٹن نے 2003ء میں عراق پہ حملے ، لیبیا میں 2011ء میں مداخلت اور 2013ء میں شام پہ بمباری کی حمایت کی تھی – اگر وہ وائٹ ہاؤس جیت لیتی ہے تو سعودی اور امریکی فارن پالیسی اسٹبلشمنٹ یقینی بات ہے سکھ کا سانس لیں گی