فرشتوں کے آنسو – صداۓ اہلسنت
نوٹ : یہ دستاویزی فلم عراق کے ترکمان یتیم بچوں پر بنائی گئی جوکہ عراق کے شہر تلعفر سے بھاگ کر نجف و کربلاء میں پناہ گزین ہوئے اس وقت جب داعش نے تلعفر پر قبضہ کرلیا – اس دستاویزی فلم سے تکفیری وہابی خارجی دھشت گردوں کا چہرہ خوب عیاں ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کسقدر ظالم ہیں – یاد رہے کہ داعش ہو کہ النصرہ فرنٹ ہو یا پاکستان میں طالبان و لشکر جھنگوی کے نام سے دھشت گردی پھیلانے والے ان کا اسلام / سنّی اسلام سے تعلق تو درکنار انسانیت سے بھی کوئی واسطہ تعلق نہیں ہے –یہ گروہ اپنے آپ کو امام الخوارج و التکفیریہ شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی سے وابستہ کرتے ہیں اور اس گروہ نے ترکمان کی بچیوں سے ان کی مائیں ، بہنیں ، باپ ، بھائی سب چھین لئے
ہم ربیعۃ کی طرف گئے اور مرے والدین عوینات کی طرف – ہم نے ان کا انتظار کیا – میں اور مرے انکل نے کافی طویل انتظار کیا لیکن ان کی کوئی خیر خبر نہ آئی – ہم تلعفر سے فرار ہوئے سنجر آئے ، سنجر سے ہمیں نکلنے نہیں دیا گیا اور پھر ربیعۃ لے آئے وہ ایسے علاقہ کنٹرول کرتے ہیں مرے انکل نے مرے والد سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟مرے والد نے بتایا کہ وہ ان کے قبضے میں پھنس چکے ہیں
انکل نے پوچھا کہ کن کے قبضے میں ؟ مرے والد نے کہا کہ وہ ان کا نام نہیں لے سکتے انکل نے کہا وہان مت رکیں والد نے کہا کہ ہم ایسے پھنسے کہ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے والد نے انکل سے پوچھا کہ ان کی بیٹی اس کے پاس ہے کیا ؟ انکل نے کہا ہاں !والد نے کہا کہ وہ آیۃ سے بات کرنا چاہتا ہے تو تھوڑی دیر ہم نے بات کی اور پھر رابطہ منقطع ہوگیا ہم نے اپنے والد کی کار کو دور سے جلتے دیکھا ، کار میں مری والدہ کے زیور اور رقم بھی تھی
کار ساری کی ساری جل گئی تب سے میں اکیلی ہوں ، اپنے باپ اور ماں کی گمشدگی کا ماتم کرتی ہوں اور نہیں جانتی کہ ان کے ساتھ کیا ہوامرا خاندان مجھ سے بہت پیار کرتا تھا ، میں اپنے والدین کو یاد کرکے روتی ہوں ، اللہ ہمیں ظالموں سے نجات دلائے
زینب : داعش کے تلعفر داخل ہونے سے پہلے ہمارا خوبصورت گھر تھا ، انھوں نے ہمارے گھر سے ہمیں بے دخل کردیا اور ہم سنجر کی طرف بڑھے ، وہ ہمارے پیچھے کار میں آئے اور ہمیں سڑک پہ روک لیا – میں سب سے چھوٹی اور باپ کی لاڈلی تھی ، ہر ایک کے والد ہین مرے نہیں ہیں – داعش والوں نے مرے انکل کو مارا پیٹا ، ہماری کار کو آگ لگائی اور زیور لوٹ لیا ، عورتوں اور بچوں کو مارنا شروع کردیا ، وہ ہم پہ ظلم کررہے تھے ، میں اپنے والد کے بغیر ہوں ، پریشانی اور غم نے مجھے گھیر رکھا ہے ، جب کبھی میں اپنے انکل کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے باپ کی یاد آتی ہے ، اللہ کرے کہ ان کی سالمیت کے ساتھ واپسی ہوجائے
اب ہم نجف و کربلاء میں قیام کرتے ہیں ، ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ، یہاں سردی بہت ہے ، میں اپنے والدین کو یاد کرتی ہوں ، مرے دوست ہوا کرتے اور ایک خاندان تھا ، ہم سب اکٹھے تھے ، اللہ ہمیں ان سے نجات دے
مرد: ہم تلعفر سے آئے ہوئے لوگ ہیں ، داعش سے بچ نکلے لیکن وہ اس لڑکی کا سارا خاندان لے گئے ، اس لڑکی کی ماں ، بہنیں ، والدہ ، والد سب کو لے گئے
زینب : میں بڑی ہوکر انجینئر بنوں گی ، اسکول میں سب لڑکیوں کی مائیں ہیں بس مری ماں نہیں ہے – رونے لگتی ہے بچی