گستاخِ رسولؐ کے معاملے پر امام اعظم ابو حنیفہؒ کا موقف
اہل حدیث عالم بنام غلام محی الدین صاحب نے 1297 ہجری (1879 عیسوی) میں ’ظفر المبین‘ نامی کتاب لکھ کر امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مختلف مواقف پر اعتراضات اٹھائے تھے اور انہیں غلط کہا تھا۔ ان میں سے ایک مسئلہ ’بیان نقص عہد ذمی‘ کا تھا۔ اس کے جواب میں ’دار العلم و العمل فرنگی محل‘ کے ایک بڑے حنفی سکالر جناب مولانا محمد منصور علی بن مولانا محمد حسن علی مراد آبادی نے فتح المبین کے نام ایک کتاب لکھی تھی جو تصدیق کے لئے برصغیر کے بیشتر اہم حنفی مدارس میں بھیجی گئی تھی، جس پر برصغیر کے تقریباً تمام بڑے حنفی علما نے مہر تصدیق ثبت کی تھی اور اسے درست قرار دیا تھا۔ ان علما میں مولانا یعقوب نانوتوی (دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث) مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمود الحسن مع تمام اساتذہ دارالعلوم دیوبند، اور مولانا احمد رضا خان بریلوی جیسے اکابرین بھی شامل تھے۔ کتاب کے آخر میں تقریباً پینسٹھ صفحات پر علمائے برصغیر نے تصدیقی و تائیدی بیانات مع مہر و دستخط دیے ہیں۔ اس کتاب میں سے ’بیان نقص عہد ذمی‘ کے مسئلے میں سے چند اقتباسات بعینہ یہاں لکھے جا رہے ہیں تاکہ حنفی اکابرین کا شتم رسولؐ پر موقف واضح طور پر عوام الناس جان سکیں۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی یہ رائے ہے کہ اگر غیر مسلم شخص رسول پاکؐ پر بار بار دشنام طرازی کرنے کی قبیح حرکت کرے تو پھر ہی اس کا عہد ذمی ٹوٹتا ہے اور اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے، ایک بار کرنے پر اسے سزائے موت نہیں دی جا سکتی ہے۔ جبکہ مسلمان شخص ایسا ایک بار بھی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے اور اس پر مرتد کا حکم لگتا ہے۔ اسے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور وہ توبہ کر کے دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔ ہاں وہ توبہ نہ کرے تو پھر اس کو مرتد کی سزا ملے گی۔
عبارت انیسویں صدی کے اواخر کی اردو میں ہے اس لئے پڑھنے میں یقینی طور پر کچھ دقت پیش آ سکتی ہے۔ لیکن حوالہ کو اصل مضمون کے ساتھ دینا ضرور تھا۔ صرف ‘اونکے’ وغیرہ جیسے الفاظ کو ‘ان کے’ کی طرح آج کے اسلوب میں لکھا گیا ہے۔
قال: مسئلہ پنجم اور ایک مسئلہ امام اعظم اور ان کے شاگردوں ابو یوسف و محمد کا مخالف پیغمبرؐ کی دو حدیثوں کے یہ ہے جو کہ ہدایہ اور شرح وقایہ اور کنز الدقائق وغیرہ میں لکھا ہے
یعنی جو ذمی جزیہ دینے والا جزیہ دینے سے انکار کرے یا کسی مسلمان کو مار ڈالے یا گالی دے نبی علیہ السلام کو یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے تو ان امور سے اس کا عہد ذمی کا نہیں ٹوٹتا۔
اقول: اس حدیث سے مخالفت ہرگز نہیں سمجھی جاتی بلکہ اگر الفاظ حدیث پر آپ غور فرماتے تو بیشک موافق پاتے۔ حدیث میں ’کانت نشتم‘ کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو مکرر سب و شتم واقع ہو اور عادت ہو جائے تو اس کو قتل کرنا چاہیے اس لیے کہ اس لفظ کے معنی ہیں کہ سب و شتم کیا کرتے تھے، یہ معنی نہیں کہ ایک بار اس نے شتم کیا اور قتل کی گئی ہو اور اگر ایک بار مراد ہوتی تو ’کانت شتمت‘ ہوتا جس کے معنی ہیں شتم کیا تھا اس نے۔ پس لفظ حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک مکرر نہ ہو تو قتل نہ کرنا چاہیے۔ سو امام صاحب بھی اس کے مخالف نہیں کہتے اس لیے کہ ردالمحتار میں جس کی عبارت آپ نے نقل کی ہے اس کے بعد وجہ توفیق بھی مرقوم ہے۔
یعنی قول صاحب درالمختار کا اور ساتھ اسی کے یعنی قتل کے فتوی دیا ہے ہمارے شیخ نے یعنی ابو مسعود مفتی روم نے بلکہ فتوی دیا ہے ساتھ اس کے اکثر حنفیہ نے جس وقت کثرت کرے گالی دینے کی جیسا کہ بیان کیا ہے ہم نے اس کو صارم مسلول سے اور یہی معنی قول مصنف کے ہیں جس وقت ظاہر ہو جائے کہ یہ عادت اس کی ہے مثل اس کے وہ صورت ہے کہ اعلان کرے ساتھ اس کے اس کو جیسا کہ گزرا اور یہی معنی ہیں قول ابن ہمام کے جس وقت ظاہر کرے اس کو قتل کیا جائے۔ بسبب اس کے اس نے اور منتقی میں لکھا ہے
یعنی جس وقت ظاہر نہ کرتا ہو پس اگر ظاہر کرے شتم کو یا عادت کرے اس کی قتل کیا جائے گا اگرچہ عورت ہو۔ پس معلوم ہوا کہ امام صاحب کا قوم مطابق حدیث کے ہے اور حدیث میں عادت اور کثرت کی وجہ سے قتل ہے سو اس کا امام صاحب انکار نہیں کرتے۔ امام صاحب غیر معتاد کے واسطے یہ حکم بیان کرنے ہیں کہ قتل نہ کیا جاوے چنانچہ جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس میں لفظ ’سب‘ کہ ماضی ہے اس پر دال ہے جیسے ’قتل مسلما‘ سے ایک ہی قتل مراد ہے ایسے ہی ’سب‘ سے ایک ہی ’سب‘ مراد ہے۔ کوئی اس میں ایسا لفظ جو استمرار اور تکرار پر دلالت کرتا ہوں نہیں۔ البتہ حدیث میں ایسا لفظ موجود ہے کیونکہ لفظ ’کان‘ فعل مضارع سے پہلے ہوتا ہے تو معنی استمرار اور تکرار کے دیتا ہے، اس صورت میں بیشک امام صاحب کے نزدیک بھی قتل ہے چنانچہ درالمختار میں ہے کہ اصول حنفیہ سے یہ امر ہے کہ جس چیز میں قتل مقرر نہیں نزدیک حنفیہ کے جس وقت وہ فعل مکرر ہو پس چاہیے امام کو کہ اس کے کرنے والے کو قتل کرے۔ اس کے بعد لکھا ہے
یعنی پس تحقیق فائدہ دیا اس نے اس کا کہ جائز ہے نزدیک ہمارے قتل اس کا جس وقت مکرر ہو اس سے یہ اور ظاہر کرے اس کو۔ اور شرح قدوری میں فصل جزیہ میں لکھا ہے کہ ہماری دلیل وہ ہے جو حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ کہا انہوں نے، ایک جماعت یہودیوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی پس انہوں نے ’السام علیک‘ کہا۔ عائشہ صدیقہؓ نے، پس سمجھ گئی میں اس لفظ کو، پس کہا میں نے اور تم پر ہلاکت اور لعنت ہو۔ پس فرمایا آنحضرتؐ نے مت کہہ ایسا اے عائشہؓ تحقیق اللہ تعالی پسند کرتا ہے نرمی کو کل کام میں۔ پس کہا میں نے کیا آپ نے سنا نہیں جو انہوں نے کہا۔ پس فرمایا آنحضرتؐ نے تحقیق کہا میں نے اور تم پر پس یہ گالی نبیؐ کو اگر ہوتی کسی مسلمان سے تو حلال ہو جاتا خون اس کا حالانکہ نہیں قتل کیا آپ نے ان کو۔ اسی طرح کہا امام طحاوی نے اور ظاہر یہ ہے کہ امام بخاری کا بھی یہی مذہب ہے چنانچہ ذکر کیا اس کو علامہ عینی نے شرح بخاری میں۔ ہاں یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب یہ لفظ شتم ہوا تو پھر آنحضرت نے ’وعلیکم بواو عطف‘ کیوں فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واو عاطف نہیں بلکہ واسطے استیناف کے سر جملہ لائے ہیں۔
دوسرا شبہ یہ ہوتا ہے کہ کعب بن اشرف کے واسطے آنحضرتؐ نے فرمایا کہ کون اس کے قتل کا ذمہ کرتا ہے، اس نے اللہ اور رسولؐ کو اذیت دی ہے اور آپ نے ایسے شخص کو اس کی طرف بھیجا تھا جس نے اس کو دھوکے میں قتل کیا۔ سو جواب اس کا یہ ہے کہ اس کو بمجرد شتم کے آپ نے قتل نہیں کرایا بلکہ وہ آدمیوں کو آپؐ کے ساتھ لڑنے کو جمع کرتا تھا۔ علاوہ اس کے وہ اہل ذمہ سے بھی نہ تھا بلکہ مشرک تھا، آپ سے مقابلہ کرتا تھا۔
ایسا ہی بیان کیا شیخ الاسلام علامہ عینی نے شرح بخاری میں۔ پس باوجود بخاری کی حدیث کے اب عمل آپ کا کہاں چلا گیا اور بخاری کی حدیثوں سے استنباط کون اٹھا کر لے گیا۔ غرض امام صاحب کے مخالف ہونا اور طعن کرنا آپ نے اپنے اوپر فرض سمجھ لیا ہے جہاں اپنے زعم میں خلاف واقع کی مخالفت پاتے ہو۔ پھر کیسی ہی حدیث صحیح موجود ہو فقط اپنی رائے کو اس وقت صائب جانتے ہو۔ ذرا خدا سے بھی ڈرنا چاہیے۔ اگر اسی اپنے خیال کا نام مخالفت ہے تو خیر دنیا میں تو کون بازپرس کرتا ہے مگر فردائے قیامت اگر حق تعالی آپ سے حجت طلب کرے کہ کون سی وجہ سے شیوہ طعن تم نے اختیار کیا تھا تو پھر بغلیں جھانکو گے۔ آئندہ آپ جانیں مگر یہ طریقہ آپ کا سب طریقوں سے بدتر ہے گو آپ اپنے خیال میں کچھ سمجھیں۔
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا احمد رضا خانؒ جیسے اکابرین ملت نے اس کتاب کی تصدیق و تائید کی ہے۔ج